پھر سے زندگی

فرح ناز  ہفتہ 10 جون 2017
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

پہلے زمانوں میں باپ دادا کو اگرکسی نے گالی دے دی توگویا قیامت آگئی اس بات پر ایسے لڑائی جھگڑے ہوتے تھے کہ اللہ کی پناہ! اور اب یہ فیشن بن گیا ہے۔ کہے جاؤ جو دل چاہے۔کیونکہ اب جوکہا جاتا ہے وہ بھی حقیقت ہے اور پہلے جو لڑائی جھگڑے ہوتے تھے وہ بھی حقیقت پر مبنی ہوتے تھے کیونکہ حسب و نسب ، خاندان ،کردار، روایتیں بڑی چیزیں ہوتی تھیں۔ ہاتھ پھیلانا بہت بری بات سمجھی جاتی تھی اب تو حال یہ ہے کہ خواتین اپنے میاں کے موٹر سائیکل مفت میں حاصل کرنے کے لیے ، بھاگ بھاگ کر میزبان کو پکڑرہی ہیں اور اس گیم میں جس خاتون نے پھرتی سے میزبان کوکم ٹائم میں پکڑ لیا لو بھئی موٹرسائیکل آپ کی ہوئی۔

روایتیں ایسے دم توڑ رہی ہیں کہ گویا ہم پھر سے پتھروں کے زمانے میں جا رہے ہیں اپنے اپنے اسمارٹ فون لے کر۔ ماہ رمضان ایک عالی شان مہینہ پورے اہتمام کے ساتھ منایا جاتا تھا، گھروں سے افطاری بن کر مساجد میں جایا کرتی تھی، بہت سے روضہ دار مساجد میں افطارکیا کرتے تھے، اب حال یہ ہے مسجد کے امام صاحب کے گھر افطاری مسجد سے جاتی ہے اور وہ بھی مختلف فوڈ فرنچائزکی۔ ماشا اللہ اب مساجد میں بڑے بڑے پیمانے پر کام ہوتے ہیں خوبصورت اے سی مساجد، 20 رمضان سے اعتکاف کا زبردست اہتمام بلکہ کئی جگہوں پر پہلے سے بکنگ کروانی پڑتی ہے، زبردست ڈونیشن باہر ممالک سے بھی اور اندرون ملک سے بھی، مگر پھر بھی افطاری کے ٹائم ہر مسجد کے باہر سیکڑوں بھوکے قطار در قطار کھانے کے انتظار میں موجود بے حساب زکوٰۃ و خیرات مگر پھر بھی ننگے پاؤں بچے، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس خواتین تقریباً تمام مساجد کے باہر شروع رمضان سے آخر رمضان تک پائی جاتی ہیں، بے حساب زکوٰۃ و خیرات آخر کہاں جاتی ہے، لوگوں کے دل نہایت مہربان، گھر کے راشن سے لے کر اسپتال کے علاج و معالجے تک ہر لیول پر چیریٹی موجود، بڑے کاروباری حضرات سے چھوٹے روزگار والے تک کھلے دل اور کھلے ہاتھ کے لوگ، کہ اس ماہ رمضان کی ہر نیکی کو اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے اللہ کی رحمت سمجھتے ہوئے کرتے ہیں۔ بڑے بڑے دل چھوٹے چھوٹے گھر صاف نیتیں کہ ہر شخص کو اپنی قبر میں خود جانا ہے اور اپنا حساب کتاب خود دینا ہے۔

روایتیں تیزی سے بدل رہی ہیں،گناہ وثواب کا معیار بھی بدل رہا ہے، طرز زندگی بھی بدل رہا ہے، اب حال یہ ہے کہ جو جتنا بڑا دھوکے باز وہ اتنا زیادہ اسمارٹ، جو جتنا زیادہ دولت مند وہ اتنا زیادہ عزت دار، بڑی بڑی گاڑیاں، بڑے بڑے گھرگویا عزت کا معیار، اسی لیے گالی گلوچ بھی برداشت، اس کان سے سنو اس کان سے نکالو، سلامت رہیں عمران خان جس نے ایسے ایسے کلف لگے لوگوں کے کرتوت کھول کھول کر چیخ چیخ کر عوام کو بتائے کہ اب تو حفظ ہوگئے ہیں۔ بڑے بڑے اجتماع میں موجود حکمرانوں کے استعفیٰ کے نعرے لگتے ہیں، کیا کیا کچھ کہا جاتا ہے کہ اخلاقی معیار تو یہی کہتا ہے کہ لات مار دی جائے ایسے مسندوں کو جو تہمت ہو، اور اللہ جانے کیا کیا۔

