بُک شیلف

خالد معین / عبداللطیف ابو شامل / خ۔ م  اتوار 23 دسمبر 2012
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

پلکوں میں پروئی ہوئی رات

شاعر :صابر ظفر

تقسیم کار :سٹی بُک پوائنٹ، کراچی

صفحات: 128

قیمت:180روپے

صابر ظفر صاحب کا نام اور کام یقیناً ایک طویل عرصے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں رہا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’ابتدا‘‘ ہی شعروادب کی دنیا میں تہلکہ مچا گیا تھا۔ اس کے بعد صابر ظفر صاحب نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، اس طرح ’’پلکوں میں پروئی ہوئی رات‘‘ جو ان کا اکتیسواں مجموعہ ہے، ایک جانب شاعر کے منفرد لب و لہجے کا عکاس ہے، تو دوسری جانب ایسے قارئین جو صابر ظفر صاحب کی خالص جمالیاتی شاعری کے مداح ہیں۔ ان کے لیے یقیناً یہ مجموعہ ایک عمدہ تحفہ کہا جاسکتا ہے۔ اس مجموعے میں ایک سو سات غزلیں شامل کی گئی ہیں اور یہ غزلیں مختلف بحروں اور مختلف ردیف قافیوں پر مشتمل ہیں۔

یہ بات اس لیے بتائی گئی ہے کہ صابر ظفر صاحب اس سے قبل کئی ایسے موضوعاتی مجموعے بھی سامنے لا چکے ہیں، جن میں ایک ہی زمین میں طبع آزمائی کے ساتھ ساتھ کسی مخصوص موضوع کی پاس داری بھی کی گئی ہے۔ یہ ایک لمبی سانس والا دشوار گزار کام ہے، اور اس ضمن میں شاعر نے اپنی قدرت ِکلام کے ساتھ ایک بڑے کینوس کی تلاش بھی کی ہے۔ تاہم مذکورہ مجموعہ شاعر کے اندر کی شعلگی اور حسن ِکلام کی خوب صورتیوں کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ غزلیں اپنے دھیمے دھیمے سلگتے ہوئے اسلوب اور تخلیقی انفرادیت کی گہری آنچ کے ساتھ زندگی کی وسعتوں اور معاشرتی تضادات کی آئینہ دار ہیں۔ غزل ہر دور میں پڑھنے اور لکھنے والوں کی محبوب صنف کے طور پر سامنے آئی ہے۔ مخالفت کی آندھیاں بھی چلی ہیں اور غزل کے تخلیقی امکانات کو اجاگر کرنے والے منتخب شعرا بھی سامنے آئے ہیں۔

صابر ظفر صاحب جدید شعرا کی اسی خاص صف سے تعلق رکھتے ہیں، جنہوں نے اس صنف کے تمام تر امکانات کو بروئے کار لانے کا تہہ کیا ہے۔ اسی لیے گیت اور مقبول گیت لکھنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے غزل کی روایت کو باربار نئے زمانے کے عذاب وثواب کے ساتھ اور ذات و کائنات کی وسعتوں کے ساتھ اپنے مخصوص لب و لہجے میں وظیفہ ِزندگی کی طرح نت نئے زاویوں سے برتا ہے اور وہ اب بھی اپنے پہلے مجموعے کی طرح ہر مجموعے میں تازگی، تاثر، کیفیت اور تاثیر کی اضافت کے ساتھ بڑی جاں فشانی اور سرخ روئی سے برت رہے ہیں۔ صابر ظفر صاحب کا ہرا بھرا تخلیقی سفر جاری ہے، اور ہر سال ان کے اس پُرماجرا سفر کے ایک دو پڑائو بتاتے ہیں کہ وہ پہلے کی طرح اب بھی تازہ دم ہیں۔ دعا ہے وہ ایسی طرح منزلیں پر منزلیں سر کرتے رہیں، اور قارئین کو ’’پلکوں میں پروئی ہوئی رات‘‘ کی طرح خوب صورت غزلیں عطا کرتے رہیں۔

