ماہ صفر کے اہم غزوات و سریات

صفر 2ھ میں غزوہ ودّان (الابواء) پہلا غزوہ ہے، جس میں حضور نبی اکرم ﷺ بنفس نفیس شریک ہوئے


Dr Salees Sultana Chughtai December 20, 2012
فتح مکہ سمیت غزوات کی کل تعداد 28 ہے۔ فوٹو : فائل

SUKKUR: ماہ صفر میں ہونے والے غزوات و سریات سات ہیں۔ اصطلاحاً غزوہ اس جنگی مہم کو کہا جاتا ہے جس میں آپ ﷺ نے خود شرکت فرمائی۔

فتح مکہ سمیت غزوات کی کل تعداد 28 ہے۔ ان میں پہلا غزوہ ودّان (الابواء) صفر 2ھ میں پیش آیا جبکہ آخری غزوہ تبوک (رجب9ھ) تھا۔ سریہ وہ جنگی مہم ہے، جس میں نبی اکرمﷺ نے شرکت نہ کی بلکہ وہ کسی صحابی کی قیادت میں سر ہوئی ہو۔ مسلمانوں اور مشرکین قریش کے درمیان مسلح جھڑپیں طبعی تھیں ،کیوں کہ دونوں معاشرے ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور متضاد تھے۔ جب یہ جھڑپیں شروع ہوئیں تو قریش کو اس پر کوئی تعجب نہ ہوا، کیوں کہ یہ ایک منطقی چیز تھی۔ باقی قبائل نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہ کیا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ اس سے پہلے مسلمانوں پر کیا کیا مظالم ڈھائے گئے اور کس طرح ان کے مال و جائداد ضبط کرکے ان کو بے یارو مددگار مکہ سے نکالا گیا۔

٭ صفر 2ھ میں غزوہ ودّان (الابواء) پہلا غزوہ ہے، جس میں حضور نبی اکرم ﷺ بنفس نفیس شریک ہوئے۔ آپ ﷺ صرف مہاجرین کو لے کر نکلے اور آپ کے ساتھ کوئی انصاری نہیں تھا۔ آپ ﷺ نے حضرت سعد بن عبادہؓ کو مدینے میں اپنا نائب مقرر فرمایا۔ آپﷺ ابواء کے مقام پر پہنچے، مقصد قریش کا تجارتی قافلہ روکنا تھا۔ اصل مقصد تو پور انہ ہوا مگر مخشی بن عمرو ضمری کے ساتھ معاہدہ صلح ہوا۔ یہ اپنی قوم کے سردار تھے اور بنو ضمرہ کنانہ سے تعلق رکھتے تھے۔ معاہدہ یہ ہوا کہ آپﷺ بنو ضمرہ پر حملہ نہیں کریں گے اور بنو ضمرہ آپﷺ کے خلاف نہ کوئی کارروائی کریں گے نہ کسی کارروائی میں حصہ لیں گے اور آپﷺ کے دشمن کی مدد بھی نہیں کریں گے۔ اس معاہدے کی باقاعدہ دستاویز تیار کی گئی۔ اس غزوہ میں آپﷺ کے ساتھ 60 یا 70 مہاجرین ابواء یا ودّان کی طرف گئے۔ آپﷺ کا مقصد صرف قریش کے قافلے کو روکنا تھا جبکہ وہ قافلہ آپﷺ کے یہاں پہنچنے سے پہلے ہی نکل چکا تھا۔ اس لیے آپ ﷺ کا کسی سے تصادم نہ ہوا۔ یہ پہلی مہم تھی جس میں آپﷺ بذات خود نکلے تھے۔ اس سفر میں آپﷺ پندرہ دن مدینے سے باہر رہے۔ 'ودّان' مکہ اور مدینہ کے درمیان ''الفرع'' کے نواح میں واقع ہے جو ''ہرشیٰ '' سے دس کلو میٹر اور 'الابواء' سے تیرا کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ''ابواء'' میں حضور اکرم ﷺ کی والدہ حضرت آمنہؓ مدفون ہیں۔ چونکہ آپﷺ نے ابواء کے مقام پر پڑائو ڈالا تھا، اس لیے اس غزوہ کو 'غزوہ الابواء' کہتے ہیں۔

