شب سمور اور شب تنور

ہمارے ملک پاکستان میں قدرت نے انسانی آسائش کے لامحدود سلسلے قائم کر رکھے ہیں


Abdul Qadir Hassan April 30, 2016
[email protected]

ISLAMABAD: ہمارے ملک پاکستان میں قدرت نے انسانی آسائش کے لامحدود سلسلے قائم کر رکھے ہیں اور ہم انھی قدرتی عطیوں کے سہارے زندہ ہیں ورنہ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے ملک کے منتظمین نے ان آسائشوں کو بے اثر اور بے سود کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ ہمیں خدا نے چار موسم عطا کیے ہیں اور ہر موسم اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ ہر سال اپنی باری پر مہربانی فرماتا ہے پوری سخاوت اور فیاضی کے ساتھ کسی بھی موسم کا تذکرہ تو وہ کرے جس نے ان موسموں کا لطف نہ اٹھایا ہو۔

گرمی ہو یا سردی بہار ہو یا خزاں ہر موسم مہکتا ہوا آتا ہے اور اپنا نقش چھوڑ جاتا ہے پھر لوٹ کر آنے کے لیے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی موسم نے دوبارہ یاد نہ کیا ہو اور ہمیں اپنے لیے اداس چھوڑ دیا ہو۔ ہم ہر موسم کے لیے اس کے مطابق کپڑے تیار کرتے ہیں اور اس کے گزر جانے پر ان کپڑوں کو سنبھال کر رکھ لیتے ہیں کیونکہ ان سے اپنے جسموں کو آراستہ کرنے کا موسم آنے والا ہوتا ہے اور یہ ملبوسات اپنے اپنے موسم کی یادوں کو زندہ رکھتے ہیں۔

بڑی خاموشی کے ساتھ اور صبر کے ساتھ کسی صندوق یا الماری میں بند اپنے موسم کی یاد میں سوتے رہتے ہیں اور اپنے پردوں میں محفوظ زہریلی دواؤں کے ساتھ کیڑے مکوڑوں سے لڑتے رہتے ہیں اور نئے موسم کے لیے اپنے سروپا کو بچا لیتے ہیں اور گزشتہ موسم والے جسم کو ایک بار پھر ڈھانپ لیتے ہیں اور یوں انسانی جسموں اور ان کے ملبوسات کا رشتہ قائم رہتا ہے۔ نہ انسانی جسم اپنی پسند اور ضرورت کے لباس کے بغیر آسودہ رہتے ہیں اور اگر ان ملبوسات کی بھی زبان ہو تو یہ بھی اپنی یاد دلاتے ہیں اور مناسب موسم کا استقبال کرتے ہیں۔

ان ملبوسات کو پورا سیزن محفوظ رکھنے کی کوشش ہی ان کی یاد تازہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ تعجب ہوتا ہے ان لوگوں کو دیکھ کر جو لباس کو سِلانے کی زحمت نہیں کرتے اور کُھلا لباس یعنی لباس کی چادر ہی اوڑھ لیتے ہیں البتہ حسب توفیق تو یہ کپڑا موسم کے مطابق گرم یا ٹھنڈا ہوتا ہے۔ ایک تو پرانے زمانے کی تصویروں میں کھلی چادروں میں لِپٹے ہوئے انسان دکھائی دیتے ہیں اور ہمارے ان دنوں میں بھی افریقہ کے ملکوں میں کھلی چادروں میں لپٹے ہوئے انسان دکھائی دیتے ہیں جو ان کپڑوں کو سلوانے کی توفیق نہیں رکھتے اور ایسے ہی اَن سِلے کپڑوں میں وقت گزار لیتے ہیں لیکن آپ نے شاید کبھی غور کیا ہو کہ سِلے اور اَن سِلے کپڑوں میں ملبوس انسانوں کا وقت گزر ہی جاتا ہے اور دونوں ایک ہی طرح نئے سیزن کا استقبال کرتے ہیں۔

