لاہور کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کی جیت

انتخابی عمل میں عوام کی زیادہ سے زیادہ شمولیت ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کا واحد راستہ ہے


Editorial September 19, 2017
انتخابی عمل میں عوام کی زیادہ سے زیادہ شمولیت ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کا واحد راستہ ہے . فوٹو : فائل

قومی اسمبلی کے لاہور کے حلقہ 120 کا بڑا انتخابی دنگل مسلم لیگ (ن) کی امیدوار اور سابق خاتون اول کلثوم نواز نے جیت لیا۔ تحریک انصاف کی امیدوار یاسمین راشد دوسرے نمبر پر رہیں۔ غیرسرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق سابق وزیراعظم نوازشریف کی اہلیہ کلثوم نوازنے61256جب کہ تحریک انصاف کی یاسمین راشدنے47066ووٹ حاصل کیے، یوں کلثوم نواز 14190ووٹوں کی برتری سے یہ الیکشن جیت گئیں۔اس حلقے میںرجسٹرڈ ووٹرزکی تعداد321633ہے، ضمنی الیکشن میں ووٹنگ کی شرح تقریباً 40 فیصد رہی۔ انتخابی عمل فوج کی نگرانی میں مجموعی طور پر بڑے پرامن اورمنظم انداز میںمکمل ہوا۔ پولیس کے ساتھ رینجرز اور فوج پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر تعینات تھی۔

لاہور کے حلقہ این اے120کی سیٹ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو سپریم کورٹ سے 28جولائی کو نااہل قرار دینے کے فیصلے کے بعد خالی ہوئی تھی جس کے بعد یہاں ضمنی الیکشن کا اعلان کیا گیا۔ لہٰذا اس حلقے میں ہونے والا ضمنی الیکشن پورے ملک کی توجہ کا مرکز بنا' سیاسی ماہرین کی ایک بڑی تعداد نے اس حلقے میں ہونے والی تبدیلیوں اور ووٹرز کے رجحان پر گہری نظر رکھنی شروع کر دی اور یہ اندازے لگائے جانے لگے کہ ضمنی الیکشن کا نتیجہ کس امیدوار کے حق میں رہے گا۔ چونکہ یہ حلقہ ایک عرصے سے ن لیگ ہی کا چلا آ رہا تھا اور بالخصوص میاں نواز شریف کا حلقہ ہونے کے باعث اس کی اہمیت دوچند ہو گئی تھی، اس تناظر میں مسلم لیگ ن اور اس کی مخالف جماعت تحریک انصاف نے اس حلقے میں زیادہ سے زیادہ ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔

دونوں جماعتوں کی انتخابی مہم اور مقبولیت کو دیکھتے ہوئے سیاسی تجزیہ نگار بھی شش و پنج کا شکار ہو گئے کہ اس حلقے سے کون سی جماعت معرکہ آرائی میں کامیاب ٹھہرے گی۔ ایک طرف مسلم لیگ ن کی مقبولیت کے دعوے کیے جا رہے تھے تو دوسری طرف تحریک انصاف بھی کسی سے پیچھے دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اس ضمنی الیکشن میں پہلی بار ایک نئی جماعت ملی مسلم لیگ کے نام سے منظرعام پر آئی جس کے امیدوار یعقوب شیخ نے ملک کی سابق حکمران اور قومی سطح کی اہم جماعت پیپلز پارٹی سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کیے۔

اس ضمنی الیکشن میں 44 امیدواروں نے حصہ لیا جب کہ مطلوبہ ووٹوں کی شرح حاصل نہ کرنے پر 41امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں جن میں قومی سیاست کے دھارے میں شامل اور سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کا امیدوار بھی شامل ہے۔ جماعت اسلامی جیسی بڑی دینی جماعت کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی اور وہ چند سو ووٹ ہی حاصل کرسکی۔پولنگ کے موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے، پولنگ اسٹیشنوں کا کنٹرول فوج کے جوانوں نے سنبھالے رکھا، پولیس اور سویلین عملہ مکمل طور پر ان کے زیرکنٹرول تھا' ووٹرز کے سوا کسی بھی دوسرے شخص کو پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی حتیٰ کہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو بھی پولنگ اسٹیشنوں میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ الیکشن کمیشن کے حکام ضمنی الیکشن کو باریک بینی سے مانیٹر کرتے رہے۔

پہلی بار انتخابات میں پولنگ کے دوران 39پولنگ اسٹیشنوں پر 100مشینیں لگائی گئی تھیں' پنجاب کے الیکشن کمیشن نے بائیو میٹرک مشینوں کے استعمال سے آنے والے رزلٹ کو تسلی بخش قرار دیا ہے۔ اتنے حفاظتی انتظامات اور انتخابات کو شفاف بنانے کے اقدامات کے باوجود ہارنے والے امیدواروں نے روایتی سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرنے سے بھی گریز نہیں کیا' جسے کسی طور بھی قابل ستائش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی منفی رویے کے باعث سیاستدانوں اور انتخابی عمل کی شفافیت پر عوام کا اعتماد متزلزل ہوا ہے۔ ہارنے والے سیاستدانوں کو الزامات کی سیاست ترک کر کے اپنی شکست کو خوش دلی سے قبول کر لینا چاہیے اور اپنی غلطیوں کا احتساب کرتے ہوئے دوبارہ سے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے' یہی جمہوریت کا اصل حسن ہے جسے کسی بھی صورت داغدار نہیں کرنا چاہیے۔

انتخابی عمل میں عوام کی زیادہ سے زیادہ شمولیت ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کا واحد راستہ ہے' ووٹ ڈالنا ہر ووٹر کی آئینی ذمے داری ہے' اس لیے سیاستدانوں کو اپنے منفی رویے سے ووٹر کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانی چاہیے۔بھارت کی مثال سب کے سامنے ہے جہاں بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے ہونے والے انتخابات کے نتائج کو تمام جماعتیں بخوشی تسلیم کرتی اور جمہوریت کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ حلقہ این اے120میں پہلی بار بائیو میٹرک مشین کا محدود استعمال کیا گیا جو کامیاب رہا ، اب اس عمل کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا جائے تاکہ انتخابات میں شفافیت کے عمل کو یقینی بنایا جا سکے۔

مقبول خبریں