دیوانے کا خواب

مصنف: شہزاد اختر

ناشر: زین پبلی کیشنز، کراچی

صفحات:200

قیمت:  350

اردو افسانے کی مقبولیت سے کون واقف نہیں۔ کون سا ادبی جریدہ اور کون سا ڈائجسٹ ایسا ہے، جہاں افسانے کا فسوں نہیں بکھرتا۔ اگرچہ شاعری کے مقابلے میں افسانوی مجموعے کم تعداد میں شایع ہوتے ہیں، تاہم گاہے گاہے افسانوی مجموعے منظرعام پر آتے رہتے ہیں۔ ایک ایسا ہی افسانوی مجموعہ ’’دیوانے کا خواب‘‘ بھی ہے۔ اس کے مصنف سنیئر صحافی شہزاد اختر ہیں اور یہ ان کا پہلا مجموعہ ہے۔ ایک طویل فنی ریاضت کے بعد شہزاد اختر کا یہ مجموعہ سامنے آیا ہے۔ انہوں نے اپنا تخلیقی سفر ساٹھ کی دہائی سے مشرقی پاکستان سے شروع کیا۔ لیل و نہار، سویرا اور نصرت جیسے معتبر ادبی جریدوں میں ان کے افسانے شایع ہوئے۔ شہزاد اختر مختصر افسانے لکھنے کے قائل رہے اور افسانے کے فن کے حوالے سے وہ ایک خاص نقطۂ نظر بھی رکھتے ہیں، ’’میں نے ابتدا ہی سے بیانیہ اور وضاحتی کہانیاں لکھی ہیں۔ کہانی کے بارے میں میرا نقطۂ نظر قدیم روایت سے مماثلت رکھتا ہے۔

یعنی و ہی کہانی، پلاٹ اور تیکینک، جو افسانے کی بنیاد ہیں۔ میرے نزدیک ہر لکھنے والے پر ان کی پابندی لازمی ہے۔‘‘ یہاں تک آتے آتے بات کچھ الجھ جاتی ہے، کیوں کہ شہزاد اختر صاحب تمام کہانی کاروں پر یہ حکم لگانا چاہتے ہیں کہ وہ سیدھی سادی اور وضاحتی کہانی لکھیں، لیکن ابہام اور پیچیدگی کا بھی جدا گانہ حُسن ہے۔ علامتی اور تجریدی کہانیاں پوری دنیا میں لکھی گئی ہیں۔ البتہ یہ ٹھیک ہے کہ کہانی کا ابلاغ اور علامت کا ابلاغ ایک سطح پر ضرور ہونا چاہیے۔ خیر شہزاد اختر کی کہانیاں واقعی ابہام سے پاک ہیں اور ان کی کہانیوں میں ایک واضح مقصدیت کی لہر بھی موجود ہے۔

کتاب میں ان کے صرف پندرہ منتخب افسانے دیے گئے ہیں، لیکن تمام افسانے اپنی اپنی جگہ اچھے ہیں، کیوں کہ ان میں زبان و بیان کی نزاکتوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ موضوعات کا ایک تنوع بھی موجود ہے اور اپنے اسلوب کی جانب پیش رفت بھی نظر آتی ہے۔ دریا، سزا، پکی شہادت، دیوانے کا خواب، درخت اور امربیل اسی قبیل کے افسانے ہیں، جن میں شہزاد اختر صاحب کا تخلیقی کمال واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے عہد ِحاضر کے ایک معتبر نقاد اور شاعر عبداﷲ جاوید کی رائے بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں،’’اس مجموعے میں چودہ افسانے شامل ہیں۔

