ہم اور نیت وکردار کا بحران

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 24 ستمبر 2016

افلاطون کہتا ہے ’’انسان ازل سے لالچی اور آرام پسند ہے، اس کی فطرت میں ہی قناعت پسندی نہیں ہے وہ ہر وقت ایک جستجو اور تلاش میں رہتا ہے اور زیادہ سے زیادہ پر قابض ہونے کی کوشش کرتا ہے ۔ وہ دوسرے انسانوں سے اس لیے بھی حسدکرتا ہے کہ ان کے پاس اس سے زیادہ کچھ ہے۔ وہ لالچ، حسد اور ہوس کے جنون میں دوسروں کے حقوق پر ڈاکے ڈالتا ہے۔

ان کی املاک،جائیداد اور علاقے پر قبضے کرنے کے لیے جنگ چھیڑتا ہے یا دھن کمانے کے لیے تجارت وغیرہ کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک دولت مند اور تاجر طبقہ پیدا ہوتا ہے جو کہ ہمہ وقت خود سے کم اور غریب طبقے کو مسلسل لوٹا رہتا ہے یہ طبقہ جب حد سے زیادہ امیر ہوجاتا ہے تو پھر اقتدار پر قابض ہوجاتا ہے اور چند دولت مند خاندانوں کی حکومت جنم لے لیتی ہے۔ جس کا اولین مقصد محض دولت کمانا ہوتا ہے جب تمام نظام حکومت ناکام ہوجاتے ہیں تو انقلاب آتا ہے اور اس کے بعد جمہوریت آتی ہے اور ہر فرد خود کو آزاد و اقتدار میں حصے دار تصورکرتا ہے۔

جمہوریت کا بنیادی اصول ہے کہ ہر شخص کو اقتدار تک پہنچے اور امور مملکت سنبھالنے کا مساوی حق حاصل ہے یا اپنے نمایند ے کو حکمران بنانے کا پورا پورا حق ہے ۔ یہ اصول پہلی نظر میں تو نہایت خوب صورت اور دل کش دکھائی دیتا ہے لیکن اس کا خطرناک رخ یہ ہے کہ عوام اس قدر تعلیم یافتہ اور باشعور نہیں ہوتے ہیں کہ کسی صحیح فرد کو حکمرانی کے لیے منتخب کرسکیں۔

عوام سے اس کی رائے یا ووٹ حاصل کرنا کوئی دشوار مسئلہ نہیں ہے اگر عوام کی تعریف یا خوشامد بڑھ چڑھ کر کی جائے یا کوئی اچھا مقرر ہو تو عوام با آسانی بے وقوف بن جاتے ہیں ۔ اس طریقے سے اقتدار حاصل کر لینے والے لوگ حکومت کرنے کے اہل نہیں ہوتے، ان کی حکومتیں ان کے اشارے کی غلام ہوتی ہیں جنہیں عوام کی منشا کی ذرا پرواہ نہیں ہوتی۔‘‘

افلاطون کی تحریر پڑھ کر یہ بات تو یقینی ہوجاتی ہے کہ وہ عظیم فلسفی کے علاوہ یقیناً اور بھی کچھ تھا، ورنہ صدیوں قبل کہی اس کی باتیں آج ہوبہو پاکستان میں کیسے سچی ثابت ہورہی ہوتیں ۔ اپنے قیام کے پہلے ہی روز سے پاکستان سماجی ، سیاسی، ثقافتی، نفسیاتی، علمی، اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان بحرانوں میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، وہ موڑ آکر ہی نہیں دے رہا ہے، جہاں یہ بحران ٹہر جائیں، عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان بحرانوں کا آپس میں کوئی یہ رشتہ یا تعلق نہیں ہے یہ سب کے سب الگ الگ بحران ہیں اور ان کی وجوہات بھی الگ الگ ہیں لیکن اصل میں یہ سب بحران آپس میں ایک دوسرے کے رشتے دار ہیں اور سب نے ایک دوسرے سے ہی جنم لیا ہوا ہے۔

یہ سب بیک وقت پیدا ہوتے ہیں اور ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں چونکہ تعلیمی نظا م میں علم کو مختلف شعبوں میں تقسیم کردیا گیا ہے، جیسے سیاسیات ، اقتصادیات، سماجیات، معاشرتیات، عمرانیات، نفسیات، ادب، تاریخ اس سے یہ تصور جنم لیتا ہے کہ ایک شخص کی معاشی زندگی کا اس کا ملک کی سیاست یا اخلاقی اقدار یا ادب یا نفسیات سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ سیاست ان تمام رشتوں، خیالات، نظریات اور سرگرمیوں کا نام ہے جو ایک معاشرے میں کار فرما ہوتے ہیں۔ سیاسی رشتے، اقتصادی اور معاشی رشتوں کا عکس ہوتے ہیں معاشرے میں انسان کی زندگی بنیادی طور پر سیاسی ہوتی ہے اور انسان کا وجود ہی مکمل طور پر سیاسی ہوتا ہے۔

