جب میدان اور پارک نہیں ہونگے تو یہی ہوگا

جب میدان نہیں ہونگےتو بچے گلی میں ہی کھیلیں گے، اورگلی میں کھیلنے کیوجہ سے شیشہ بھی ٹوٹے گا اور کسی کا سربھی پھوٹے گا


کوثر جبیں December 29, 2016
ایک صحتمند معاشرے کے لئے پارکوں اور میدانوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن ہمارے یہاں کھیل کے میدانوں اور پبلک پارکوں کی شدید کمی ہوچکی ہے۔ فوٹو: فائل

ABBOTABAD: گھنٹی کی آواز آئی، دروازہ کھولا تو کئی بچوں کے چہرے سامنے تھے۔
''آنٹی آپ کے گھر میں گیند آئی ہے، دے دیں ... اب نہیں آئے گی''

میں نے غصہ کرنے کے بجائے، دروازہ بند کیا اور گیند اُٹھا کر باہر کی طرف اچھال دی۔ خوشی سے چلاتے بچوں کا ایک شور بلند ہوا، گیند آگئی گیند آگئی اور وہ پھر سے اپنے کھیل میں مصروف ہوگئے۔

محلے میں کوئی تو خاموشی سے گیند واپس کردیتا کہ چلو بچے ہی ہیں، گراؤنڈ تو ہے نہیں جہاں یہ جاکر کھیلیں لیکن جس کی کھڑکی کے شیشے ٹوٹتے، وہ آسمان سر پر اٹھالیتے، (اس مسئلے کے حل کے لئے شیشے کے بجائے لوہے کی کھڑکیاں لگوائی جائیں، مفت مشورہ)۔ اب جس کے گھر کا شیشہ ٹوٹتا وہ شکایت لے کر بچوں کے گھر تک پہنچ جاتے، اِس شکایت کا نقصان یہ ہوتا کہ کچھ ضدی بچے بار بار اُنہی کھڑکیوں کو چھکوں کا نشانہ بناتے جہاں سے شکایت گئی تھی۔ سوال تو یہ ہے کہ بچے گلی میں اگر اپنا پسندیدہ کھیل کرکٹ کھیلتے ہیں تو لازماً گیند اپنے کرشمے دکھائے گی، کسی کا شیشہ ٹوٹے گا، کسی کا سر پھوٹے گا، اب اگر بچے گلی میں بھی نہیں کھیل سکتے تو آخر کہاں کھیلیں گے؟

ایک صحتمند معاشرے کے لئے پارکوں اور میدانوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن ہمارے یہاں کھیل کے میدانوں اور پبلک پارکوں کی شدید کمی ہوچکی ہے اور جن جگہوں پر میدان ہوتے بھی ہیں تو وہاں بچت بازار لگا دئیے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ بات کوئی نہیں سوچتا کہ اِس حرکت کی وجہ سے بچوں اور نوجوانوں کی کھیلوں کی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں، یہاں رویہ کچھ ایسا ہے کہ اگر سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں تو ہوتی رہیں۔ میدان ہیں کہ کچرے کا ڈھیر بنتے جارہے ہیں۔ بچوں کے کھیلنے کے لیے ان میدانوں کو کچرے سے بھرنے کی ذمہ داری تو عام شہریوں نے اٹھا رکھی ہے اور اُس کی صفائی حکومت اور انتظامیہ کا فرض قرار دے کر خود ہر الزام سے بری الزمہ ہوجاتے ہیں۔ بلکہ صورت حال تو یہ ہے کہ پارکوں اور میدانوں کو شادی کی تقریبات کے لئے بھی اب مختص کردیا گیا ہے۔

