بلوچستان کا حُسن

علی جبران  جمعـء 17 مارچ 2017
پہاڑ سے گرتا گرم پانی کا آبشار جسمانی تھکن دور کرنے کے لئے کافی تھا۔ پانی میں رنگ برنگے پتھر اور مچھلیاں اِس کے حُسن میں مزید اضافہ کر رہی تھیں۔ فوٹو: ایکسپریس

پہاڑ سے گرتا گرم پانی کا آبشار جسمانی تھکن دور کرنے کے لئے کافی تھا۔ پانی میں رنگ برنگے پتھر اور مچھلیاں اِس کے حُسن میں مزید اضافہ کر رہی تھیں۔ فوٹو: ایکسپریس

انسان کی تمام تر بھاگ دوڑ، محنت و مشقت، جدوجہد سب کی سب سکون حاصل کرنے کے لئے ہی ہوتی ہے۔ اگر یوں کہوں کہ تمام تر عمل کا مرکز ذہنی سکون ہی ہوتا ہے تو کسی صورت غلط نہیں ہوگا۔ انسان کو اگر ذہنی سکون میسر ہو تو انسان نہ صرف خود ترقی کرتا ہے بلکہ ایک بہترین معاشرہ بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان سکون کی تلاش میں ایجادات کر بیٹھتا ہے اور کامیابی کی منازل طے کرتا چلا جاتا ہے۔

یہ فطری عمل ہے کہ جب کوئی چیز مسلسل کام کی حالت میں ہو تو اُسے آرام کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ کارکردگی اور زندگی کا سفر احسن طریقے سے چلتا رہے، یہی وجہ ہے کہ جب انسان بہت زیادہ کام کر لے یا کسی ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو تو اُسے لوگ کسی اچھی سیر و تفریح کا مشورہ دیتے ہیں۔

اچھی سیر و تفریح انسان کی صحت کے لئے بھی کافی مفید ہوتی ہے، لہذا سال میں کم از کم ایک اچھی سیر ضرور ہونی چاہیئے۔ پکنک میں جگہ کا انتخاب بہت اہم ہوتا ہے، انسان ذہنی سکون کے لئے پکنک مناتا ہے اِس لئے جگہ کا پُرسکون ہونا لازمی ہے، اور سکون یقیناً اُسی مقام پر ہوگا جسے سکون بنانے والے نے خود بنایا ہو، یعنی قدرتی مناظر، مصنوعی نہیں، کیونکہ قدرتی مناظر روح کو تازگی بخشتے ہیں۔

پاکستان ایسے قدرتی مناظر سے مالا مال ہے، خاص کر بلوچستان! جی ہاں بلوچستان! آپ کو نام سُن کر ایک لمحے کے لئے حیرت ضرور ہوئی ہوگی، لیکن جس جگہ کا میں آپ کو بتانے لگا ہوں وہ واقعی قدرت کا ایک شاہکار ہے۔

بلوچستان معدنی وسائل سے تو مالا مال ہے ہی، لیکن ساتھ ساتھ سیاحتی مقامات میں بھی اِس کا کوئی ثانی نہیں۔ میں بات کررہا ہوں بلوچستان میں واقع ایک خوبصورت وادی ’مولا‘ کی، جی ہاں! بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان کھجوروں کے باغات میں گِھری کچے پکے مکانات والی وادی جو دور سے نخلستان اور قریب آنے پر جنت نظیر یعنی کشمیر کی مانند لگتی ہے۔

سفید پتھروں اور خشک سنہری جھاڑیوں والی کچی سڑک وادی مولا سے گزرتی ہے جس کے دائیں اور بائیں جانب پہاڑوں سے بہتا پانی بھی کھجور کے پتوں کے درمیاں سے واضح نظر آتا ہے۔

