ذرا بندِ قبا دیکھ

مقتدا منصور  جمعرات 10 مارچ 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

جوڑ لگتے گئے فسانے میں، موڑ آتے گئے کہانی میں۔ پیر کو بے ربط کہانی اور کمزور اسکرپٹ والے ڈرامے میں ایک اور کردار شامل ہوگیا ہے۔ شنید یہ ہے کہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد بھی جلد ہی اس ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہونے والے ہیں ، مگر ملین ڈالر سوال یہی ہے کہ آیا کسی قوت کے کاندھوں پہ سوار یہ فنکار اربن سندھ کے عوام کے دلوں میں کوئی گنجائش پیدا کرسکیں گے یا نہیں؟

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ چند ایک کو چھوڑ کر تجزیہ نگاروں اور اینکروں کی واضح اکثریت ایم کیو ایم کی سیاسی حرکیات(Dynamics)اور اربن سندھ کے عوام کی نفسیات کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہے۔ وہ شام کو 7بجے سے12بجے تک اس اسکرپٹ پر قوالیاں گاتے ہیں، جو انھیں نادیدہ ذرایع سے ملتی ہیں۔

سندھ سے باہر بہت کم لوگوں کو اندازہ ہے کہ اربن سندھ میں کسی قوت کی جانب سے متعارف کردہ کسی فرشتے کو بھی قبول نہیں کیا جائے گا، جب کہ الطاف حسین کسی لولے لنگڑے شخص کو اپنا جانشین نامزد کردیں گے تو وہ قابل قبول ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ لاہور اور اسلام آباد کے اینکرز خواہ صد فی صد صحیح بات کریں تب بھی سندھ کے عوام ان پر اعتبار کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، کیونکہ ان کے بارے میں یہ عمومی تاثر قائم ہوچکا ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں، اس میں کسی نہ کسی طور اربن سندھ میں آباد کمیونٹی کی تحقیر کا پہلو ضرور ہوتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ اربن سندھ میں اردو بولنے والی کمیونٹی کے ووٹ کو تقسیم کرنے کی کوئی بھی کوشش فی الحال کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی۔

اب آتے ہیں اس ارتعاش کی جانب جو ریاستی منصوبہ سازوں نے بڑے اہتمام کے ساتھ سندھ کے شہری علاقوں میں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ایسا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہوتا جو تعصب، تنگ نظری اور موقع پرستی کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہو۔

دوسری بات یہ کہ سیاسی منڈی میں اتارے گئے لوگوں سے جس انداز میں ان کے سیاسی اتالیق(Mentor) کی کردار کشی کرائی جا رہی ہے، اس نے کئی حساس سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی شہر میں گردش کر رہا ہے کہ کیا ذرایع ابلاغ کسی اور قوت کے بارے میں تھوڑا سا بھی کچھ کہنے کی جرأت کرسکیں گے جو الطاف حسین کے بارے میں کہی جا رہی ہیں۔ایک سوال یہ بھی کیا جارہا ہے کہ جو لوگ اپنے محسنوں کے ساتھ اس قسم کا سلوک کرسکتے ہیں، جس نے انھیں عزت و شہرت کے بام عروج تک پہنچایا، وہ کس طرح عوام کے وفادار اور ہمدرد ہوسکتے ہیں؟

بزرگوں کا قول ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ یہ قول ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اس کے شواہد ہمیں اکثرو بیشتر ملتے رہتے ہیں۔24برس قبل بھی ایسا ہی ایک کھیل کھیلا گیا تھا۔ اس کھیل میں جن کرداروں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا، وہ جلد ہی ایک دوسرے کو جھٹلا کر غلط ثابت کرنے لگے۔ چند برس قبل جناح پور کی حقیقت کا پردہ چاک ہو گیا تھا۔ سازشی منصوبہ بندی کرتے وقت اس بارے میں سوچ لینا چاہیے تھا۔

بعض غیر جمہوری قوتیں اقتدار و اختیار کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے روز اول سے جو جتن کرتی رہی ہیں، اس نے ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ہم ایک سے زائد مرتبہ معروف دانشور حمزہ علوی کے حوالے سے یہ واقعہ نقل کر چکے ہیں کہ چوہدری محمد علی کی قیادت میں چند سینئر بیوروکریٹس نے ایک متوازی کابینہ قائم کر رکھی تھی جو ریاستی فیصلہ سازی پر مکمل طور پر حاوی تھی۔ ملک کا پہلا وزیراعظم اور اس کی کابینہ اس قدر بے بس و لاچار تھے کہ وہ اس ٹولے کی منشا کے بغیر کوئی فیصلہ کرنے کی جسارت نہیں کرسکتے تھے۔

لیاقت علی خان نے ایک سے زائد مرتبہ اپنے وزرا سے کہا کہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے چوہدری محمد علی سے پوچھ لو کہ انھیں اور ان کے رفقا کو یہ فیصلہ منظور ہے یا نہیں۔ دو مرتبہ انھوں نے گورنر جنرل کو اپنا استعفیٰ بھی پیش کیا جو بوجہ منظور نہیںکیا گیا۔

ایوب خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کی کردار کشی (Character Assassination)کی جو بنیاد رکھی، اس نے بعد میں کلچر کی شکل اختیار کر لی۔سیاسی رہنماؤں پر ملک سے غداری جیسے سنگین الزامات عام سی بات بن گئے ہیں۔سرخ پوش رہنما باچا خان مرحوم ہوں یا سائیں جی ایم سید یا عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمان مرحوم، کون سا ایساعوامی رہنماہے، جس پر ملک سے غداری اور بھارت کا ایجنٹ کا الزام نہیں لگا۔

