خدمت کے نام پر بٹہ

شہلا اعجاز  بدھ 25 اکتوبر 2017
 shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

اس بات کو گزرے خاصا وقت گزر چکا ہے۔ میرے پاس ایک خط آیا کسی صاحبہ نے لاہور سے بھیجا تھا، موصوفہ کا تعلق صنف گلوکاری سے تھا کوئی خاصی مشہور سنگر نہ تھیں ان کی چند ایک ویڈیو ہی دیکھی گئی تھی۔

موصوفہ نے خدمت خلق کے حوالے سے کوئی این جی او کھولی تھی اور اسی سلسلے میں خواتین کے لیے کوئی ماہنامہ بھی نکالا تھا بقول ان کے اس کی فروخت کا ایک خاصا حصہ خدمت کے لیے وقف ہے، ماہنامے کا حال یہ تھا کہ شعر و شاعری کے حصے میں کسی بھارتی فلم کا گانا لکھا تھا اب جسے یاد رہا ہو تو کوئی بات نہیں ورنہ نظم سمجھ کر ہی قبول فرمالیجیے صفحات تو بھرنے ہی تھے ہم سے بھی استدعا کی گئی تھی کہ ان کی جھولی میں کوئی افسانہ، ناولٹ یا ناول ڈال دیا جائے، سوچا کہ پتہ نہیں کہاں سے انھوں نے ایڈریس لیا ہوگا یا جن ماہناموں میں ہماری جان پہچان ہے، کچھ نہ کچھ چھپتا رہا ہے ان سے ہی لیا ہوگا اب نجانے کتنے ارمان سے لکھا ہوگا کہ ان کا مسئلہ حل ہوجائے گا چلو کچھ نہ کچھ لکھ ہی دیتے ہیں۔

تبرک کے طور پر انھوں نے اپنا ماہنامہ بھی ارسال کیا تھا ہم نے ایک تحریر لکھ کر ارسال کردی ساتھ تاکید بھی لکھ دی کہ اشاعت ہوجانے کے بعد ایک کاپی ہمیں بھی براہ کرم ارسال کردی جائے کوئی پائی پیسے کی مانگ نہ کی گئی تھی۔ تحریر چلی گئی اسے گئے مہینے گزرے سال گزرے نہ تو ہمیں ان صاحبہ کے گیتوں، ویڈیوزکا کچھ پتہ چلا اور نہ ہی ان کی فلاحی تنظیم کا جس کا نام بھی انھوں نے بڑا سوچ کر رکھا ہوگا یہ تو تھی ایک عام سی بات کہ جو ہم ادا کرسکتے تھے کردیا جو وہ مانگ سکتے تھے انھوں نے مانگ لیا۔

ذرا سوچیے تو ایسی این جی اوزکے بارے میں جو اپنی اپنی سوچ کے مطابق لوگوں سے اور حکومتوں سے مانگتے ہیں اور انھیں ان کی سوچ کے مطابق مل بھی جاتا ہے کیا وہ تمام فلاحی تنظیمیں بھی اسی طرح کام بھی کرتی ہیں کہ جس طرح جمع کرتی ہیں اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے کیونکہ این جی اوز کے وجود اور اخراجات کو لوگوں نے اپنی جیب سے تشبیہ دینا جائز سمجھ رکھا ہے اس فلاحی امر میں کیا جائز ہے کیا ناجائز اس سے ایک عام شہری کو کس حد تک سہولت میسر ہورہی ہے کون تصدیق کرے گا کہ کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری ہوئی ہے یا نہیں بس جانے بھی دیں۔

آج سے دو برس پہلے کی بات ہے، ایک بچہ اسکول سے آرہا تھا وین والے نے گھر سے ذرا دور اتارا اور کہاکہ بیٹا پیدل چل کر چلے جانا بچہ دوسری کلاس کا طالب علم سات آٹھ برس کا تھا اتر گیا اور سڑک پر کھیلتا کودتا چلنے لگا، اسی اثنا اسے ایک کھلونا نظر آیا بچے نے کھلونا اٹھا لیا اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا وہ کھلونا در اصل ایک کھلونا بم تھا جو چند ہی لمحوں میں زور دار آواز سے پھٹ گیا بچے کا معصوم وجود اچھل گیا۔