ہماری منزل وادی مولا نہیں بلکہ مولا وادی میں موجود نیلے پانی والا آبشار تھا جو ’’چٹوک‘‘ نامی پہاڑی سے بہتا ہے۔ بہت کم لوگ اِس قدرتی شاہکار کے بارے میں جانتے ہوں گے۔ ہم نے بھی پکنک کے لئے مولا چٹوک نامی جگہ کا انتخاب کیا اور کراچی سے اِس حسین شاہکار (جو کہ کسی جنت کے منظر سے کم نہیں) کو دیکھنے کے لئے ہفتے کی شب 7 بجے روانہ ہوگئے۔

کراچی سے مولا چٹوک جانے کے لئے بلوچستان کے شہر خضدار جانا ہوتا ہے۔ خضدار کراچی سے 475 کلو میٹر دور ہے۔ طویل سفر طے کرنے کے لئے آرام دہ گاڑی کا ہونا ضروری ہے، نہیں تو آپ کا سفر آپ کو بہت زیادہ تھکا سکتا ہے، کھانے کا سامان، فرسٹ ایڈ، پانی کا ذخیرہ آپ کے پاس ہونا لازمی ہے۔

مولا چٹوک جانے کے لئے کم از کم 3 دن چائیے۔ ایک دن خصدار میں آرام کریں اور اگلے دن صبح صادق ہوتے ہی مولا چٹوک کے لئے روانہ ہوجائیں، ہم نے بھی کچھ ایسا کیا۔ کراچی سے خضدار جاتے ہوئے اوتھل شہر میں رک کر چائے پی تاکہ تازہ دم ہوسکیں۔

سردی کا موسم تھا لہذا جتنی رفتار سے ہم خضدار کی طرف بڑھ رہے تھے، اتنی ہی تیزی سے درجہ حرارت بھی کم ہوتا چلا جارہا تھا۔ صبح کے 4 بجے ہم خضدار میں تھے۔ ریسٹ ہاؤس ہمارے لئے پہلے ہی بُک تھا۔ اب چونکہ سفر کے دوران بھوک بھی کافی لگی تھی، لہذا سب نے ریسٹ ہاؤس جاتے ہی کھانے کی ڈیمانڈ کردی، بھوک اور ٹھنڈ کی شدت سے ہم سب کانپ رہے تھے۔ ہمارے بہت ہی اچھے دوست محمد زبیر جو کہ کھانا پکانے کے ماہر ہیں، انہوں نے فوراً کوئلے سلگائے اور باربی کیو شروع کردیا، آگ لگانے کی دیر تھی کہ سرد اندھیری رات میں آگ پر ہاتھ تاپنے سب دوست انگیٹھی کے پاس آپہنچے۔

گرما گرم بھانپ نکلتے تکے کھائے اور دھواں نکلتی چائے کی چسکیاں بھریں، باتوں باتوں میں صبح کا سورج پہاڑوں کے عقب سے انگڑائیاں بھرتے اپنے وجود کا احساس دلانے لگا تھا۔ پہاڑوں کی جانب دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کسی بہت بڑے کینوس پر کسی عظیم مصور نے فن پارہ تخلیق کیا ہو، اِس خوبصورت فن پارے کو کیمرے کی آنکھ میں قید کرنے کی بھی کوشش کی، جو کہ اِس بلاگ میں موجود ہے۔

سورج اب پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا، اِس کی نرم ملائم کرنیں سردی کا احساس کم کرنے لگی تھیں مگر ریسٹ ہاؤس کے اطراف پہاڑ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے سرد موسم کا خوشگوار احساس دِلا رہے تھے۔ صبح کے سات بج چکے تھے اور دل کر رہا تھا کہ وقت تھم جائے اور چند گھڑیاں مزید اِن لمحات کو محسوس کیا جاسکے مگر ایسا ممکن نہیں تھا کیوںکہ ہمیں خضدار سے مولا چٹوک لے جانے کے لئے گاڑی ریسٹ ہاؤس پہنچ چکی تھی۔

پلک جھپکتے ہی تمام دوست ساز و سامان کے ہمراہ گاڑی میں سوار ہوگئے اور اب ہماری گاڑی خضدار سے مولا چٹوک کے لئے روانہ ہو چکی تھی۔ مولا چٹوک خصدار سے 190 کلومیٹر کی مسافت پر خوبصورت وادی ’مولا‘۔

