پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (ساتویں قسط)

ایکسپریس اردو بلاگ  پير 7 اگست 2017
پاکستان کے حوالے سے ایسی مثبت باتیں جن کے بارے میں شاید آپ پہلے نہیں جانتے ہوں۔

پاکستان کے حوالے سے ایسی مثبت باتیں جن کے بارے میں شاید آپ پہلے نہیں جانتے ہوں۔

ایکسپریس اردو بلاگز کی جانب سے اپنے قارئین کے لیے یوم آزادی کے موقع پر خصوصی سلسلہ شروع کیا جارہا ہے جس میں 14 اگست تک روزانہ کی بنیاد پر پاکستان اور پاکستانیوں کے سنہری حقائق / اعزازات پیش کیے جائیں گے۔ 


پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پہلی قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (دوسری قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (تیسری قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (چوتھی قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پانچویں قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (چھٹی قسط)

آبادی کے لیے اقوامِ متحدہ کے فنڈ کی پہلی خاتون سربراہ

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی مشیرِ خاص اور ایشیاء میں خصوصی نمائندہ برائے ایچ آئی وی/ ایڈز، 88 سالہ خاتون پاکستانی ڈاکٹر نفیس صادق ہیں جن کے بارے میں بہت کم پاکستانی جانتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے فنڈ برائے آبادی (یونائیٹڈ نیشنز فنڈ فار پاپولیشن) المختصر ’’یو این ایف پی اے‘‘ (UNFPA) کی پہلی خاتون سربراہ رہی ہیں جبکہ اُن کی سربراہی کا زمانہ 1987ء سے 2000ء تک پھیلا ہوا تھا۔ ڈاکٹر نفیس صادق پاکستان کے پہلے وزیرِ خزانہ محمد شعیب کی سب سے بڑی بیٹی ہیں جنہیں خاص طور پر خواتین کی صحت اور بہبودِ آبادی جیسے شعبوں میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمر رسیدگی کے باوجود وہ آج بھی اقوامِ متحدہ سے وابستہ ہیں اور مختلف اہم طبّی فرائص انجام دے رہی ہیں۔

سب سے زیادہ ہاکی ورلڈ کپ جیتنے کا اعزاز

اگرچہ موجودہ دور میں ہاکی کے میدان میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی قابل ذکر نہیں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں قومی ٹیم نے اِس کھیل میں راج کیا ہے اور سب سے زیادہ چار عالمی مقابلے جیتنے کا اعزاز اِسی ٹیم کے پاس ہے۔

ہاکی کے عالمی مقابلوں کا آغاز 1971ء میں ہوا تھا، جس کا انعقاد اُس وقت سے اب تک مسلسل ہر چار سال بعد ہورہا ہے۔ اِن مقابلوں میں پانچ ٹیمیں یعنی پاکستان، آسٹریلیا، ہالینڈ، جرمنی اور بھارت صف اول کی ٹیمیں تصور کی جاتی ہیں لیکن پاکستان کا مقابلہ اب تک کوئی ٹیم نہیں کرسکی۔

اگر عالمی مقابلے جتنے کی بات کی جائے تو پاکستان چار بار فتحیاب ہوکر سرِ فہرست رہا ہے۔ اِس کے علاوہ ہالینڈ اور آسٹریلیا نے تین بار عالمی مقابلے جیتے جبکہ جرمنی اور بھارت نے بالترتیب دو اور ایک بار عالمی مقابلے اپنے نام کیے۔

پاکستانی ٹیم نے پہلا ورلڈ کپ 1971ء میں جیتا تھا جس میں اُس نے اسپین کو 0-1 سے شکست دی۔ دوسرا ورلڈ کپ قومی ٹیم نے ہالینڈ کو 2-3 سے ہرا کر جیتا۔ پھر قومی ٹیم نے 1982ء کے ورلڈ کپ میں اپنے اعزاز کا دفاع کیا جس میں اُس نے مغربی جرمنی کو 1-3 سے ہرا کر لگاتار دوسرا اور مجموعی طور پر تیسرا ورلڈ کپ جیت لیا۔ جبکہ چوتھا اور آخری ورلڈ کپ قومی ٹیم نے 1994ء میں جیتا جس میں ہالینڈ کو پنالٹی کِکس کی بنیاد پر شکست دی۔

دو مرتبہ آسکر ایوارڈ حاصل کرنے والی واحد پاکستانی

کسی بھی فلم ساز کے لیے یہی سب سے بڑا خواب ہوتا ہے کہ اُس کی بنائی ہوئی فلم آسکر ایوارڈ کے لیے منتخب ہوجائے، اور یہ جیت جانا تو بہت بڑے اعزاز کی بات ہے، لیکن جب دو مرتبہ کسی کی فلم آسکر ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو اِس سے بڑھ کر خوشی اور فخر کی بات کوئی اور ہو نہیں سکتی۔