اس کے جسم کا ایک حصہ خاصا متاثر ہوا اس کی آنکھیں بھی اسی دھماکے میں شدید متاثر ہوئیں اس وقت بھاگم دوڑی میں عزیز و رشتے داروں نے بھی خوب مدد کی شکر تھا کہ بچے کا جسم صحت یاب ہونے لگا لیکن آنکھوں کے لیے آپریشنز کی ضرورت تھی بچے کا باپ غریب فرنیچر پر پالش کا کام کرتا ہے اس کی آمدنی ہی کیا تھی کہ بچے کے لیے لاکھوں نہیں ہزاروں بھی جمع کرسکتا۔ بچے کے علاج کی غرض سے اس طرح کی این جی اوز سے مدد طلب کرنے کے عمل سے گزرنا پڑا پر عمل طویل ہوتا گیا اور آپریشن کو دیر ہوگئی پر بارہ ہزار کی رقم نہ جمع ہوسکی ان دو برسوں میں بچے کی آنکھوں کے آپریشن ہوتے گئے لیکن این جی او مہربانی اور طویل انتظار کے باعث بچے کی آنکھیں اب رات میں دیکھنے کی نعمت سے محروم ہیں۔ علاج اب بھی جاری ہے، بچے کی ایک چھوٹی سی چند برس کی بہن ہے جسے اس کی والدہ گھر میں اکیلا چھوڑ کر بچے کے علاج کی غرض سے سرکاری اسپتالوں کے چکر لگاتی ہے۔

یہ نہ قصہ ہے نہ کہانی یہ سچائی ہے، اسی معاشرے کی جس میں ہم اور آپ سانس لیتے ہیں۔ بڑے بڑے دعوے، بینک بیلنس، امدادیں وصول کرتے ہیں، عہد کرتے ہیں لیکن جن حق داروں تک ان کا حق پہنچنا چاہیے اس سے بے بہرہ رہتے ہیں۔ آج کا زمانہ خاصا ماڈرن ہوچکا ہے۔ لوگوں تک اطلاعات با آسانی پہنچ جاتی ہیں کہ اگر آپ کو مدد کی ضرورت ہے تو فلاں سے رابطہ کریں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ جن سے رابطے کیے گئے وہ مٹی کے مادھو بنے رہے جن صاحبہ کے بچے کے ساتھ یہ افتاد گزاری ان سے پہلا سوال یہی کیا گیا تھا کہ آج کل تو بڑی سہولتیں ہیں مختلف این جی اوز اسی حوالے سے کام کررہی ہیں لیکن چند ہزار روپے بھی کسی معصوم بچے کے علاج کے لیے فراہم نہ کرنے والی نام نہاد این جی اوز کا کیا فائدہ جو در اصل مال بٹورنے اور اپنے گھر بھرنے کے نام پر قائم کی گئی ہیں۔

حکومت سندھ نے تعلیم کے حوالے سے بھی بہت سی نجی اداروں کی مدد کے لیے بڑے بڑے فنڈز مقرر کیے ہیں جو سندھ اور کراچی کے دور دراز نواحی علاقوں میں اسکول قائم کررہے ہیں ان اسکولوں کی کیا حالت ہے اساتذہ کا کیا معیار ہے، تعلیم دینے کا مقصد کیا ہے؟ کیا اس پورے معاملے پر بھی نظر رکھی جارہی ہے۔ ویسے ابھی ایک خبر بھی نظر سے گزری تھی۔

جس میں تعلیم کے حوالے سے کئی بڑے افسران کو فارغ کردیاگیا ہے یہ وہ حضرات تھے جو تعلیم کے ادارے میں کرپشن کررہے تھے، دعا ہے کہ ہمارے یہاں خدمت خلق اور این جی اوز کے اصل مقصد کو سمجھا جائے اور اس پر عمل بھی کیا جائے ورنہ یہ تمام روپے پیسے اور بینک بیلنس جو ایک اچھے مقصد کے نام پر بٹورا گیا ہے کسی نہ کسی شکل میں سامنے آکھڑا ہوگا اور سوال کرے گا کہ جواب دو۔ کیا تم نے اپنے عہد کی پاسداری کی تھی۔ کسی ضرورت مند، حاجت مند کی ضرورت پوری کی تھی سوال بہت طویل اور جواب… خدا خیرکرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