مگر یہاں تو کوئی ٹس سے مس ہونے کا نام لینے کو تیار نہیں۔ صبح و شام ٹیلی وژن اسکرینوں پر میلہ سجتا ہے، زبردست گفتگو ہوتی ہے ایک دوسرے کے کالے کرتوت بیان کیے جاتے ہیں، دھوکے کی قسمیں بتائی جاتی ہیں، ایک دوسرے کو کیا کیا کچھ نہ کہا جاتا ہے اور پھر تم اپنے گھر ہم اپنے گھر۔

کیا تھے ہم کیا ہوگئے اور کیا ہو جائیں گے؟ خالی دامن خالی معیارکے ڈبے جو ڈھول کی طرح بجتے جائیں گے بجتے جائیں گے۔

نہ جسم اپنے نہ روحیں، سب کچھ مانگے کا سب کچھ پرایا مخمل کی مسندیں، مخمل کے بندکورز، سنہرے سنہرے در و دیوار، کس کام کے اور کس حیثیت کے۔ ماتھے پر کالے ٹیکے، جو تاریخ کے صفحوں میں بھی زندہ رہیں گے، کس آئینے میں سب اپنی شکلیں دیکھیں گے اور وہ آئینہ ان کے ماتھوں کو چوم لیں گے۔ سرسبز وادیوں سے پہاڑوں تک، غریب گھروں سے ایوانوں تک صرف اور صرف جدوجہد، ایمانداری، لگن کچھ کرنے کا جذبہ۔ نہ مال ودولت کی طمع، بس بلندیاں ہی بلندیاں، بہترین قابل سوچیں، بہترین کردار چٹانوں کی طرح سخت، شیشوں کی طرح چمکتے ہوئے گویا ہیرے جیسے لوگ، کہاں گم ہوگئے کہاں کھوگئے، زمین نکل گئی یا آسمان کھاگئے؟ ہوائیں بھی گم صم چلتی ہیں،آسمانوں سے بارشیں بھی کم کم ہوتی ہیں، حبس حبس ہے، بنجر زمین ہے، سوکھی ہوئی ویرانی ہے کہ گویا سب کچھ ہم خود اپنے ہاتھوں سے کھو رہے ہیں، بے بسی، بے کسی کی تصویریں بنے رو رہے ہیں کہ ہاتھ پھیلے ہوتے ہیں اس رب العزت کے سامنے جس نے ابراہیم کو آگ میں بچایا، جس نے موسیٰ کو زندہ رکھا، جس نے من و سلویٰ اتارا، جس نے نبی پاک رسول اللہؐ کو آخری نبی بنایا اور ہمیں ان کی امت۔ بس یہی ہمارا آخر، سرمایہ اور آخری امید۔

ہم ان بنجر اور بانجھ زمینوں کے باسی بن گئے ہیں جو نہ پھل دیتی ہیں نہ اولاد، بس ناامیدی کے گہرے سائے ہیں اور اس ناامیدی میں بھی اللہ کا حکم ہے کہ اللہ کی رحمت سے ناامیدی کفران رحمت ہے۔ سو اس رمضان شریف میں بھی اور سال کے تمام صبح وشاموں میں اسی اللہ کی عبادت اور اسی اللہ کی اطاعت جس نے زندگی دی ہے وہی موت دے گا اور جس نے دنیا بسائی ہے وہ اس میں عزت اور سکون بھی دیگا۔ کئی قومیں عذاب کی نذر ہوئیں، تاریخ کے صفحوں میں زندہ ہے، مال ودولت کے خزانے عبرت ہوئے سب کچھ عیاں ہے کہ آج بھی ان اندھیروں میں روشنی کی کرنیں نظر آتی ہیں، کراچی جیسے سفاک شہر میں باغی مصطفیٰ کمال دندناتا ہوا نظر آتا ہے، اپنے ہی لیڈروں کو غدار کہتا ہے، خود توبہ کرتا ہے برائی کو تسلیم کرتا ہے اور اپنی برائیوں کو، کوتاہیوں کو دھونے کی کوشش بھی کرتا ہے، دلوں کے حال تو صرف اللہ پاک ہی جانتا ہے مگر بدلاؤ اگر اس طرح ہی آنا ہے تو پھر آنیوالے کو کس نے روکا ہے، نہ دماغ بند ہوں گے نہ زبان۔

عمران خان 21,20 سال سے سیاست کی جدوجہد میں ببانگ دہل بولتا ہے، شوکت خانم کینسر ہاسپٹل کا تاج اس کے سر پر ہے جو چمکتا ہی جا رہا ہے۔ کراچی کی گلیوں میں بھی مصطفیٰ کمال کی آواز سنائی دینے لگی، جن کی حفاظت اللہ کرنے والا ہے میں تو جہاد کر رہا ہوں وہ بھی بلند کر رہا ہے آواز، شاید ہم بھی زندہ ہوجائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