شہزاد اختر نے ان افسانوں کو تحریر کرنے میں افسانہ نگاری کے کرافٹ پر اپنی پختہ کارانہ گرفت کا ثبوت دیا ہے۔ مختصر افسانے کا پہلا وصف  اس کا پڑھنے کے لائق ہونا ہے۔ ان افسانوں میں سے کوئی بھی افسانہ لے کر بیٹھ جائیں۔ چند سطور کے بعد پتا ہی نہیں چلے گا کہ آپ افسانہ پڑھتے ہی چلے جارہے ہیں، کیوں کہ اس کا سحر آپ کو اپنے بس میں کر لے گا۔‘‘ ویسے یہ منزل بھی بڑی کٹھن ریاضت کے بعد کسی بھی لکھنے والا کا نصیب بنتی ہے اور اس کی سند شہزاد اختر صاحب کو عبد اﷲ جاوید صاحب جیسے سنیئر ناقد نے دی ہے۔

شریرخامہ

مصنف: مرزا عابد عباس

ناشر: بزمِ مزاح

صفحات:88

قیمت: 150

مزاح نگاری ایک ایسی صنف ہے، جس میں مصنف کو اپنے چودہ طبق روشن رکھنے پڑتے ہیں، کیوں کہ اس کی ذرا سی غفلت بنی بنائی بات کو تباہ کر سکتی ہے۔ اسی لیے یہ کام بڑا نازک، بڑا لطیف اور ایک سطح پر بڑا خطرناک بھی ہے۔ اردو ادب میں اچھے مزاح نگاروں کی قلت بتاتی ہے کہ اس سمت ہر ایرا غیرا قدم نہیں رکھ سکتا۔ اچھا مزاح کب پھکٹر پن بن جائے اور کب مزاح لکھنے والا اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں گرفتار ہوجائے، اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتا۔ البتہ مزاح لکھنے والوں کی نئی صف میں جو لوگ تواتر سے طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ ان میں ایک نام مزرا عابد عباس کا بھی ہے۔

اب ان کی مزاحیہ اور شگفتہ تحریروں پر مشتمل ایک مختصر سی کتاب ’’شریر خامہ‘‘ سامنے آئی ہے۔ اس کتاب میں اکیس چھوٹے چھوٹے مضامین شامل ہیں۔ مرزا صاحب بات سے بات پیدا کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور روز مرہ کے معمول سے اکتاہٹ کی فضا کو ہٹاتے ہوئے، اس میں اپنے ظریفانہ تبصروں کی آمیزش کردیتے ہیں۔ یوں وہ زندگی کے عام سے رویوں اور بے کیف باتوں سے بھی ایک خاص طرح کا رنگ ِ لطافت پیدا کر دیتے ہیں۔ اس طرح ان کی تحریریں بوجھل اور بور نہیں رہتیں، بلکہ ان تحریروں میں ایک چاشنی اور رنگ و رس کا تڑکا لگ جاتا ہے۔

کتاب کا انتساب معروف مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے نام ہے، جب کہ بریکٹ میں ایک شگفتہ جملہ اس طرح دیا گیا ہے، ’’عہد ِ حاضر میں فکاہیہ ادب کا ایک طویل نام !‘‘ اس کے آگے مرزا عابد عباس رقم طراز ہیں،’’جن کی راہ نمائی اور ہمت افزائی سے ہمیں لکھنے کا حوصلہ ملا، مگر اب ایک لحاظ سے ہم خود کو اُن سے ذرا بڑا سمجھنے لگے ہیں، کیوں کہ بہ لحاظ مبتلائے تکلیف ِکمر ہم ڈاکٹر صاحب سے بہت آگے کل چکے ہیں۔‘‘دیکھا آپ نے مرزا صاحب نے انتساب میں بھی عام روش سے ہٹ کر ایک خاص نکتۂ مزاح کا پیدا کر لیا اور یوں یہ انتساب روایتی انداز سے ہٹ کر مصنف کے مزاج کا آئینہ دار بن گیا۔ کم وبیش یہی صورت ِحال اٹھاسی صفحات پر مشتمل اس مختصر مزاحیہ مضامین کے اندر جا بہ جا بکھری ہوئی ہے۔ یہ مصنف کی غالباً پہلی کتاب ہے، اس لیے ان سے مستقبل میں مزید اچھی توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔

تمھیں اپنا بنانا ہے

مصنف: ریاض ندیم نیازی

ناشر: ماورا بُکس، لاہور

صفحات:272

قیمت:350

شعری مجموعے پاکستان کے تمام شہروں سے تواتر کے ساتھ شایع ہورہے ہیں، جن میں کچھ اچھے شعری مجموعوں کو چھوڑ کر اکثریت  کے اندر ایسا شعری مواد بھرا ہوتا ہے، جسے لکھنے والوں کے ذاتی شوق کی تسکین ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم زیرِنظر مجموعہ سبی میں مقیم ایک ایسے شاعر کا ہے، جو طویل عرصے سے شاعری کے میدان میں موجود ہیں اور اپنی ایک جداگانہ پہچان بھی رکھتے ہیں۔ ریاض ندیم نیازی بڑے سلجھے ہوئے قلم کار ہیں اور ان کی شاعرانہ پہچان نعت نگاری کے حوالے سے خاصی نمایاں بھی ہوچکی ہے۔ اب ان کا غزلیہ اور نظمیہ مجموعہ ’’تمھیں اپنا بنانا ہے‘‘ لاہور کے معروف اشاعتی ادارے کے زیرِاہتمام شایع ہوا ہے۔

سب سے پہلی بات جو اس مجموعے کے حوالے سے کہی جا سکتی ہے، وہ ہے شاعر کا رکھ رکھائو اور اس کا شاعری سے والہانہ تعلق، کتاب پر سرسری سی نظر کیجے تو اندازہ ہوگا کہ ریاض ندیم نیازی اگرچہ بڑے ادبی مراکز سے بہت دور سبی جیسے شہر میں مقیم سہی، لیکن ان کا دائرۂ تعارف کسی بڑے ادبی مرکز سے کسی طور کم نہیں۔ ’’تمھیں اپنا بنانا ہے۔‘‘ میں ڈاکٹر عاصی کرنالی کے منظوم تاثرات کے ساتھ افتخار عارف، سحر انصاری، امجد اسلام امجد، اجمل نیازی، شبنم شکیل، ایوب خاور، اعتبار ساجد، اوریا مقبول اور افضل مراد کے علاوہ دیگر لکھنے والوں کے مختصر اور طویل تاثرات شامل ہیں۔

اس طرح تریسٹھ صفحات پر ریاض ندیم نیازی کے لیے نیک جذبات  کا اظہار کیا گیا ہے اور ایک سطح پر یہ تمام تحریریں پی آر کے بہ جائے شاعر کے روشن مستقبل کی جانب اشارہ کرتی ہیں، کیوں کہ ریاض ندیم نیازی تو پی آر کا نہیں پیار کا آدمی ہے اور اس کے کاسے میں یوں بھی خلوص کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ اب آتے ہیں ’’تمھیں اپنا بنانا ہے‘‘ کی غزلوں اور نظموں کی جانب، اس ضمن میں پہلی بات تو یہ عرض ہے کہ ریاض ندیم نیازی کی شاعری پاکیزہ ہے، وہ روایات کا بڑا احترام کرتے ہیں اور کلاسیکی طرز ِ سخن کے ساتھ جدید حسیت سے بھی آشنا دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں مبہم علامتوں اور دورازکار تراکیب سے گریز ملتا ہے۔ وہ اپنے دل کی بات سیدھے سادھے اور دل نشیں انداز میں کرنے کے عادی ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت ِحال ان کی بیش تر پابند نظموں میں موجود ہے۔ اس اعتبار سے ’’تمھیں اپنا بنانا ہے‘‘  ایک ایسا مجموعہ ہے، جو قابل ِ مطالعہ بھی ہے اور شاعر کے مستقبل کا گواہ بھی ہے۔