یہاں ایک حکایت یاد آ رہی ہے جس کو 'شب سمور گزشت و شب تنور گزشت' کا عنوان دیا گیا ہے۔ سردیوں کے دن تھے اور اس رات کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی۔ ایک درویش اور ملنگ سردی میں کانپتا ہوا ان خیموں کی طرف بڑھا جو شکاریوں نے شب بسری کے لیے لگا رکھے تھے۔ اس فقیر نے جس خیمے میں بھی جھانکا اسے ڈانٹ پڑی کی بھاگ جاؤ جگہ نہیں ہے اس طرح وہ عام خیموں سے الگ سردار کے خیمے کی طرف گیا کہ بعض بڑے لوگوں کے پاس کسی مہمان کی گنجائش بھی ہوتی ہے چنانچہ اس نے بڑی امید کے ساتھ سردار کے خیمے کا پردہ اٹھایا تو محافظوں نے نہ صرف اسے جھاڑ دیا بلکہ دھکے بھی دیے۔

یہ سب دیکھ کر اس درویش ملنگ کو قریب ہی ایک تنور دکھائی دیا جو بُجھ چکا تھا مگر گرمی ہنوز باقی تھی۔ وہ اپنی گدڑی میں لپٹ کر اس تنور کے ساتھ لگ کر سو گیا جب صبح اٹھا تو اسے یاد آیا کہ اس کے قریب ہی رات کو ایک رئیس نے سمور اور اُونی کپڑوں میں رات بسر کی جس نے اسے خیمے کے اندر داخل نہیں ہونے دیا تھا اس پر اس فقیر نے بے ساختہ ایک بات کہی جو ایک محاورہ بن گئی کہ 'شبِ سمور گزشت و شبِ تنور گزشت' کہ سمور اور گرم کپڑوں میں لپٹ کر بھی رات گزر گئی اور تنور کے ساتھ لپٹ کر سونے سے بھی رات گزر ہی گئی۔ اگر آپ زندگی پر غور کریں تو آپ بھی کسی کی محتاجی کے بغیر ہی عزت کے ساتھ وقت گزار لیتے ہیں جیسے اس ملنگ اور درویش نے رات بسر کر لی اور کسی سے بھی پوچھیں تو وہ اس درویش کو ایک باعزت اور باغیرت انسان قرار دے گا۔

ہماری اخباری زندگی میں ہمیں بارہا شب سمور اور شب تنور والوں سے واسطہ پڑا۔ ان میں کچھ لوگ تو وہ تھے جنہوں نے کہا کہ وقت گزر ہی گیا لیکن ممدوح پر ہماری وفا کی دھاک بیٹھ گئی اور جس کام کے لیے یہ مشقت برداشت کی تھی وہ یہ دیکھیں کہ ہو گیا ہے جو ہماری ضرورت کے لیے بہت ہے۔ زندگی کا یہ انداز بھی عام ہے جو ہماری اخباری زندگی میں ہمیں بارہا دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس میں شب سمور والے بھی ہوتے ہیں اور شب تنور والے بھی لیکن خوشی ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی۔

تنور کی گرمی والے بعض راتیں بے چین بھی کر دیتی ہیں۔ بہر کیف زندگی اسی اتار چڑھاؤ کا نام ہے اور یہ یونہی گزرتی ہے بس جو لوگ تنور پر بھی راضی ہو جاتے ہیں وہ مراد پاتے ہیں اور قلبی سکون بھی جو سمور کی تلاش میں رہتے ہیں کبھی کامیاب اور پرسکون راتیں اور کبھی بے چین۔ یہی زندگی ہے اور سب کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ کبھی شب سمور ہو گی تو کبھی شب تنور۔ کبھی اقتدار کا محل تو کبھی جیل کی کوٹھڑی۔

مقبول خبریں