شرمین عبید چنائی بھی اُنہی فلم سازوں کی فہرست میں شامل ہیں جن کی فلموں نے بین الاقوامی سطح پر اپنے اثرات مرتب کیے اور ایک نہیں بلکہ دو فلمیں آسکر ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ دونوں ہی فلمیں پاکستان میں خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم کی بنیاد پر بنائی گئی ہیں۔

2012ء میں ’سیونگ فیس‘ Saving Face نے ایوارڈ جیتا۔ اِس ڈاکیومینٹری کی کہانی پاکستان میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے گرد گھومتی ہے جبکہ 2016ء میں آسکر ایوارڈ جیتنے والی فلم ’آ گرل ان دی ریور – دی پرنس ہف فارگیونیس‘ A Girl in the River – The Prince of Forgivneness کا موضوع پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین ہیں۔

شرمین عبید چنائی نے صرف آسکر ہی نہیں بلکہ چھ (6) مرتبہ ’ایمی ایوارڈ‘ Emmy Awards اور ایک (1) مرتبہ ’لکس اسٹائل ایوارڈ‘ Lux Style Award بھی جیتا ہے۔

2012ء اِس حوالے سے شرمین عبید کے لیے بہت یادگار ثابت ہوا کہ اِسی سال انہیں پہلی مرتبہ آسکر ایوارڈ بھی ملا اور اِسی سال حکومت پاکستان نے ­شرمین عبید شنائی کو ہلالِ امتیاز سے نوازا جو پاکستان کا دوسرا بڑا سویلین ایوارڈ ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اُسی سال بین الاقوامی جریدے ’ٹائمز میگزین‘ نے شرمین عبید شنائی کا نام دنیا کی 100 طاقتوار خاتون میں شامل کیا۔

دنیا کی قدیم ترین جامعہ

ٹیکسلا میں موجود 2 سو صدی عیسوی میں تعمیر ہونے والی جولیاں کی خانقاہ کو دنیا کی قدیم ترین جامعہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ جہاں برصغیر ہندوستان، وسطی ایشیاء، جنوبی ایشیاء اور چین سے لوگ علم حاصل کرنے آیا کرتے تھے۔

ضلع ہری پور، خیبر پختونخوا میں پنجاب کی سرحد پر واقع ٹیکسلا شہر میں دنیا کی قدیم تہذیب کے آثار ملے ہیں، جس میں بدھ مت کی خانقاہ جولیاں بھی شامل ہے۔ وادی ٹیکسلا سے ملنے والی بدھ مت کی عبادت گاہوں کی زیادہ تر باقیات پہلی صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی تک کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں جنہیں 1980ء میں یونیسکو کی جانب سے عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل کیا گیا۔

اسلام آباد سے تقریباً 35 کلومیٹر فاصلے پر موجود جولیاں کی خانقاہ 100 میٹر بلند اونچی پہاڑی پر واقع ہے۔ ٹیکسلا کی قدیم تہذیب کی باقیات کی تلاش کے لیے پہلی مرتبہ کھدائی برطانوی نو آبادیاتی دور میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے 1913ء میں شروع کی تھی جو 1934ء تک جاری رہی۔ پھر پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں بھی بہت سے مشہور یورپی اور پاکستانی ماہرین آثار قدیمہ یہاں کھدائی کرتے رہے، اور اب تک وادی ٹیکسلا میں کھدائی کے نتیجے میں تقریباﹰ دو درجن سے زیادہ اسٹوپے اور خانقاہیں دریافت ہو چکے ہیں۔

 

عالمی ایجنسی برائے ایٹمی توانائی میں بورڈ آف گورنرز کا بانی رُکن

29 جولائی 1957ء میں جنیوا کے مقام پر اقوامِ متحدہ کے ایک خصوصی اجلاس میں ایٹمی توانائی کے پُرامن استعمال کے لیے ’’عالمی ایجنسی برائے ایٹمی توانائی‘‘ (آئی اے ای اے) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ویسے تو ’’آئی اے ای اے‘‘ کے قیام سے متعلق دستاویز کی توثیق 56 ممالک نے کی تھی اور وہ سب کے سب اِس عالمی ادارے کے بانی ارکان قرار پائے مگر پاکستان اُن ممتاز ممالک میں شامل تھا جو اِس کے بورڈ آف گورنرز کے بانی ارکان بنے تھے۔ تب سے اب تک پاکستان کئی بار انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کا ممبر رہ چکا ہے جو اقوامِ عالم میں کسی بھی ملک کے لیے ایک اہم اعزاز ہے۔ اِس سے ایٹمی توانائی کے پُرامن استعمال میں پاکستان کی دلچسپی بھی تاریخی طور پر ثابت ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