چاند کا چہرہ تکتے رہنا (شعری مجموعہ)

شاعر : فاروق شہزاد

ناشر: من پسند پبلی کیشنز، اردو بازار، لاہور

صفحات:112

قیمت:150روپے

پاکستان میں شاعری کے دیوانے کم نہیں۔ ایک نسل سے دوسری نسل تک شعرو ادب سے والہانہ عشق رکھنے والے شاعری کی جانب کھنچے آتے ہیں۔ کلاسیکی اساتذہ سے عہد ِحاضر کے مقبول شعرا تک، جو تخلیقی سفر جاری ہے، پاکستان کی نوجوان نسل اس کی پیروی کرتی نظر آتی ہے۔ ایک ایسا ہی تازہ دم لکھنے والا ہے شہزاد فاروق بھی۔ اس نے چند برس کی شعری ریاضت کو اپنے پہلے مجموعے ’’چاند کا چہرہ تکتے رہنا‘‘ میں یک جا کر دیا ہے۔ اس مجموعے میں شہزاد فاروق کی غزلیں اور آزاد نظمیں دونوں شامل ہیں۔ ایک سو بارہ صفحات پر مشتمل اس مجموعے میں جو شاعری پیش کی گئی ہے، اس سے بہت زیادہ توقعات یقیناً نہیں رکھی جاسکتیں، کیوں کہ اس کا قلم کار ایک نووارد ہے۔

اب اس نووارد نے اپنی عمر اور اپنی جذباتی آب وہوا کے حوالے سے اور اپنے سماجی شعور کی روشنی میں جو کچھ تحریر کیا ہے، وہ اس کے آنے والے کل کے حوالے سے یقیناً اہم ہے۔ شہزاد فاروق نے یوں تو غزل اور نظم دونوں مین طبع آزمائی کی ہے، تاہم اس کا رجحان غزل کی جانب زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ شہزاد فاروق کو سب سے پہلے اپنے ہم عصر شعروادب کو سنجیدگی کے ساتھ دیکھنا ہوگا۔ ڈکشن، اسلوب اور موضوعات کے حوالے سے ایسے شعرا کا باریک بینی سے مطالعہ کرنا ہوگا، جنہوں نے بھیڑ میں اپنی انفرادیت کا پرچم لہرایا۔ اس کے ساتھ ساتھ کلاسیکی شعرا کے فکر وفن پر نگاہ ڈالنی ہوگی، تاکہ شعرو ادب کی روایت سے اس کا رشتہ مستحکم ہوسکے۔ یوں وہ آگے چل کر شعرو ادب کے تخلیقی سفر میں اپنی انفرادیت کے چراغ جلا سکے گا۔

ورنہ شاعری کو شوقیہ برتنے والوں کی تعداد سیکڑوں میں نہیں ہزاروں میں ہے۔ اب یہ فیصلہ بہ ہر حال نوجوان لکھنے والے شہزاد فاروق کو کرنا ہے کہ وہ کس صف میں کھڑا رہنا پسند کرتا ہے۔ یہ مجموعہ لاہور سے شایع کیا گیا ہے، اور اس مجموعے میں افتخار عارف کے علاوہ شہزاد فاروق نے اپنے استاد معروف شاعر گوہر ملسیانی کا تعارفی مضمون بھی شامل کیا ہے۔ آخر میں شہزاد فاروق کا جذبات سے پُر انتساب بھی ملاحظہ فرمالیں، ’’اُس ہم سفر کے نام۔۔۔۔۔۔۔۔راہ ِالفت میں مجھے جو، ہجر کی سوغات دے گیا، پھولوں سے مہکتے، یادوں کے حسیں لمحات، آنکھوں کو شبنمی موتیوں کی برسات دے گیا۔

