شوگر ملوں کی منتقلی میں قانون کی خلاف ورزی ہوئی شریف خاندان کے وکلا کا اعتراف

منتقلی نہیں، نئی مل کیلیے اجازت کی ضرورت ہے، وکیل شریف فیملی


Numainda Express February 25, 2017
جنوبی پنجاب منتقلی میں کسی کی بدنیتی شامل نہیں تاہم قانونی طور پر اجازت نہیں لی گئی، اجازت لینا لازمی ہے، خواجہ حارث۔ فوٹو؛ فائل

لاہور ہائی کورٹ کے روبرو پنجاب حکومت کے وکلا نے انکشاف کیا ہے کہ شریف خاندان کی شوگر ملز کی منتقلی میں کوئی بدنیتی شامل نہیں تاہم اس عمل میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے شریف خاندان کی اتفاق، حسیب وقاص اورچوہدری شوگر ملز کی جنوبی پنجاب منتقلی کے خلاف جہانگیر ترین سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی، دوران سماعت پنجاب حکومت کے وکلا نے شوگر ملز کی منتقلی غیر قانونی قرار دے دی، پنجاب حکومت کی طرف سے خواجہ حارث ایڈووکیٹ اور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل عدنان طارق نے پیش ہو کر موقف اختیار کیا کہ شوگر ملز کی جنوبی پنجاب منتقلی میں کسی کی بدنیتی شامل نہیں تاہم شوگر ملز کی منتقلی کیلیے قانونی طور پر اجازت نہیں لی گئی، قانونی تقاضے پورے کیے بغیر شوگر ملز کی منتقلی سے قانون کی خلاف ورزی کی گئی۔

حکومتی وکلا کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب انڈسٹریل آرڈیننس کی دفعہ 3 کے تحت شوگر ملز کی منتقلی سے قبل اجازت لینا لازمی ہے، چوہدری اور حسیب وقاص شوگر ملز کی جانب سے علی سبطین فضلی نے دلائل میں کہا کہ قانون میں منتقلی کی نہیں بلکہ نئی مل لگانے کیلیے اجازت کی ضرورت ہے، اتفاق شوگر ملزکی طرف سے سلمان اکرم راجا ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ دسمبر 2015 کے نوٹیفکیشن سے قبل ہی اتفاق اور حسیب وقاص شوگر ملز کی منتقلی کر دی گئی تھی کیونکہ ان کے مطابق اس نوٹیفکیشن میں منتقلی پر پابندی کا کوئی ذکر نہیں تھا اور نہ ہی منتقلی سے قبل اجازت لینا قانونی تقاضا تھا، 2015 کا نوٹیفکیشن صرف یہ بتاتا ہے کہ اگر کسی نے شوگر مل منتقل کرنی ہے تو اس کا فریم ورک اورطریقہ کار کیا ہوگا۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد مزید سماعت 27 فروری تک ملتوی کر دی جبکہ پنجاب حکومت سے آرڈیننس کی قانونی حیثیت پر مزید معاونت طلب کر لی۔

 

مقبول خبریں