٭ سریہ منذر بن عمروؓ (بئر معونہ) صفر 4 ھ

صفر4 ھ میں نجد سے ابو براء عامر بن مالک جو ،''ملاعب الاسنِتہ'' (نیزوں سے کھیلنے والا) کے لقب سے مشہور تھا، مدینہ میں حاضر ہوا۔ حضور نبی اکرمﷺ نے اسے اسلام کی دعوت دی۔ اس نے اسلام تو قبول نہ کیا لیکن دوری اختیار نہ کی اور یہ توقع ظاہر کی کہ اگر اہل نجد کے پاس تبلیغ کے لیے آدمی بھیج دیے جائیں تو وہ اسلام قبول کرلیں گے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ وہ میری پناہ میں ہوں گے۔ چناں چہ آپﷺ نے قراء صحابہ میں سے ستر مبلغین، منذر بن عمرو ساعدی کی قیادت میں بھیج دیے،جہاں انھوں نے بئر معونہ پر پڑائو ڈالا ۔ حضرت حرام بن ملحانؓ ، رسول اکرمﷺ کا نامہ مبارک لے کر اﷲ کے دشمن، عامر بن طفیل کے پاس گئے۔ اس نے خط پڑھنے کے بجائے ایک آدمی کو حکم دیا اوراس نے حضرت حرام ؓ کو پیچھے سے اس طرح نیزہ مارا کہ وہ آر پار ہوگیا۔

حضرت حرام ؓ نے فرمایا ''اﷲ اکبر، رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔'' پھر فوراً ہی اس اﷲ کے دشمن نے باقی صحابہ پر بھی حملے کے لیے بنو عامر کو آواز دی مگر ابو براء کی پناہ کی وجہ سے انھوں نے اس کی آواز پر کان نہ دھرے، لہٰذا اس نے بنو سلیم کو آواز دی اور اس کی چند شاخوں رعل، ذکوان اور عُصیتہ نے آ کر صحابہ کرام کا محاصرہ کرلیا اور سب کو شہید کر ڈالا۔ صرف کعب بن زیدؓ اور عمرو بن امیہ ضمری ؓ بچ گئے۔ کعبؓ زخمی تھے، انھیں مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا گیا، چناں چہ بعد میں وہ شہداء کے درمیان سے اٹھا لائے گئے، پھر زندہ رہے اور غزوہ خندق میں شہید ہوئے۔ عمرو بن امیہ ضمریؓ ، منذر بن عقبہ کے ساتھ اونٹ چرا رہے تھے۔ انھوں نے جائے واردات پر پرندوں کو منڈلاتے دیکھا تو حادثے کی نوعیت کو سمجھ گئے، چناں چہ دونوں وہاں پہنچ کر کفار سے لڑنے لگے۔ منذر نے لڑتے لڑتے شہادت حاصل کی اور عمرو بن امیہ قید کر لیے گئے۔ جب عمرو بن طفیل کو بتایا گیا کہ ان کا تعلق قبیلہ 'مضر' سے ہے، تو عامر نے ان کی پیشانی کے بال کٹوا کر اپنی ماں کی طرف سے، جس پر ایک گردن آزاد کرنے کی منت تھی، انھیں آزاد کردیا۔ حضرت عمرو بن امیہ مدینہ لوٹے۔ رسول اکرمﷺ کو اس حادثے پر سخت رنج و الم پہنچا۔ آپﷺ نے بخاری، ابن ہشام اور طبقات ابن سعد کے مطابق، قراء کے قاتل قبائل بنو لحیان، رعل، ذکوان اور عصیتہ پر ایک مہینے تک بد دعا فرمائی۔ منذر بن عمرو ساعدی خذر جی انصاری معروف صحابی تھے، یہ بیعت عقبہ، عقبہ بدرواحد میں حاضر ہوئے، یہ بنو ساعدہ کے نقیب تھے اور بئر معونہ پر شہید ہونے والی جماعت کے امیر تھے۔ بئرمعونہ بنو عامر اور حرۃ بنو سلیم کے درمیان ایک کنواں تھا، جو بنو سلیم کی ملکیت تھا۔

