افضل گورو کی پھانسی

ایڈیٹوریل  اتوار 10 فروری 2013
افضل غالب کا دیوانہ تھا، بیٹے کا نام بھی غالب رکھا۔ فوٹو : فائل

افضل غالب کا دیوانہ تھا، بیٹے کا نام بھی غالب رکھا۔ فوٹو : فائل

بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں گرفتار کشمیری حریت پسند محمد افضل گورو کو ہفتے کی صبح دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ ان کی لاش کو جیل ہی میں دفن کر دیا گیا۔ 43 سالہ افضل گورو کو 13 دسمبر کو بھارتی پارلیمنٹ پر ہونے والے حملے کے الزام میں 15 دسمبر 2001کو سوپور جاتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا۔ دلی یونیورسٹی کے لیکچرارعبدالرحمن گیلانی‘ شوکت گورو اور ان کی اہلیہ افشاں گورو کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھا۔ دسمبر 2002 میں ذیلی عدالت نے افضل گورو‘ شوکت گورو اور ایس اے آر گیلانی کو سزائے موت سنا دی۔

بعدازاں ہائیکورٹ نے گیلانی کو بری کر دیا‘ اس کے بعد سپریم کورٹ نے شوکت گورو کی سزائے موت کو 10 سال قید میں بدل دیا جب کہ افضل گورو کی سزائے موت کے حکم کو برقرار رکھا۔ ابتدائی طور پر 20 اکتوبر 2006 کو اس سزا پر عملدرآمد ہونا تھا لیکن افضل کی اہلیہ کی جانب سے صدر سے رحم کی اپیل پر یہ معاملہ زیر التوا تھا۔ سپریم کورٹ سمیت بھارتی صدر نے بھی 2007میں افضل گورو کی پھانسی کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کر دی تھی۔ آخری رحم کی اپیل 2012 میں مسترد کی گئی۔ افضل گورو کے ساتھ پکڑے جانے والے پروفیسر عبدالرحمن گیلانی رہائی کے بعد افضل گورو کے مقدمہ کی پیروی کر رہے تھے۔ افضل گورو 11 سال ایک ماہ اور 25 دن بھارت کی قید میں رہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کی لہر نے اس خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ افضل گورو کو حالات کے جبر نے حریت پسند بنایا تھا۔وہ  ایک پڑھا لکھا اور ادب سے محبت کرنے والا شخص تھا۔ جب 1990 میں کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف مسلح جدوجہد شروع ہوئی تو افضل گورو اس وقت میڈیکل کالج میں تھرڈ ایئر کا طالب علم تھا۔ اس دوران سری نگر کے نواحی علاقہ چھانہ پورہ میں انڈین فورسز کے کریک ڈائون کے دوران متعدد خواتین کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا تو اس درد ناک واقعے سے افضل کو شدید دھچکا پہنچا اور اس کی سوچ میں تبدیلی آ گئی۔

وہ تعلیم چھوڑ کر ظلم اور جبر کی اندھیری رات میں آزادی اور امن کی شمع روشن کرنے کے لیے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ میں شامل ہوگیا اور مسلح تربیت حاصل کی۔ افضل بنیادی طور پر امن پسند اور علم سے محبت کرنے والا شخص تھا ایک ظلم نے اسے حریت پسند تو بنا دیا تھا مگر پھر اس کے اندر علم کی پیاس نے اس کے ہاتھ سے بندوق چھین لی اور وہ ہتھیار ڈال کر دلی یونیورسٹی میں اپنے علم کی تشنگی بجھانے پہنچ گیا جہاں اس نے ایم اے اکنامکس کیا اور بینک آف امریکا میں نوکری کرلی۔ دہلی میں سات سال قیام کے بعد وہ اپنے وطن کشمیر آ گیا اور پر امن شہری کے طور پر رہنے لگا۔ لیکن بھارتی پولیس کی زیادتیوں نے اس کی سوچ میں پھر سے تبدیلی پیدا کردی۔ 2000میں بھارتی پولیس نے افضل کو گرفتار کرکے شدید ظلم کا نشانہ بنایا اور کشمیر سے باہر نہ جانے کی شرط پر رہا کر دیا۔ مگر بھارتی پولیس کے تشدد اور ظالمانہ سلوک نے افضل گورو کو ایک بار پھر پر امن شہری سے حریت پسند بنا دیا۔

