سر ونسٹن چرچل نے کیا کہا

سر ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب پانی اور ہوا پر بھی ٹیکس عائد ہو گا۔


Abdul Qadir Hassan January 13, 2013
[email protected]

ہمیں اپنے بارے میں کسی کے انکشاف اور نصیحت کرنے اور عبرت دلانے کی حاجت نہیں، ہم نے اپنے ساتھ جو کچھ کیا ہے، وہ سب ہمارے سامنے روشن ہے اور اپنے ساتھ جو کچھ کر دیا ہے اس نے ہمیں پھر سے ایک غلام اور محتاج قوم اور ملک بنا دیا ہے۔ ہم پھر بھی یہ مسلسل کیے جا رہے ہیں۔ میرے آپ کے اختیار میں کچھ بھی نہیں لیکن ہماری قیادت وہ سیاسی یعنی سویلین رہی یا فوجی اس نے ہماری بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اپنے تمام ارمان پورے کر دیئے ہیں۔

تعجب ہے کہ آج ہم ایک غیر یا نیم پاکستانی جو زیادہ سے زیادہ صرف پاکستانی نژاد ہے کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔ میں ترا چراغ ہوں جلائے جا بجھائے جا والا مضمون بنا ہوا ہے۔ ہم پر مال و دولت نچھاور کی جا رہی ہے اور ایک دیوانگی طاری ہے، اس کا نتیجہ ایک آدھ دن بعد سامنے آ جائے گا لیکن ایک نتیجہ سامنے آ چکا ہے کہ ہماری فوجی اور سول اشرافیہ ایک آزاد اور با عزت ملک چلانے کے اہل نہیں ہے۔کسی نظریاتی ملک کی حکمرانی تو بہت ہی دور کی بات ہے۔

جس ملک میں اس کے بانی اور عظیم انسان کے بارے میں حد سے بڑھ کر ہرزہ سرائی کی جا رہی ہو اور ہم سب اسے برداشت کیے بیٹھے ہوں یا کوئی دوسرا ہمارے ایمان پر حملہ آور ہو اور ہم پھر بھی ایمان کی سلامتی کے کسی فریب اور زعم میں ہوں تو سچی بات یہ ہے کہ اب اپنے آپ کو فریب دینے کے سوا کچھ باقی نہیں رہا۔ میں مایوسی بلکہ گہری مایوسی کی باتیں کرنے پر معذرت خواہ ہوں مگر کس سے، ہم پاکستانی تو اس لائق بھی نہیں ہیں کہ کوئی ہمیں اتنی اہمیت بھی دے کہ وہ ہم سے اپنی کسی بات پر معذرت کرے۔

مثال یوں ہے کہ مجھے اپنے ایک دشمن کی بات یاد آتی ہے جو میں نے دلی میں سنی تھی کہ جب کسی مسئلے پر پاکستان کا ذکر آیا تو اس نے بڑی حقارت سے کہا کہ چھوڑو اسے، اب اس کا ذکر بے معنی ہے۔ ایک ہندو ایک پاکستانی کے منہ پہ یہ کہہ رہا تھا اور اس کے لہجے میں کوئی جھجھک نہ تھی، یہ آدمی ایک بہت اہم بھارتی صحافی اور دانشور تھا اور اسے اپنی گفتگو کے معنی و مفہوم کا خوب احساس تھا۔ میں نے اس وقت سوچا کہ ہم اس حد تک گر گئے ہیں کہ اب کوئی تکلف بھی نہیں کرتا اور اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھتا کہ یہ کیا ہیں اور اب ان کی اوقات ہی کیا ہے۔