راستہ اونچا نیچا، کچا پکا تھا، راستے میں خوبصورت وادیاں، کھجوروں کے باغات اور ترقیاتی کام ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ کچے پکے راستوں سے ہوتے ہوئے ہم بلوچستان کے علاقے ’’کرخ‘‘ پہنچے، جہاں ہمیں ہمارے ایک ساتھی نے جوائن کیا۔

حسین مگر خطرناک سفر کا آغاز ہوا، پتلی سڑک کے ایک جانب دیو قامت پہاڑ تو دوسری جانب ہزاروں فُٹ گہری کھائی تھی۔ دل کو تسلیاں دیتے دیتے پہاڑی سفر کا سلسلہ ختم ہوا۔ اب ہم مولا وادی میں پہنچ چکے تھے جو کہ الف دین کا آبائی گاؤں تھا۔ الف دین بی ایس کیا ہوا لیوز کا سڈول سپاہی تھا، جو پورے سفر ہمارے ساتھ رہا، اور اُسی نے مجھے چٹوک کے معنی بتائے، چٹوک کے معنی ہیں (پہاڑوں سے ٹپکتی ہوئی پانی کی بوندیں)۔

4 گھنٹے کی مسلسل مسافت طے کرکے ہم مولا چٹوک ریسٹ ہاؤس پہنچے۔ اِس ریسٹ ہاؤس سے چٹوک پہاڑ کا پیدل فاصلہ کم از کم 40 منٹ کا ہے اور یہی وہ جنت نظیر مقام تھا جس کے لئے ہم نے کراچی سے بلوچستان تک کا تھکن بھرا سرد موسم برداشت کیا۔ وہاں پہنچ کر ہر ایک کے چہرے کِھل اٹُھے تھے۔ مانو جیسے 15 گھنٹے کا سفر کوئی معنی ہی نہیں رکھتا ہو۔

پہاڑوں سے چھنتی دھوپ شفاف نیلے پانی پر گر رہی تھی۔ پہاڑ سے گرتا گرم پانی کا آبشار جسمانی تھکن دور کرنے کے لئے کافی تھا۔ پانی میں رنگ برنگے پتھر اور مچھلیاں اِس کے حُسن میں مزید اضافہ کر رہی تھیں۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہم کسی جنت میں آگئے ہوں، سب کچھ اُمید سے پرے تھا۔

وہاں خدا کی قدرت پر رشک آیا، وقت تیزی سے گزرنے لگا، اور ہمیں مجبوراً اِن خوبصورت لمحات کو خیر آباد کہنا پڑا۔ یقینًا یہ لمحات میری زندگی کے چند حسین لمحات میں سے تھے، جسے میں کبھی بھُلا نہیں سکوں گا۔ خدا کی قدرت کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ اُس کی جنت کتنی خوبصورت ہوگی۔

خدا سے دعا ہے کہ اللہ! میرے پاک وطن کو ہمیشہ سلامت قائم و دائم رکھے، ہر ایک صوبے کو اپنی امان میں رکھے، بلوچستان کو دشمنوں کے شر سے بچائے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے مختصر سی زندگی میں بہت سے قیمتی لمحات محفوظ کرلئے ہیں، جو خوشگوار زندگی گزارنے کے لئے کافی ہیں۔

لیکن اگر آپ بھی مولاچٹوک جانا چاہتے ہیں تو ان باتوں کا خیال رکھیں۔

  • صحیح گاڑی کا انتخاب کریں۔
  • کھانے پینے کا سامان ساتھ رکھیں۔
  • خضدار سے مولا چٹوک تک کے لئے مقامی ڈرائیور کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔
  • فرسٹ ایڈ باکس ضرور رکھیں۔
  • ہوٹل یا ریسٹ ہاؤس بُک کرالیں۔

اور سب سے ضروری دورانِ سفر اپنا اور دوسرے کا بھی خیال رکھیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