اس وقت مقبوضہ کشمیر میں ساڑھے چھ لاکھ سے زائد بھارتی فوج کشمیریوں کے آزادی کے نعرے کے جواب میں ان کے سینوں کو گولیوں سے چھلنی کر رہی ہے۔ بھارتی فورسز کا ظلم اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ ہزاروں بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ بھارتی فوج کشمیریوں کے گھر کے دروازے توڑ کر اندر داخل ہو جاتی اور نوجوانوں کو اٹھا کر لے جاتی ہے جن کی بعد میں لاشیں ملتی ہیں۔ ان تمام تر انسانیت سوز مظالم کے باوجود کشمیریوں کا جذبہ ماند پڑنے کے بجائے تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا ہے اور وہ بھارتی فوج کا ہر ظلم مردانہ وار سہہ رہے ہیں۔ یہ بھارتی سیکیورٹی اداروں کی بربریت اور ظلم ہی تھا جس نے افضل جیسے پر امن اور علم دوست نوجوان کے سینے پر وہ گہرے زخم لگائے کہ وہ بھارتی فوج کے مظالم روکنے کے لیے ہتھیار اٹھا کر وادی میں اتر پڑا۔

بھارتی صدر افضل گورو کی رحم کی اپیل قبول کر کے کشمیریوں کے دل میں ہمدردی کے بیج بو سکتے تھے‘ وہ اس کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر کے اس ظلم کا رتی بھر مداوا کر سکتے تھے جو بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں روا رکھا ہوا ہے۔ افضل گورو کو جس جیل میں پھانسی دی گئی1984 میں دہلی کی اسی جیل میں کشمیری حریت پسند مقبول بٹ کو پھانسی دی گئی تھی۔ بھارت ان پھانسیوں سے کیا پیغام دینا چاہتا ہے۔ کیا اپنے تئیں وہ یہ سمجھتا ہے کہ ان پھانسیوں سے آزادی کا راستہ رک جائے گا اور آزادی کے متوالے کشمیریوں کو وہ خوف زدہ کر لے گا۔ تو یہ اسی کی بھول ہے۔ وہ آج تک ہزاروں کشمیریوں کو شہید کر چکا ہے مگر وہ انھیں آزادی حاصل کرنے کے اس جذبے سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔

پاکستان خطے میں امن کی شمع روشن کرنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اپنائے ہوئے ہے مگر بھارتی حکومت حریت پسندوں کو پھانسیاں دے کر امن کے لیے منفی پیغام دے اور کشمیریوں کے جذبہ حریت کو مہمیز کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افضل گورو کی پھانسی کے خلاف کنٹرول لائن کے دونوں طرف کشمیریوں نے مظاہرے شروع کر دیے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے باوجود مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں درجنوں کشمیری زخمی اور گرفتار ہو گئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے تین روزہ ہڑتال اور وزیراعظم آزاد کشمیر نے 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ افضل گورو کی پھانسی کے ردعمل میں مقبوضہ کشمیر میں مظاہرین نے پاکستان کو بھارت سے تعلقات ختم کرنے اور فوری طور پر بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ کو تختہ دار پر لٹکانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق بھارت کے معاشی حالات شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ اس لیے وزیراعظم من موہن سنگھ نے چند دن بعد شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن سے قبل افضل گورو کو پھانسی دے کر اپوزیشن کے احتجاج سے بچنے اورعوامی  ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ بھارتی حکومت کو یہ امر ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ ظلم اور جبر سے انتقام جنم لیتا ہے امن نہیں۔ جب تک کشمیر میں بھارتی مظالم کا سلسلہ جاری رہے گا‘ افضل گورو پیدا ہوتے رہیں گے۔ بھارتی حکومت پھانسیاں دے کر خطے کی فضا میں مزید انتقام کے شعلے بھڑکا رہی ہے۔ اسے کشمیریوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ بند کر کے امن کی خاطر مذاکرات کا راستہ اپنانا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