٭ سریہ مرثد بن ابی مرثد غنویؓ، صفر4ھ

اس سریہ کو 'سریہ رجیع' بھی کہا جاتا ہے۔ غزوہ احد کے بعد وسط ماہ صفر میں قبائل، عضل اور قارہ کے کچھ لوگ رسول اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام کا اقرار کرتے ہوئے آپﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہمارے قبیلے کے لوگ اسلام سے بڑی رغبت رکھتے ہیں۔ اگر آپ اپنے صحابہ میں سے چند مبلغ ہمارے ساتھ کردیں تو ہمارا قبیلہ ان سے دین اسلام کی تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ چناں چہ نبی کریم ﷺ نے سات یا دس صحابہ کرام پر مشتمل تبلیغی وفد ان کے ہمراہ کردیا۔ وفد کی قیادت حضرت مرثدؓ اور بعض روایات کے مطابق عاصم بن ثابت کے سپرد تھی۔ یہ عضل اور قارہ کی ایک چال تھی۔

جب یہ صحابہ کرام 'الرجیع نخلستان' کے قریب پہنچے تو انھوں نے بنو ھزیل کے لوگوں کو ان پر حملے کے لیے پکارا۔ اس پر سو آدمیوں نے تلواریں سونت کر مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ سات مسلمان لڑتے لڑتے شہید ہوگئے جبکہ کفار نے جھوٹی امان دے کر حضرت خبیب بن عدیؓ، زید بن دثنہؓ اور عبداﷲ بن طارق کو قیدی بنالیا۔ عبداﷲ بن طارق تو وہیں شہید کردیے گئے جبکہ ظالموں نے خبیب اور زید کو مکہ لے جاکر بیچ دیا۔ حضرت خبیبؓ کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے خریدا، جنہیں خبیبؓ نے غزوہ بدر میں قتل کیا تھا۔ انھوں نے خبیب کو 'تنیم' لے جاکر قتل کردیا۔ زید بن دثنہؓ نے غزوہ بدر میں امیہ بن محرث کو قتل کیا تھا لہٰذا انھیں اس کے بیٹے صفوان نے خرید کر اپنے باپ کے بدلے میں قتل کردیا۔مرثد بن ابی مرثد صحابی ہیں، ان کے باپ ابو مرثد جن کا نام کنازؓ تھا، وہ بھی صحابی ہیں، دونوں باپ بیٹے غزوہ بدر میں شریک تھے۔ حضرت مرثدؓ مکہ سے قیدی مسلمانوں کو چھڑ اکر لایا کرتے تھے، یہ سریہ رجیع میں شہید ہوئے۔ الرجیع عفان سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے۔

٭ سریہ غالب بن عبداﷲ لیثیؓ

صفر 8ھ (کدید کی طرف) حضور اکرمﷺ نے غالب بن عبداﷲ لیثیؓ کو تقریباً پندرہ سولہ افراد کے ساتھ صفر 8ھ میں ''کدید'' نامی جگہ پر بنی ملوح قبیلے کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔ نبی اکرمﷺ نے انھیں ہدایت کی کہ دشمن پر اچانک حملہ کردینا۔ جندب بن مکیث جہنیؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے اچانک ان پر حملہ کردیااور بہت سے مویشی لے آئے۔ بنی ملوح ایک بڑے لشکر کے ساتھ ہمارے تعاقب میں روانہ ہوئے مگر اﷲ تعالیٰ نے ہمارے اور ان کے درمیان سیلابی پانی کو حائل کردیا اور وہ ہم تک نہ پہنچ سکے۔ ''کدید'' مکہ سے 42 میل کے فاصلے پر ایک جگہ کا نام ہے۔

 

٭ سریہ غالب بن عبداﷲ لیثیؓ، صفر8 ھ ( فدک کی طرف)

آپﷺ نے حضرت غالب بن عبداﷲ لیثی ؓ کو حضرت بشیر بن سعد ؓ کے ساتھیوں کا بدلہ لینے کے لیے بھیجا۔ فدک کے مقام پر حضرت غالب دو سو مسلمانوں کے ساتھ پہنچے اور حضرت بشیر بن سعد کا بدلہ لیا۔ طبقات ابن سعد کے مطابق رسول اکرمﷺ نے شعبان 7ھ میں حضرت بشیر بن سعدؓ کو تیس آدمیوں کے ساتھ فدک میں بنو مرہ کی طرف بھیجا۔ بنوہ مرہ کے قبیلے نے ان پر حملہ کرکے ان سب کو شہید کردیا، صرف بشیر بن سعد زندہ بچے، جنھیں وہ مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے۔

