ذہنی پسماندگی کی انتہا

شبیر احمد ارمان  ہفتہ 5 جنوری 2013
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

یہ ذہنی پسماندگی کی انتہا ہی ہے کہ کراچی، گڈاپ ٹاؤن کے علاقے یونین کونسل 4 میں یونین کونسل پولیو سپروائزر عمرفاروق سولنگی گوٹھ میں مہم کی مانیٹرنگ کے بعد واپس جارہے تھے کہ راستے میں نامعلوم افراد نے گولیاں ماردیں اور وہ اسپتال میں دوران علاج چل بسے، جن کی عمر 26 سال بتائی جاتی ہے۔اسی روز گڈاپ ٹاؤن کے یونین کونسل 5 میں پولیو مہم کے دوران نامعلوم مسلح افراد نے ڈاکٹر عابد اور ان کی پولیو ٹیم کو لوٹ لیا، ڈاکٹر عابد کا موبائل فون اور پولیو مائیکرو پلان بھی چھین لیا۔

اسی روز تیسرا واقعہ بلدیہ ٹاؤن میں پیش آیا، بلدیہ ٹاؤن کے ٹاؤن ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر عارف نیاز یونین کونسل 4 میں پولیو مہم کی مانیٹرنگ کر رہے تھے کہ اچانک 2 مسلح افراد نے ان کی گاڑی روکی، موبائل فون اور پرس جس میں 15 ہزار روپے نقدی تھی، چھین کر فرار ہوگئے اور ملزمان نے ڈاکٹر عارف نیاز کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ ابھی یہ خبریں گردش میں تھیں کہ 19 دسمبر کو خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور، ضلع چار سدہ کی تحصیل شب قدر میں انسداد پولیو مہم کے رضاکاروں پر دوسرے روز بھی نامعلوم افراد کے حملوں میں سپروائزر سمیت مزید 3 رضا کار جاں بحق ہوگئے۔

چارسدہ کے علاقے نستہ، شیخو اور نوشہرہ کے علاقے رسالپور میں بھی انسداد پولیو ٹیموں پر فائرنگ اور یرغمال بنائے جانے کے واقعات پیش آئے۔ اس سے ایک دن پہلے یعنی 18 دسمبر کو کراچی میں انسداد پولیو مہم کے دوسرے روز لانڈھی گلشن بونیر، اورنگی ٹاؤن اور بلدیہ ٹاؤن میں رضاکاروں پر گولیاں برسائی گئیں۔نامعلوم ملزمان کی فائرنگ سے 44 سالہ فہمیدہ اور اس کی بھانجی 19 سالہ مدیحہ ،54 سالہ نسیم اختر ، 45 سالہ کنیز ہلاک ہوئیں جب کہ 21 سالہ محمد اسرار اور 25 سالہ اسد علی عرف راشد زخمی ہوگئے۔

ادھر اسی روز پشاور میں انسداد پولیو ٹیم پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 14 سال کی فرزانہ جاں بحق ہوئی۔ ذہنی پسماندگان نے تمام خواتین کو سروں میں گولیاں مار کر قتل کیا ۔ اس طرح کراچی اور پشاور میں کل 9 ورکرز کی ہلاکت پر انسداد پولیو مہم معطل کردی گئی، اقوام متحدہ اور یونیسیف نے مانیٹرنگ ٹیمیں واپس بلالیں، سندھ اور خیبر پختونخوا حکومت نے بھی مہم روکنے کا اعلان کیا، قومی اسمبلی میں مذمتی قرارداد منظور کی گئی، سینیٹ میں احتجاج کیا گیا، جاں بحق وزخمی ورکرز کو معاوضے اور ورثاء کو سرکاری نوکری دینے کا اعلان کیا گیا، ملک بھر میں انسداد پولیو مہم کے رضاکاروں نے پرامن مظاہرے کیے۔

کراچی میں پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کی تعداد 22 لاکھ بتائی جاتی ہے اور انسداد پولیو مہم کے دوران ان بچوں کو پولیو وائرس سے بچاؤ کی حفاظتی خوراک پلانے کے لیے 4 ہزار رضاکاروں کی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔ دہشت گردی کے مذکورہ بالا واقعات کے بعد معلوم ہوا کہ بیشتر والدین نے انسداد پولیو مہم میں حصہ لینے والی رضاکار خواتین اور لڑکوں کو مہم میں حصہ لینے سے منع کردیا ہے، کہا جاتا ہے کہ خونریز انسداد پولیو مہم میں حصہ لینے کے بجائے مفلسی، غربت اور بھوک برداشت کرلو، رضاکاروں کا کہنا ہے کہ اب وہ انسداد پولیو مہم میں حصہ نہیں لیں گے۔ پاکستان نرسنگ ایسوسی ایشن نے بھی کراچی سمیت اندرون سندھ میں پولیو مہم میں کام کرنے سے انکار کردیا ہے اورکہا ہے کہ پولیو ورکروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کے اشتراک سے چلائی جانے والی انسداد پولیو مہم کے دوران دہشت گردی کا نشانہ بننے والی رضاکار خواتین کو یومیہ 250 روپے معاوضہ ملتا تھا۔ یہ معاوضہ پولیو مہم کے دوران تمام رضاکاروں کو ادا کیا جاتا تھا۔ انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین پولیو مہم کا انتظار کرتی تھیںکہ مہم شروع ہو تو ان کو ساڑھے سات سو روپے مل جائیں گے۔ یہ معمولی رقم ان ورکرز کو پولیو مہم میں شرکت کا ثبوت دیے جانے کے ایک ہفتے بعد جاری کی جاتی ہے۔