یوم الغضب

مصنف: عبدالرحمٰن سفرالحوالی

مترجم: رضی الدین سید

نا شر: راحیل پبلی کیشنز، کراچی

صفحات: 192

قیمت ۔ 225 رو پے

سعودی نژاد ڈاکٹر عبدالرحمٰن سفرالحوالی کی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ رضی الدین سید نے یوم الغضب کے نام سے کیا ہے، جو اسلامی اکیڈمی آف اسلامک ریسرچ کے ڈاریکٹر ہیں۔ یوم الغضب یہودیوں کی عالم گیر سازشوں کا پر دہ چاک کرتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالرحمٰن نے یہودیوں اور عیسائیوں کی اپنی تحریر کردہ کتب کے حوالہ جات سے ثابت کیا ہے کہ یہودی کتنے شاطر اور سازشی ذہن رکھتے ہیں۔ مصنف نے اسرائیل کے خا تمے کا اک متعین وقت بھی طے کردیا ہے۔

ریاستی دہشت گردی

مصنف: افتخار اکبر رندھاوا،ناشر: فریدپبلشرز، کراچی

صفحات: 240،قیمت:250روپے

دنیا بھر کے فکشن میں ایسی متعدد تحریریں موجود ہیں، جو کسی انقلابی اور سیاسی تحریک کے نشیب و فراز کو ظاہر کرتی ہیں۔ اسی طرح بہت سے بڑے سیاسی اور انقلابی راہ نمائوں نے بھی اپنی یادداشتیں قلم بند کی ہیں۔ ایک عام قاری کے لیے ایسی تحریروں میں بڑی کشش ہوتی ہے اور دنیا بھر کے سیاسی کارکنان بھی ایسی تحریروں سے روشنی اور دانش حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان میں بدقسمتی سے جمہوری عمل پر بار بار شب خون مارا گیا۔ اسی لیے یہاں جمہوری حکومتوں کی موجودگی میں بھی بیرونی ہاتھوں کی کارفرمائی بہت زیادہ دیکھنے میں آتی ہے۔

’’ریاستی دہشت گردی‘‘ ایک ایسا روزنامچہ ہے، جسے پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے اہم رکن افتخار اکبر رندھاوا نے تحریر کیا ہے اور جیسا کہ اس کتاب کے نام ہی سے ظاہر ہے، یہ کتاب ایک نازک موضوع پر تحریر کی گی ہے، لیکن اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں جبر، تشدد، ذہنی اذیت، جسمانی اور روحانی دہشت کی داستان خیالی واقعات یا سنی سنائی قصہ گوئی نہیں بلکہ یہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے متحدہ قومی موومنٹ کے اہم راہ نما کا آپ بیتی ہے۔ یہ ایک لرزہ خیز اور رونگٹے کھڑی کردینے والی داستان ِ زخم زخم ہے۔ یہ اسیری کے وہ طویل روز و شب ہیں، جن سے افتخار اکبر ندھاوا خود گزرے ہیں۔

افتخار اکبر رندھاوا اپنی کتاب کے بارے میں کہتے ہیں،’’یہ کتاب میری اسیری کے کرب، اذیت ناک حقائق اور ریاستی تشدد کے اُن واقعات پر مبنی ہے، جب سرکاری ایجنسیوں کے اہل کاروں نے مجھے غیرقانونی و غیرآئینی طریقے سے گرفتار کرکے نہ صرف ٹارچر سیل میں رکھا بلکہ نو ماہ تک مختلف جگہیں بھی تبدیل کرتے رہے۔‘‘ اب معاملہ یہ ہے کہ جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے۔ باقی باتیں تو تاریخ کا ایک نامعلوم یا معلوم باب ہی بن جاتی ہیں۔

افتخار اکبر رندھاوا بھی ایک ایسے ہی باہمت اور سرفروش رہ نما ہیں، جنہوں نے نو ماہ تک ہر قسم کے جسمانی اور ذہنی تشدد کا پامردی کے ساتھ مقابلہ کیا اور اپنی تحریک سے بے وفائی نہیں کی ۔ اسی لیے یہ داستان پڑھنے کے لائق ہے اور اسی داستان میں پاکستان کے سیاسی عمل اور اس عمل میں سرکاری ایجنسیوں کے ناجائز اور خوف ناک کردار کی چہرہ نمائی بھی ہوتی ہے۔ کتاب کی زبان اور پیرا ِ اظہار عام فہم اور سہل ہے، اس طرح یہ کتاب ایک خاص رخ سے اپنے قاری کے دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔

نزول (ادبی جریدہ)

مدیر: اذلان شاہ

جدید شعرو ادب کے حوالے سے سمجھ دار لوگ ہمیشہ رفتار ِادب کی پیمایش تازہ ادبی جریدوں سے کرتے ہیں۔ ادبی جراید ہر دور میں سنجیدہ ناقدین اور تجزیہ کاروں کو حرف ِتازہ کے نئے جہانوں سے آگاہ کرتا رہا ہے۔ گوجرہ، ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ سے نکلنے والا نیا ادبی جریدہ ’’نزول‘‘ بھی ایسے ہی معتبر ادبی جریدوں میں شمار کیا جاتا ہے، جس میں پاکستان اور بھارت کے منتخب لکھنے والے اپنی تازہ نگارشات سے جدید شعروادب کے زندہ رہنے کا جواز پیش کرتے ہیں اور شعرو ادب کے نئے زرخیز امکانات کی صورت گری کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ’’نزول ‘‘ کا سلوگن ہے ’’فن کی جمالیاتی قدروقیمت اور وجدانی دلائل کا حاصل‘‘ اور یہ بڑی معنی خیز بات ہے۔ پھر اس کی پاس داری بھی ’’نزول کے مدیر سید اذلان شاہ ہ جگہ کرتے نظر آتے ہیں۔

تین سو چار صفحات پر پھیلے ’’نزول‘‘ کے ساتویں اور تازہ شمارے میں حسب ِروایت حمد، نعت، غزل، نظم، افسانہ ، مضامین، کتابوں پر تبصرے، شعرا کے گوشے اور خطوط سمیت سبھی کچھ شامل ہے۔ اس بار بھی ’’نزول‘‘ کے مدیر سیداذلان شاہ نے جدید ادب کے مسائل پر پُرمغز اداریہ تحریر کیا ہے اور کئی چبھتے ہوئے سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ سرورق پر بھارت کے مشہور شاعر راحت اندوری موجود ہیں اور ان کے فن و شخصیت پر مظفر حنفی، توصیف تبسم، زبیر رضوی، بشیربدر، وسیم بریلوی سمیت کئی اہم شعرا کے مختصر مضامین موجود ہیں۔ اس کے ساتھ راحت اندوری کی پچا س سے زاید غزلیں بھی دی گئی ہیں، تاکہ قارئین مشاعرے کے ایک مشہور شاعر کے فکر وفن کو ایک زاویے سے دیکھ سکیں، پرکھ سکیں۔ ’’نزول‘‘ میں راحت اندوری کے علاوہ دیگر معروف شعرا کے مختصر گوشے بھی موجود ہیں۔

اس کے علاوہ تازہ افسانے اور اہم موضوعات پر مضامین بھی جریدے کی اہمیت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو ’’نزول‘‘ کے آئینے میں جدید شعرو ادب کے منفرد خدوخال دیکھے جاسکتے ہیں اور جدید شعرو ادب کی زندہ رہنے پر یقین بھی کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ دور میں کسی فرد ِواحد کا ادبی جرید ہ نکالنا اور وہ بھی تواتر کے ساتھ، یقیناً ایک کار ِجہاد ہے اور ’’نزول‘‘ کے مدیر سید اذلان شاہ،جو بڑے عمدہ شاعر بھی، ناقد بھی ہیں، یہ کام حسن کاری اور سلیقہ مندی سے بڑے تسلسل کے ساتھ کر رہے ہیں، اور اس حوالے سے مبارک باد کے مستحق ہیں، خدا ان کے حوصلے سلامت رکھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