شیخ مجیب الرحمان، جنہوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں فعال کردار ادا کرنے کی خاطر کچھ عرصے کے لیے اپنی تعلیم تک روک دی تھی جب انھوں نے بنگالی عوام کے حقوق کی بات کی تو ان پر بھارتی خفیہ ایجنسی سے اگرتلہ کے مقام پر امداد لینے کا الزام لگا کر انھیں پابند سلاسل کردیا گیا۔

مگر اس الزام کی صداقت کا یہ عالم تھا کہ اسے کسی عدالت میں ثابت نہیں کیا جاسکا۔ 1968میں جب ان کے خلاف عوامی تحریک اپنے عروج پر پہنچی اور اپنا اقتدار بچانے کے لیے انھیں کل جماعتی گول میز کانفرنس بلانے کی حاجت محسوس ہوئی تو اگرتلہ سازش کیس جیسا سنگین الزام واپس لے کر شیخ مجیب مرحوم کو اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی اور ایوان صدر میں ان کا استقبال کیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیخ صاحب مرحوم پر لگایا جانے والا الزام غلط تھا یا ایوب خان کا ایوان صدر میں ان کا استقبال۔

مرحوم باچا خان نے انگریزی استعمار سے اس دھرتی کو آزاد کرانے کے لیے طویل قید وبند برداشت کی۔انھوں نے پختون عوام میں سیاسی شعور اور امن پسندی کا احساس اجاگر کیا۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں نے بانی پاکستان سے مل کر نئے ملک کی اخلاص کے ساتھ خدمت کا عندیہ دیا۔ مگر  ان کی قائد اعظم سے ملاقات نہیں ہونے دی گئی۔

سائیں جی ایم سید سندھ دھرتی سے تعلق رکھنے والی وہ صوفی منش دانشور ہستی تھے جنہوں نے پاکستان کے حق میں سندھ اسمبلی سے قرارداد منظور کرائی۔ مگر جب بعض امور پران کا قیادت سے اختلاف ہوا، پہلے انھیں دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال پھینکا گیا۔ پھر ان پر غداری اور بھارت نوازی کا الزام لگا کر تاحیات ان کا میڈیا ٹرائل کیا گیا۔ بھٹو مرحوم پر ملک توڑنے اور محترمہ شہید کو سیکیورٹی رسک قرار دینے میں منصوبہ ساز پیش پیش تھے۔

لیکن المیہ یہ ہے کہ  جو کھیل کھیلا جا رہا ہے یا گزشتہ 68برس سے جاری ہے،اس میں بالواسطہ یا بلاواسطہ سیاسی جماعتوں اور ذرایع ابلاغ کا ہر دور میں تعاون حاصل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منصوبہ ساز اپنے مخصوص مفادات کی خاطر کبھی سیاسی جماعتوں کو نان ایشوز میں الجھا کر ایک دوسرے سے دست و گریباں کردیتے ہیں کبھی ذرایع ابلاغ کوگوئبلز طرز کا پروپیگنڈاکرانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ یہ بھی کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی مسئلہ اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچنے پائے۔

عوام کے ذہنوں میں کنفیوژن برقرار رہے اور وہ فکری طور پر منقسم رہیں۔ یہی کچھ معاملہ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں پر لگنے والے الزامات کا ہے۔ مگر عوام ان ہتھکنڈوں کو بخوبی سمجھنے لگے ہیں، اس لیے وہ اس قسم حرکتوں اور طاقت کے بے بہا استعمال کے باوجود اپنی رائے تبدیل نہیں کرتے۔ البتہ اس کھیل کا یہ اثر ضرور ہوتا ہے کہ لوگوں کی توجہ اصل ایشوز سے ہٹ کر نان ایشوز میں الجھ جاتی ہے۔

پہلے بھی عرض کیا ہے اب پھر گذارش ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ایم کیو ایم بھی ایک سیاسی تنظیم ہے جس سے سرزد ہونے والی فاش غلطیاں، کوتاہیاں اور کمزوریاں اپنی جگہ ہیں۔ مگر یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ عوام کی ایک بڑی تعداد کی نمایندہ جماعت ہے۔منصوبہ ساز تو اپنے مخصوص مفادات کی خاطر جناح پور کے نقشے کی طرح بھارت نوازی کا الزام بھی کسی وقت واپس لے سکتے ہیں۔ مگر اس جماعت کے ووٹر کے سینے پر جو زخم لگے ہیں، کیا وہ اتنی جلدی بھر سکیں گے؟ پھر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس غیر سنجیدہ طرز عمل کے نتیجے میں مختلف کمیونٹیز کے درمیان نفرتوں کی جوخلیج پیدا ہو رہی ہے، کیا وہ آسانی سے پاٹی جاسکے گی؟

گزارش یہ ہے کہ سیاسی عمل کو اس کی اپنی Dynamicsکے ساتھ چلنے دیا جائے۔ سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے نتیجے میں خود ہی شکست و ریخت کا شکار ہوتی رہتی ہے، جو کہ ایک فطری سیاسی عمل ہے۔ وہ اپنے تجربات سے اپنے Credentialsدرست کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ اس لیے منصوبہ سازوں کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ ’’دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندقبا دیکھ۔‘‘ آپ لوگوں کی کتنی ہی زباں بندی کردیں لیکن لوگ آپ کی کمزوریوں سے بخوبی واقف ہیں۔

جو چپ رہے گی زبان خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