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے یہ رضاکار محکمہ صحت کے ملازم ہوتے ہیں نہ عالمی ادارہ صحت انھیں اپنا ملازم سمجھتا ہے۔ بچوں کو پولیو وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنا قومی فریضہ ادا کرنے والی خواتین رضاکار جو دہشت گردی کا نشانہ بن گئیں لیکن تاہنوز محکمہ صحت سمیت کسی بھی ادارے نے ان کے اہل خانہ کی کفالت کے لیے کوئی اعلان نہیں کیا۔ البتہ خیبر پختونخوا حکومت نے جاں بحق ورکرز کو فی کس 3 لاکھ، سندھ حکومت نے 5 لاکھ روپے اور زخمی ہونے والوں کو 2 لاکھ فی کس معاوضہ ادا کرنے کے علاوہ ورثاء کو سرکاری نوکری دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔

لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ محکمہ صحت کے متعلقہ افسران سمیت تعزیت کرنے والے تک خوفزدہ ہیں، جاں بحق ہونے والی فہمیدہ، مدیحہ، کنیز اور نسیم اختر کے گھر ان کے قریبی رشتے دار حتیٰ کہ علاقہ مکین بھی تعزیت کے لیے نہیں گئے اور میڈیا کے نمایندے تک سخت سیکیورٹی حصار میں جاں بحق ورکرز کے گھر پہنچے تھے۔

علاقہ مکینوں نے میڈیا کو بتایا کہ دہشت گرد ان ہی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں اور ہمارا تعزیت کرنے جانا بھی برا لگے گا، ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، خواتین کے مرنے کا شدید صدمہ ہے، لیکن دہشت گردوں کے خلاف احتجاج بھی نہیں کرسکتے۔خوف کا عالم یہ ہے کہ انسداد پولیو مہم کی ورکرز پر حملے کی تحقیقات کے سلسلے میں عینی شاہدین، اہل محلہ اور محکمہ صحت کے اہلکاروں نے تفتیشی ٹیموں سے تعاون کرنے سے انکار کردیا ہے۔ یہ خوف کے سائے کیوں منڈلا رہے ہیں؟

کہا جاتا ہے کہ ’’لانڈھی گلشن بونیر کے رہائشی محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے کچھ لڑکے چاہتے تھے کہ علاقے کے بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلائیں، ان کا کہنا تھا کہ امریکا ایک سازش کے تحت مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔‘‘ یہ بات انسداد پولیو مہم گلشن بونیر کی انچارج گلناز نے بتائی جو یونین کونسل نمبر1 گلشن بونیر کی انسداد پولیو مہم کی ایریا انچارج ہیں جب کہ مقتولہ مدیحہ اس کی بھانجی اور فہمیدہ بھابی تھیں۔ تحقیق کے مطابق 1789 میں سب سے پہلے انگلینڈ سے تعلق رکھنے والا کم سن بچہ مائیکل ونڈرووڈ پولیو کا شکار ہوا جب کہ 19 ویں صدی میں یورپ میں پولیو وائرس وبائی صورت اختیار کرگیا تھا۔

جونس سالک نامی سائنسدان نے 1952 میں پولیو سے بچاؤ کے لیے ویکسین کا تجربہ کیا اور 12 اپریل 1955 کو اس ویکسین کو دنیا بھر میں متعارف کرایا اس وقت پولیو ویکسین انجکشن کی شکل میں متعارف کرائی گئی، بعدازاں امریکی میڈیکل ریسرچر البرٹ سابن نے منہ کے ذریعے دی جانے والی ویکسین 1957 میں متعارف کروائی۔ اسی زمانے سے مسلمان بچوں کو یہ انجکشن لگوائے اور قطرے پلائے جاتے رہے ہیں۔ اس وقت سے اب تک کتنے مرد نامرد اور کتنی عورتیں بانجھ ہوئی ہیں؟ اس حوالے سے کوئی شہادت اور رپورٹ سامنے نہیں آئی اور پولیو قطرے میں ایسی کون سی دوا شامل ہے جس سے مسلمانوں کی آبادی میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے یہ بحث طلب موضوع ہے جس سے حقائق اور مفروضے کی جانچ ہوسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