آبادی میں اضافے اور بے ہنگم ٹریفک کو سنبھالنے کے پیشِ نظر فلائی اوورز تعمیر ہورہے ہیں، اونچے اونچے مالز بنائے جارہے ہیں لیکن صحتمند معاشرے کے ضامن کھیل کے میدان اور فیملی پارکوں کی قلت کی کسی کو کوئی فکر ہی نہیں۔ عوام کا پیسہ لگا کر پارک بنائے بھی جاتے ہیں تو کچھ ہی عرصے بعد اُس کے حسن کو گہن لگ جاتا ہے یا پھر وہاں کا ماحول کچھ اِس طرح کا بنادیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ پارک فیمیلیز کے جانے کے قابل ہی نہیں رہتے۔ کہیں نشئی قبضہ کرلیتے ہیں تو کہیں پارکنگ، لینڈ، ٹرانسپورٹ مافیا کی اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے۔ پارکوں میں صفائی ستھرائی نہیں ہوتی، اس لئے بھی لوگ آنا بند کردیتے ہیں۔ عدم توجہی کی وجہ سے شہر میں پہلے سے موجود پارک بھی اجاڑ بیابان کا منظر پیش کررہے ہیں۔ یہاں نقصان ہوا تو یہ کہ نوجوان خصوصاً بچے میدانوں اور پارکوں کی تفریح سے محروم ہوگئے ہیں۔ سایہ دار درختوں کی کٹائی کے ساتھ پارکوں کی بربادی بھی کراچی کے بڑھتے درجہ حرارت کی اہم وجہ ہے، کیونکہ بارشوں کے نہ ہونے کا ایک سبب درختوں اور سبزے کی کمی بھی ہوتی ہے۔

ویسے تو ہر محلے میں کھیل کے میدان اور پبلک پارک ہونے چاہیئں، لیکن شہر میں ایسے پارک بہت کم ہیں جہاں شام کو فیملی کے ساتھ تفریح کا ماحول میسر ہو، ٹھنڈی ٹھنڈی گھاس پر خواتین چہل قدمی کرسکیں اور بچے کسی خطرے سے بے نیاز ہوکر کچھ وقت کھلی صاف فضاء میں سانس لے سکیں۔ لیکن کیا کیا جائے اب یہ سب میسر ہی نہیں، اسی سبب نئی نسل اپنے فارغ اوقات سے لطف اندوز ہونے کے لئے غیر صحتمندانہ سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہے۔ وقت گزاری کے لئے ٹی وی دیکھتے رہنا، کمپیوٹر کو دیر تک استعمال کرنا اور زیادہ وقت سوشل میڈیا پر صرف کرنا، موبائل کا حد سے زیادہ استعمال، بس یہ سمجھ لیجئے کہ آج کل خصوصاً بچوں کا زیادہ تر فارغ وقت مشینوں کے ساتھ، گھر میں ہی گزرتا ہے۔

اِس حقیقت سے بھلا کون انکاری ہوسکتا ہے کہ جسمانی طور پر فعال اور فٹ انسان کا دماغ زیادہ بہتر طریقے سے کام کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ تعلیم میں نمایاں کارکردگی کے لئے کھیل کود اور تفریح کو بھی لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ مصروف زندگی کی وجہ سے شہروں کے باشندے خاص طور پر ذہنی تناؤ اور چڑاچڑاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔ اس تناؤ کو دور کرنے کے لئے روزانہ کچھ کھیل کود، تفریح اور سب سے بڑھ کر کھلی صاف ہوا ضروری ہے۔ اِس سے انسان نہ صرف چاق و چوبند رہتا ہے بلکہ مثبت سوچ بھی پروان چڑھتی ہے۔ خوشگوار ہوا دن بھر لہو کے بیل کی طرح جتے رہنے والے خواتین و حضرات کو ہلکا پھلکا کردیتی ہے اور بچے بھی خوش ہوجاتے ہیں۔ انہیں والدین کی آنکھوں کے سامنے کھیلنے کی خاطر ایک وسیع جگہ میسر آجاتی ہے۔ اِس کے علاوہ پارکوں میں موجود درختوں اور سبزے سے آلودگی اور گرمی میں بھی کمی ہوتی ہے۔

ضرورت اِس امر کی ہے کہ نئے پارکوں کی تعمیر کے ساتھ پہلے سے موجود پارکوں پر بھی توجہ دی جائے، کھیل کے میدانوں کی بحالی کے اقدامات کئے جائیں، نہ صرف انتظامیہ بلکہ شہری بھی اس کام میں حصہ ڈالیں۔ پارکوں اور میدانوں کی صفائی ستھرائی کے لئے مل کر کام کریں۔ آؤٹ ڈور گیمز کے لئے بچوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ اگر آپ کے علاقے میں پارک و میدان نہیں تو درخواست دے کر ذمہ داران کی توجہ اِس جانب مبذول کرائیں، کیونکہ صحت مند معاشرے کے حصول کے لئے سب کو ہی ملکر کام کرنا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

مقبول خبریں