تھر: عشق کی ہر دم نئی بہار (آخری قسط)

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 17 فروری 2013
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

وجید خاں وجید 1130 ہجری، کابل میں پیدا ہوئے۔ جوان ہوئے تو فوج میں بھرتی ہوگئے۔ بہت آزاد طبیعت پائی تھی۔ سو فوج کی زندگی کو چھوڑ دیا۔

کسی سادھو سے ملاقات ہوگئی، گیان دھیان کی باتیں سن کر گھر بار چھوڑ دیا اور فقیر ہوگئے۔ جاگیردارانہ نظام کے بے حد خلاف تھے اور سماج میں طبقاتی اونچ نیچ کے سامنے سراپا احتجاج۔ صوفی منش درویش تھے۔ اس سارے منظر کو انھوں نے خدا کی بے نیازی کا رنگ دے کر بیان کیا ہے۔ ان کا بہت کم کلام دست یاب ہے۔ شفیع عقیل نے اُن کے اشلوکوں کا ترجمہ کیا ہے۔ مجھے اپنے بے نوا دیہاتیوں کو دیکھ کر وہ بہت یاد آتے ہیں۔ تھر میں تو خاص کر۔

چور، جو چوری کریں یہاں پر، لُوٹ کے لائیں گھر

اُن کو میسر دودھ ملائی، کھائیں ڈونگے بھر

اور جو تیری آس پہ بیٹھے، پھرے یہاں دَر دَر

کون وجید کہے مالک کو، ایسے نہیں یوں کر

یہاں پہ موج اڑائیں کتے، گھی شکر وہ کھائیں

جن کا دوہیں دودھ سبھی، وہ بھوکے مر مر جائیں

بوئے کوئی، کاٹے کوئی، لے جائے کوئی گھر

کون وجید کہے مالک کو ایسے نہیں یوں کر

اور ہمارے شاہ بھٹائی نے کہا تھا ؎

خدا شاہد ہے جب روحوں نے باہم

کیے روزِ ازل کچھ عہد و پیماں

نہ جانے کیوں اُسی دن سے ہیں مجھ کو

بہت پیارے یہ سب نادار دہقاں

ٹوٹی پھوٹی برائے نام سڑک پر گاڑی چلی جارہی تھی۔ ظہر کی نماز کا وقت ہوچکا تھا۔ سڑک کے کنارے ایک چھوٹے سے گائوں میں چند تھری بیٹھے ہوئے چائے پی رہے تھے۔ ہمارے رکتے ہی انھوں نے ہماری جانب دوڑ لگا دی۔ ’’کیا ہوا سائیں؟‘‘،’’کچھ نہیں، بس نماز کے لیے رک گئے۔‘‘ یہ سنتے ہی انھوں نے وضو کے لیے پانی کا انتظام کیا۔ ایک تھری مٹی کے لوٹے میں پانی لیے کھڑا تھا۔ ’’لائو میں وضو کرلوں۔‘‘، ’’نہیں سائیں، میں پانی ڈالتا ہوں آپ آرام سے وضو کریں۔‘‘ وہ جزئیات کی حد تک آپ کا خیال رکھتے ہیں۔ ہم نماز پڑھ رہے تھے اور وہ ہماری پشت پر زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔ نماز ادا کی تو ہم رخصت کے طلب گار ہوئے۔ ’’سائیں! کھانے کا وقت ہے۔‘‘ ان کا اصرار بڑھا۔ ’’اﷲ جی آپ کے رزق کو فراواں کردے‘‘۔ ’’آمین آمین سائیں۔ پر سائیں کھانا ضرور کھا کر جائیں۔‘‘ اُن کے اصرار پر ہم نے صرف چائے پر اکتفا کیا۔