اس لیے کہ وہ پیدا ہوتے ہی سماجی اور معاشی رشتوں کی حدود میں آجاتا ہے، اس لیے اس کا سیاسی ہونا ناگزیر ہوتا ہے۔ گاندھی نے کہا تھا ’’ایک آدمی زندگی کے ایک شعبے میں بددیانت اور دوسرے شعبے میں دیانت دار نہیں ہوسکتا زندگی ایک ناقابل تقسیم اکائی ہے‘‘  یا تو آپ دیانت دار ہوتے ہیں یا پھر بددیانت دار درمیان کی کوئی بھی صورت کا کوئی وجود نہیں ہوتا ہے ۔ آپ دنیا بھرکی معلوم تاریخ اٹھا کر باربار پڑھ لیں۔ آپ کے سامنے یہ ہی دو کردار بار بار آئیں گے آپ کو یا توکردار کی حاکمیت نظر آئے گی یا پھر بدکرداروں کی حاکمیت نظر آئے گی۔

دنیا بھر کے تاریخ دان اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ لیڈر شپ کی 90 فیصد ناکامیاں کردار کی ناکامیاں ہوتی ہیں روزویلٹ کہتا ہے ’’کردار کسی فرد یا کسی قوم کی زندگی میں ایک فیصلہ کن عامل ہوتا ہے ‘‘ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ساری کی ساری ناکامیاں کردار کی ہی ناکامیاں ہیں۔ ہمارے سارے بحرانوں کے پیچھے اصل میں نیت کا بحران ہے۔ اصل میں ہمیں نیت کے بحران کے علاوہ کسی اور بحران کا کبھی بھی سامنا نہیں رہا ہے اور اسی نیت کے ہی بحران سے باقی سب بحرانوں نے جنم لیا ہے۔

آئیں! ایسا کریں کہ آپ اپنے پہلے حکمرانوں سے لے کر آج تک کے تمام حکمرانوں کا ایک مکمل چارٹ بنالیں اور اسی چارٹ میں حکمرانوں کی فہرست کے سامنے دوکالم دیانت دار یا بد دیانت دار لکھ لیں پھر اس کے ملکی تاریخ کی مستند کتابیں کھول کر بیٹھ جائیں اورایک ایک حکمران کا تفصیلی جائزہ لینا شروع کردیں اور ان کے اندر حکمرانی، اقدامات، ان کے کردار، ان کی نیت کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل کرنے کے بعد ان کے دیانت دار یا بد دیانت دار کا فیصلہ کرلیں اور جب آپ اپنے آخری حکمرانوں کے بارے میں فیصلہ کرچکے ہوں تو پھرآپ دیانت داروں اور بدعنوانوں کی گنتی کر لیں جیسے ہی آپ گنتی ختم کریں گے توآپ بھی اس نتیجے پر پہنچ چکے ہوں گے کہ ہمیں ہمیشہ ہی سے نیت اور کردار کے بحرانوں کا سامنا رہا ہے اور ہمارے حکمرانوں کی اکثریت حکومت کرنے کی اہل ہی نہ تھی اور ان کی نیت ملک اور قوم کی خو شحالی، ترقی، کامیابی اور استحکام کی تھی ہی نہیں بلکہ ان کا مقصد صرف اور صرف لوگوں کو سیڑھی بناکر اقتدار حاصل کر کے اپنے آپ کو خوشحال، کامیاب، دولت مند بنانا مقصود تھا۔

انھوں نے نہ صرف خود بھرپور لوٹ مار کی بلکہ اپنے ساتھیوں کو بھی بھرپور لوٹ مار کرنے کا موقع فراہم کیا  جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کل تک ملک پر بیس خاندانوں کی حکمرانی قائم تھی آج وہ تعداد ہزاروں تک جا پہنچی ہے، چند ہزار لوگوں کی بددیانت داری ، بدنیتی کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کی نظروں میں سیاست ایک گھناؤنا اور گندہ ، کرپٹ کھیل بن کے رہ گیا ہے، لوگوں کا سیاست پر سے ہی اعتماد اٹھ گیا اور لوگوں کی اکثریت نے سیاست سے لاتعلقی اختیارکر لی جب آپ غیر سیاسی ہوجاتے ہیں تو آپ معاشرے کی تمام سرگرمیوں سے لاتعلق ہوجاتے ہیں کیونکہ انسان معاشرتی جانور کے ساتھ ساتھ سیاسی جانور بھی ہے اور پھر بددیانت داروں ، بدنیتوں کا راستہ صاف ہوجاتا ہے جب اکثریت لاتعلق ہوجاتی ہے تو پھر اقلیت اکثریت پر حاوی ہوجاتی ہے اور اپنے لیے جو فیصلے اور اقدامات آپ نے خود کرنا ہوتے ہیں پھر وہ فیصلے اور اقدامات آپ کے دشمن کر رہے ہوتے ہیں، خدارا اس کھیل کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ آپ جتنی دیر اور سیاست سے لاتعلق رہیں گے، اتنے ہی آپ کے بحرانوں میں اور اضافہ ہوتا رہے گا، اگر آپ اپنی بدحالی، برباد ی، اذیتوں، تکلیفوں پر خوش وخرم ہیں تو پھر لاتعلقی جاری رکھیے اور اگر آپ اپنے عذابوں سے بیزار آ چکے ہیں تو پھر فوراً سیاسی جانور بن جائیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