حضرت بشیر بن سعد 'سابقون اولون' میں سے ہیں ۔ بیعت عقبہ کے موقع پر وہ موجود تھے، ہجرت نبوی ﷺ کے بعد ہونے والے تمام غزوات میں شریک تھے اور دو مہمات کی قیادت بھی کی۔ حضور اکرم ﷺ کے وصال کے بعد سب سے پہلے بشیربن سعدؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ وہ ان چند گنے چنے افراد میں سے تھے جو لکھنا جانتے تھے۔

٭ سریہ قطبہ بن عامرؓ، صفر 9ھ (تبالہ کی طرف)

رسول اکرمﷺ نے صفر 9ھ میں قطبہ بن عامر کو 20 آدمیوں کے ساتھ خشعم کے ایک قبیلے میں ''تبالہ'' نامی جگہ کی طرف بھیجا۔ طبقات ابن سعدؓ کے مطابق آپﷺ نے انھیں حکم دیا کہ اچانک حملہ کردینا۔ یہ دس اونٹوں پر باری باری سفر کرتے اس علاقے میں پہنچ گئے۔ وہاں انھوں نے ایک آدمی کو گرفتار کرلیا۔ اس سے پوچھا تو اس نے چلا چلا کر لوگوں کو خبردار کرنا شروع کردیا جس پر انھوں نے اسے قتل کردیا۔ بڑی شدید لڑائی ہوئی۔ دونوں طرف سے بہت سے افراد زخمی ہوئے۔ قطبہ بن عامر نے جس کو قتل کرنا تھا، قتل کیا اور اونٹ بکریاں لے کر مدینہ پہنچ گئے۔ قطبہ بن عامرؓ خزرج قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ انصاری تھے اور آپ کی کنیت 'ابو زید' تھی۔ آپ عقبہ اولٰی اور عقبہ ثانیہ کے علاوہ تمام غزوات میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے۔ غزوہ احد میں آپ کو نو زخم لگے۔ فتح مکہ کے موقع پر بنو سلمہ کا جھنڈا انہی کے پاس تھا۔ سریہ قطبہ بن عامر کے بعد بنو خشعم اسلام لے آئے۔ 11ھ میں مرتد ہوگئے مگر جنگ میں شکست کے بعد دوبارہ مسلمان ہوگئے۔

٭ جیشِ اسامہ ؓ صفر 11ھ ( بلقاء کی طرف)

رسول اکرمﷺ نے ربیع الاول 11ھ میں حضرت اسامہ بن زیدؓ کو سات سو فوجیوں کے ساتھ بلقاء کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔ یہ آپ ﷺ کی زندگی کی آخری لشکر کشی ہے۔ آپﷺ نے اسامہ بن زیدؓ سے فرمایا ''لشکر لے کر جائو اور اُس جگہ، جہاں تمہارا باپ ( موتہ کے مقام پر) شہید ہوا تھا، ان کو گھوڑوں کے نیچے روند ڈالو۔'' یہ لشکر روانہ ہوکر مدینہ سے تین میل دور ''جرف'' میں خیمہ زن ہوا۔ لوگ تیاری کرکے ساتھ شامل ہورہے تھے کہ آپﷺ کی طبیعت زیادہ ناساز ہوگئی۔ آپﷺ نے وصیت فرمائی کہ اسامہ کا لشکر لازمی بھیج دینا۔ آپﷺ کا وصال ہو گیا اور یہ لشکر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد خلافت کی پہلی فوجی مہم پر روانہ ہوا۔ صحابہ کرام، جن میں حضرت عمرؓ بھی شامل تھے۔

انھوں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ ابھی اس لشکر کو بھیجنے کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں، مدینہ خود خطرات میں گھرا ہوا ہے، لیکن حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا، جس لشکر کو رسول اکرمﷺ نے خود تیار کیا تھا اسے نہیں روکوں گا چاہے ہمیں کیسے ہی حالات سے دوچار ہونا پڑے۔ اس لشکر کے جانے سے آس پاس کے مخالفین پر بڑا اچھا اثر ہوا۔ باغی یہ جان کر مرعوب ہوگئے کہ اگر مسلمانوں میں کسی قسم کی کمزوری ہوتی یا مدینہ کمزور ہوتا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ اس لشکر کو روانہ نہ کرتے۔ بلقاء شمال میں وادی زرقا سے لے کر جنوب میں وادی الموجب کے درمیان واقع ہے۔ اس لشکر کے سالار حضرت اسامہ بن زید بن حارثہ بن شراحیل مکی تھے جن کی کنیت ابو محمد اور لقب حب رسول تھی۔

مقبول خبریں