دن کے اجالے کو رات کا اندھیرا گھیر چکا تھا اور ابھی ہم عمرکوٹ سے خاصی دور تھے۔ لیکن ہمیں پہنچنا تھا، سو سفر جاری رہا۔ سفر جاری رہے تو کٹ ہی جاتا ہے۔ خاصی رات ہوگئی تھی کہ ہم عمرکوٹ پہنچے۔ یہاں ہمارا دین محمد، جسے ہم پیار سے ’’دینا‘‘ کہتے ہیں، بہت بے تابی سے منتظر تھا۔ ’’چاچا! آپ آگئے‘‘… ’’ہاں آگئے‘‘۔ ’’مجھے چھوڑ کر آپ ننگر چلے گئے۔‘‘ ’’کیا تمہیں بھی جانا تھا؟‘‘،’’کیوں نہیں! آپ کے ساتھ جانا چاہتا تھا۔‘‘، ’’پھر تم نے کہا کیوں نہیں؟‘‘ ’’چاچا! اس لیے نہیں کہا کہ گاڑی میں جگہ نہیں تھی۔ اگر میں ساتھ چلتا تو آپ تکلیف سے جاتے۔ اگلی دفعہ میں آپ کے ساتھ چلوں گا۔‘‘ یہ ہے ہمارا دین محمد۔

ارباب مالک ہمیں چھوڑ کر جاچکا تھا۔ اب دینا ہمارا میزبان تھا۔ ’’آپ بہت تھک گئے چاچا!‘‘ ’’نہیں یار! بالکل بھی نہیں تھکا۔‘‘،’’نہیں آپ تھک گئے۔ لیکن میں آپ کو کھانا کھلائے بغیر نہیں سونے دوں گا۔‘‘،’’مجھے بالکل بھی بھوک نہیں ہے۔‘‘،’’نہیں آپ چلیں میرے ساتھ۔‘‘،’’کہاں چلیں؟‘‘ کاروں جھر ہوٹل۔‘‘

آخر وہ جیت گیا۔ اب ہم عمرکوٹ کے خوب صورت کاروں جھر ہوٹل میں رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ کاروں جھر ایک پہاڑ ہے، بہت بلند و بالا۔ ہم اُسے ننگرپارکر میں دیکھ آئے تھے۔ ’’کاروں جھر دیکھا آپ نے چاچا‘‘… ’’ہاں ہم نے دیکھ لیا۔‘‘ ’’کیسا لگا آپ کو۔‘‘ ’’بہت اچھا‘‘… ’’آپ کب تک ہیں؟‘‘ ’’بس دینا صبح فجر پڑھتے ہی روانگی ہے‘‘،’’نہیں چاچا! یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ابھی تو آپ کو میں نے گوگاسر لے کر جانا ہے۔‘‘ ’’ہاں ضرور چلیں گے گوگا سر۔‘‘،’’چاچا! آپ جب آتے ہیں، بابا سائیں! کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں، مجھے تو آپ وقت ہی نہیں دیتے۔‘‘ وہ ارباب مالک کا کہہ رہا تھا۔ ’’اس مرتبہ تمہارے بابا کے ساتھ نہیں تمہارے ساتھ جائوں گا گوگاسر۔‘‘ ’’وعدہ کریں چاچا‘‘… ’’ہاں پکا وعدہ۔‘‘

گوگاسر ارباب مالک کا آبائی گائوں ہے۔ میں نے سوچا ضرور جائیں گے گوگاسر۔ پر وہاں نیا کیا ہوگا۔ پورا تھر پیار محبت میں گندھا ہوا ہے۔ وہاں بھی ایسا ہی ہوگا۔ ہاں میں دینا کے ساتھ ضرور گوگاسر جائوں گا۔ کیا ہوگا وہاں پر یہ تو میں واپسی پر ہی آپ کو بتا سکوں گا۔

سب لوگ پھر سے سو گئے تھے۔ ہمیں صبح سویرے روانہ ہونا تھا۔ میں بہت سے لوگوں کا تذکرہ نہیں کرسکا۔ ہاں اپنے دوست مٹھو مہاراج کا جس کا اصرار ہے: سائیں! ہمیں یوگا سکھائو، کیا آپ مہینے میں تین دن بھی فرصت نہیں پاسکتے! آپ کو کراچی سے لانے لے جانے کی میں ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ اپنے لچھمن داس کا… میں اسے جیپ کا پائیلٹ کہتا ہوں، صحرا میں وہ ایسی ڈرائیونگ کرتا ہے، یوں لگتا ہے آپ کشتی میں بیٹھے سمندر کے سفر پر ہیں۔ بہت ہنس مکھ اور لطیفہ گو۔ اپنے شیرو ماما کا، جسے پورا تھر ماما شیر محمد منگریو کہتا ہے۔ ماما شیرو پورے تھر میں فیصلے کرنے کے ماہر ہیں۔ رشتے ناتے، لڑائی جھگڑے، وہ ہر مرض کی دوا ہیں۔ اُن پر تو پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے، اپنے مولانا محمد طاہر کا… ایک مستند عالمِ دین۔

