نکاح محبت اور عبادت

جب نکاح کی صورت ایک خوبصورت ترین تعلق کی بناء موجود ہے تو پھر معاشرہ کیوں ایک فطری جذبے کو جرم بنا کر پیش کرتا ہے؟


عبداللہ فیضی June 10, 2017
یہ محبت جو رب نے انسان کے دل میں ڈالی، خدا کا انسان کو پہلا تحفہ ہے۔ یہی تحفہ جب آدم کو ملا تو حوا تخلیق ہوئیں اور پھر یہی تحفہ تھا کہ جس کا ثمر اُن کی ذریت کی صورت آج جابجا بکھرا ہے۔ فوٹو: فائل

واصف علی واصف نے لکھا تھا کہ محبت کی تعریف مشکل ہے، اِس پر کتابیں لکھی گئیں، افسانے رقم ہوئے، شعرا نے محبت کے قصیدے لکھے، مرثیے لکھے، محبت کی کیفیت کا ذکر ہوا، وضاحتیں ہوئیں، لیکن محبت کی جامع تعریف نہ ہوسکی۔ میری نظر میں یہ بات جزوی طور پر تو ٹھیک ہے کہ واقعی محبت کی کوئی ایک جامع تعریف ڈھونڈنا شاید مشکل ہو لیکن اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ جذبہ کوئی پیچیدہ احساس ہے جس کا سمجھنا ہمارے شعور سے سوا ہو۔

اگر محبت کو ایک آفاقی جذبہ تسلیم کیا جائے تو یہ تصور سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ محبت چاہے مجازی ہو یا حقیقی، دراصل ایک ہی جذبے کہ دو متوازی پہلو ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مجاز اور حقیقت میں کیا فرق ہے؟ مجاز اگر حقیقی جذبہ کے تحت کیا جائے تو یہی حقیقت ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مجازی میں محبوب ہماری نظروں کے سامنے ہوتا ہے جسے پالینے کی تمنا انسان کو بے چین کئے رکھتی ہے، اور خیال آتا ہے کہ بس ایک مرتبہ اِس کو پالیں پھر چاہے موت آجائے، جبکہ حقیقت میں محبوب غائب ہوتا ہے جسے صرف دیکھ لینے کی تمنا ہمیں موت کو جلد از جلد گلے لگانے پر اکساتی ہے۔

گویا مجاز ایک حقیقی بت ہے جس میں جان بھر دی گئی ہو اور وہ صرف تب ٹوٹتا ہے جب انسان پر اِس بت کی کمزوریاں، مجبوریاں اور فریب آشکار ہوتے ہیں۔ تب انسان اگر عقل مند ہو تو بجائے نیا بت تراشنے کے حقیقت کی جستجو میں لگ جاتا ہے۔ حضرت علیؓ نے خوب فرمایا تھا کہ،
''میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا''

گویا بات کچھ یوں ٹھہری کہ،
چل دئیے سوئے حرم کوئے بتاں سے مومنؔ
جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا

ہر دو صورتوں میں محب ایک سی آزمائش سے گزرتا ہے، ایک سی لگن اور استقامت کے ساتھ۔ عشق حقیقی میں دیکھیں تو کہیں ہجرت ہے، کہیں سنگ باری کا سامنا ہے، کہیں دشمنی ہے تو کہیں مقاطعہ۔ مجازی کی کیفیات میں بھی یہی رنگ خاندان اور معاشرے کی مخالفت کی صورت موجود ہے تو کہیں شدید ذہنی و جسمانی کرب کی صورت، گویا محبوب مختلف لیکن آزمائشیں ایک جیسی کیونکہ جذبہ دونوں صورتوں میں ایک ہی کارفرما ہے۔ جیسے میر درد نے لکھا
اذیت، مصیبت، ملامت، بلائیں
تیرے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محبت، عبادت اور اطاعت آخر کیوںکر ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ اللہ نے اپنی محبت کے اظہار کے جو جو طریقے قرآن میں بتائے ہیں وہ سارے ہی عبادت سے عبارت ہیں اور عبادت میں سب سے پہلا درس ادب کا ہے، کہ محبوب کی جناب میں پیشی سے پہلے تمام تر آداب بجا لائے جائیں۔

فکر و نظر کی پاکیزگی اختیار کی جائے، انداز و اطوار میں شائستگی ہو، نظر جُھکی ہو اور بندہ تسلیم و رضا کا پیکر بنا، اُن کی جناب میں کھڑا ہو کہ حقیقی صورت میں پاکیزگی نہ ہوئی تو پیشی بھی قبول نہیں ہوگی، جبکہ مجازی کی صورت میں پاکیزگی نہ ہونا صرف ہوس کہلائے گی۔ تسلیم و رضا کی غیر موجودگی مجازی میں ریا کاری جبکہ حقیقت میں گھمنڈ کہلاتا ہے، اور اِسی گھمنڈ نے ابلیس کو راندہِ درگاہ کیا۔ شاید اسی لئے اقبال نے کہا،
''ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں''

