1992 سے 2009 تک 84 ارب کے قرضے معاف کیے گئے

آن لائن  اتوار 24 فروری 2013
740کیسز میں سنگین بے قاعدگیاں،سول اور ملٹری بیورو کریسی سے بینکار خوفزدہ ہیں. فوٹو: فائل

740کیسز میں سنگین بے قاعدگیاں،سول اور ملٹری بیورو کریسی سے بینکار خوفزدہ ہیں. فوٹو: فائل

اسلام آباد: قرضہ معافی کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1992 سے2009 تک84ارب 62 کروڑسے زائد جبکہ1971 سے1991 تک2 ارب 16 کروڑ کے قرضے معاف کیے گئے سیاسی بنیاد پر قرضوں کی معافی کا کوئی ثبوت نہیں دیاگیا۔

بینکار ،سول اور ملٹری بیورو کریسی سے خوفزدہ ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ نے قرضہ معافی مقدمات کی تحقیقات کیلیے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا۔ جسٹس ریٹائر جمشید علی کی سربراہی میں قائم اس کمشین نے اپنی رپورٹ تیار کرلی ہے جس کے مطابق قرضہ معافی کے740مقدمات کی تحقیقات کی گئیں جن میں سنگین بے قاعدگیاں پائی گئی ہیں، بینکوں اور مالیاتی اداروں نے بااثر افراد کو بچانے کیلیے قرضوں سے متعلق معلومات کمیشن سے چھپائیں اور مالیاتی اداروں نے قرضہ معافی کی صرف کاروباری وجوہات بیان کی ہیں اور سیاسی اور دیگر بنیادوں پر قرضہ معافی کا کوئی ذکر رپورٹ میں موجود نہیں ہے۔

7

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ بینکر، سول اور ملٹری بیوروکریسی سے خوفزدہ ہیں اور انھوں نے کمیشن کو تفصیلات فراہم نہیں کیں۔رپورٹ میں 700کمپنیوں کے نام دیے گئے ہیں اور کہا ہے کہ قرضہ معاف کرانے والے ملزمان نے دستاویزات پر اپنے فنگر پرنٹس نہیں چھوڑے،کمیشن نے قرضوں کی معافی کیلیے 4 سفارشات دی ہیںاول یہ کہ جنھیں قرضہ دیا گیاان سے صرف اصل زر وصول کیا جائے،دوسرا کہ پھر اصل رقم اور جمع شدہ رقم کا فرق وصول کرلیا جائے، تیسرا کہ قرضوں کی معافی کے لیے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے ریٹائر جج پر مشتمل ٹریبونل بنائے جائیں،چوتھا یہ کہ قرضوں کی معافی کیلیے نئی قانون سازی کی جائے تاکہ قومی خزانے کو پہنچائے گئے نقصان کی تلافی ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