انگریزوں کا ایک کامیاب سیاست دان اور بلا شبہ دانشور اور ذہین انگریز سر ونسٹن چرچل نے جسے انگریز عہد کا سب سے بڑا انگریز کہتے ہیں، برصغیر ہندو پاک کی آزادی کی مخالفت کرتے ہوئے جو دلائل دیئے تھے، وہ آج ایک پیش گوئی بن کر ہمارے سامنے ہیں۔ چرچل نے اپنی حکومت جو اس کی مخالف سیاسی پارٹی کی حکومت تھی کہا کہ ''انھیں آزادی مت دو کیونکہ اقتدار چوروں، اچکوں، بدمعاشوں اور خوشامدیوں کے پاس چلا جائے گا۔ تمام لیڈر معمولی ذہن اور سوچ کے ہوں گے۔ ان چھوٹے لوگوں کی باتیں شیریں لیکن دل احمق ہوں گے۔ یہ اقتدار کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے بھڑتے رہیں گے اور پاکستان اور انڈیا انھی تنازعوں میں غائب ہو جائیں گے۔

ایک دن ایسا بھی آئے گا جب پانی اور ہوا پر بھی ٹیکس عائد ہو گا'' اسی چرچل نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم ابھی پچاس برس تک ان پر حکومت کر سکتے ہیں۔ ہمارے اس سابق حکمران نے کوئی 64 برس پہلے اپنی حکومت کو یہ لکھ کر دیا تھا۔کیا تماشہ ہے کہ ہم نے اسے صحیح اور سچ ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے اور اس میں کامیاب رہے ہیں۔ آج ہمارے ایک بد امن صوبے کا گورنر کہتا ہے کہ اب میرا صوبہ میرے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور اس کی حکومت ختم ہو گئی ہے اور ہمارے اسلام آباد کا حال یہ ہے کہ ہمارے ملک کے حکمران غائب اور کراچی میں اپنے قلعہ نما مکان میں قلعہ بند اور کوئی بیٹے کی شادی میں ذہنی طور پر مصروف رہے، عوام کو ہم نے انھی انگریزوں کی ایک سابق نو آبادی کے ایک آدھے شہری کے سپرد کر دیا ہے۔ بس ایک تماشا لگا ہوا ہے۔

کوئی آنسو بہا کر اور کوئی دانت نکال کر یہ سب دیکھ رہا ہے۔ اس موقع پر ملک پر جو ایک ناگہانی آفت نازل ہونی ہے، وہ ہم بے بس اور لاچار لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے، ہمیں چھائوں میں ڈالتی ہے یا دھوپ میں تڑپتا چھوڑ دیتی ہے، ہم ایک بے اختیار انسان کی طرح دیکھ رہے ہیں۔ بغداد میں منگول فوج کا ایک جلاد شہریوں کو قطار میں کھڑا کر کے قتل کر رہا تھا کہ اس کی تلوار کند ہو گئی، اس نے باقی ماندہ کو حکم دیا کہ تم میرے آنے تک یہیں کھڑے رہنا ہلنا جلنا نہیں۔

پھر انگریزوں کے زمانے کا ایک واقع ہے کہ تھانیدار نے علاقہ کے معززین کو چھترول کے لیے طلب کیا، جب تھانیدار ان کو مار مار کر تھک گیا تو اس نے کہا میں ذرا آرام کرلوں۔ اس پر ایک معزز نے جرأت کر کے سر اٹھایا اور عرض کیا کہ ایک پھیرا پھر آئو گے یا سر پر پگڑیاں رکھ لیں۔ منگول بھی فاتح اور قابض تھے اور انگریزوں کا تھانیدار بھی تاج برطانیہ کی نمائندگی کرتا تھا، ان سب کے سامنے غلاموں کا ایک گروہ تھا مگر وہ تو کسی غالب منگول یا انگریز کے نمائندے تھے، ہم تو نام نہاد اپنوں کی غلامی میں ہیں اور پوچھ رہے کہ پگڑیاں سروں پر رکھ لیں یا آپ ایک بار پھر چھترول شروع کریں گے۔

آپ میری داد دیجیے جس نے پاکستان بنتے دیکھا اور پھر ایک ایسے پیشے میں آ گیا کہ حکمرانوں کو قریب سے دیکھا یعنی بنتے بگڑتے، عزت پاتے اور رسوا ہوتے، سب دیکھا اور اب یہ سب لکھ بھی رہا ہوں۔ میری یہ جرأت قابل داد نہیں تو کیا ہے۔

مقبول خبریں