تھر کے رسم و رواج، قوم قبیلہ، جغرافیہ، موسم، حالات… وہ اپنی ذات میں ایک مکمل انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ اپنے ارباب نیک محمد کا… وہ ایک صوفی درویش اور بلند پایہ ادیب ہیں۔ سندھی اخبارات میں ان کے کالم اور تجزیے ایک سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ… زندگی بخیر رہی تو ان سب کا قرض بھی ادا کردوں گا اور پورے تھر کا شکریہ میں کیسے ادا کرسکوں گا؟ کبھی نہیں ادا کرسکتا میں۔ سو مجھے کہنا ہے: تھر تُو سلامت رہے، ہمیشہ تیرا ریگستان اسی طرح کشادہ رہے۔ تیرے بسنے والوں کی خیر‘ تُو ہمیشہ مسکرائے۔ خوشیاں بانٹے‘ تُو ہمارا مان ہے۔ ہاں تُو ہمارا مان ہے، تُو پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہے۔ ہاں تُو اس لائق ہے کہ تیرا قصیدہ پڑھا جائے، تجھے چاہا جائے۔ تُو سدا جیے‘ ہمیشہ سلامت رہے اور تیرے باسی بھی۔

پھر سے تارکول کی بے حس سڑکیں تھیں جن پر مشینی گھوڑے دوڑ رہے تھے۔ ہر طرف دھواں، ہر طرف نفسانفسی۔ نہیں… نہیں بخدا میں اپنے لوگوں کا، ہاں اپنے کراچی کے لوگوں کی محبت کا منکر نہیں ہوں۔ بالکل بھی نہیں۔ ہمارے لوگ پیارے لوگ۔ میں ان کی محبت سے کیسے منکر ہوسکتا ہوں! اﷲ سب کو سلامت رکھے، کبھی غم نہ دکھائے۔ ہمارے لوگ بہت پیارے، بہت ہی پیارے لوگ۔ لیکن ٹھہریے! مجھے کچھ کہنا ہے، کچھ لمحات فارغ کیجیے‘ جائیے! یہ پڑوس میں ہے تھر۔ جائیے! یقین مانیے آپ تازہ دم ہوجائیں گے۔ ضرور جائیں۔ کیوں اداس ہیں آپ؟ مجھ سے آپ کا رنج ، اداسی، بے کلی اور تنہائی نہیں دیکھی جاتی۔ وعدہ کریں آپ ضرور جائیں گے تھر۔ آپ سب سدا جئیں، خوش رہیں، آباد رہیں، دل شاد رہیں۔ اﷲ آپ کو صحت و عافیت سے رکھے۔

رات کا دوسرا پہر بیت گیا ہے۔ ایش ٹرے بجھے ہوئے سگریٹوں سے بھر گیا ہے۔ مجھے معاف کر دیجیے۔ میں بہت کچھ آپ سے کہنا چاہتا ہوں، ضرور کہوں گا۔ کب؟ پتا نہیں۔ اپنا ضرور خیال رکھیے گا۔ مجھے آپ کی ضرورت ہے، اشد ضرورت۔ مجھے بتائیے آپ کیا کرسکتے ہیں تھر کے لیے… ان بچوں کو بھی کھلونے چاہییں، کپڑے چاہییں، کتابیں چاہییں، ٹافیاں چاہییں۔ جائیے! ملیے ان سے، آپ کے لیے کیا کہوں، میں تو اکثر کہتا ہوں ؎

سینے سے میرے زہر اترنے نہیں دیتے

زندہ رہیں وہ لوگ جو مرنے نہیں دیتے

اب میں آپ سے رخصت ہوا، یار زندہ صحبت باقی۔

ہم دن بھر دنیا داری میں ہنس ہنس کر باتیں کرتے ہیں

پھر ساری رات پگھلتے ہیں، اک اشک رقم کرنے کے لیے

بس نام رہے گا اﷲ جی کا۔

(ختم شد)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