اگر نماز کی کیفیت ملاحظہ ہو تو اپنے محبوب کے آگے سر تسلیم خم کئے ہاتھ باندھ کہ کھڑے ہونا، اے محبوب! ہم حاظر ہیں تیرے آگے نظریں جھکائے، پھر آگے بڑھ کر محبوب کے سامنے جھک جانا اس جذبے کا اظہار ہے کہ ہم خود کو اپنی ذات کو اپنے محبوب کی جناب میں پیش کرتے ہوئے اپنے پگڑیوں والے سر، تمغوں والے سینے اور میڈلز والی گردن رکوع میں جھکا دیتے ہیں۔ گویا اپنی تمام انا اور غرور کو محبوب کی جناب میں رکھ دیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ محب کا تمام تر علم، رتبہ، انا اور غرور محبوب کے آگے ایک چھوٹے بچے کی طرح بِچھ جاتا ہے۔ مجازی میں بھی محب اپنے رتبے اور شخصیت کو اپنے محبوب کے سامنے کبھی ایک عذر نہی بناتا کہ انا محبت کی ضد ہے، اور محبت میں وہ عظیم لمحہ آتا ہے جب اپنا سر محبوب کے قدموں میں نچھاور کر دیتے ہیں، گویا یہ جان اُسی کی امانت ہو جیسے سجدہ تمام عبادات کی معراج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے خاوند کی اطاعت و محبت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر سجدہ انسان کو جائز ہوتا تو مجازی خدا اِس رشتے کو روا ہوتا۔

پھر اپنے محبوب کے سامنے لجاجت سے عاجزی سے شرماتے ہوئے دو زانو التحیات میں بیٹھنا گویا اب اپنے انعام کی طلب و انتظار میں سکوت طاری ہو۔ یہ تو صرف نماز کی مثال تھی دیگر عبادات مثلاً حج دیکھیے کہ جیسےعاشق اپنے محبوب کے در کا بار بار دیدار کرنا چاہتا ہے، اُس کے گرد تپتی دوپہر ننگے پاؤں ایک سرشاری کی کیفیت میں چکر پر چکر لگاتا ہے۔ یہی تو محبت ہے جو کبھی صفا و مروا کے بیچ دیوانہ وار دوڑ لگواتی ہے تو کبھی رب کی جستجو بن کر غار حرا پر لے جاتی ہے۔

یہ محبت جو رب نے انسان کے دل میں ڈالی، خدا کا انسان کو پہلا تحفہ ہے۔ یہی تحفہ جب آدم کو ملا تو حوا تخلیق ہوئیں اور پھر یہی تحفہ تھا کہ جس کا ثمر اُن کی ذریت کی صورت آج جابجا بکھرا ہے۔ یہی وجہ ہے چاہے حقیقی ہو یا مجازی، محبت اور عبادت میں شرک بدترین گناہ ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں اگر جذبہ حقیقی ہو تو کسی دوسرے کا سوال تو کیا شائبہ تک نہی ہوتا۔
دل محبت سے بھر گیا بیخودؔ
اب کسی پر فدا نہیں ہوتا

یہ بھی تو محبت تھی کہ رسول خداﷺ جب وصال کو پہنچے تو اپنی زوجہ محترمہ کے زانو پر سرِ مبارک تھا اور آخری چیز جو وفات سے پہلے آپ ﷺ کے منہ میں گئی وہ نرم کھجور تھی کہ جب انہوں نے کھجور چبا کر نرم کرکے محبت سے اپنے خاوند جو کہ محبوب خدا بھی تھے کے منہ میں رکھی۔ یہی محبت تھی کہ آپ ﷺ نے کہا کہ مجھے خوشبو اور اچھی بیوی سے محبت ہے تو پھر آج کی دنیا میں محبت کو درجات میں تقسیم کرکے نئے نئے نام کیوں دئیے جاتے ہیں؟ ہمارے معاشرے میں کیوں اُس کو ایک پاک بشری و فطری جذبہ سمجھ کر قبول نہیں کیا جاتا؟

خاص طور پر جب نکاح کی صورت ایک خوبصورت ترین تعلق کی بنیاد موجود ہے تو پھر معاشرہ اپنی جھوٹی انا، رتبے، خاندان اور رنگ و نسل کے تفاخر میں تقسیم ہو کر کیوں ایک فطری جذبے کو جرم بنا کر پیش کرتا ہے؟ جسمانی تعلق تو بناء دستخط کئے بھی ممکن ہے، دستیاب ہے، عام ہے، لیکن اِس میں صرف ضرورت پوری ہوتی ہے، عبادت نہیں ہوتی، تو جب عبادت نہیں تو پاکی و ناپاکی کی بحث غیر متعلق ہوجاتی ہے۔

محبت ایک پیمانِ عہد و وفا ہے، معاہدہ نکاح بھی فریقین کے مابین وعدے کا ہی نام ہے، جس میں پاکی رکھی گئی ہے، لہذا اب اگر محبت عبادت بن جائے تو نکاح ضرورت بن جاتی ہے۔ گویا نکاح محبت کا وضو ہے۔ آپ اِس کو جتنا آسان بنائیں گے گناہ کے دروازے اتنے بند ہوتے چلے جائیں گے۔ خدارا! خود کو انسان سمجھیے اور بشری جذبات کو قبول کرنا سیکھیے۔ کیونکہ خاندانی عصبیت، نام نہاد رتبے اور انا کے نام پر ہٹ دھرمی تیزی سے بدلتے معاشرے میں سوائے بگاڑ، بغاوت اور گناہ کے کچھ ثمر نہیں لائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

مقبول خبریں