حضرت عائشہ صدیقہؓ

تعلیمات نبوی کی تبلیغ و اشاعت میں آپ کا ثانی نہیں


Dr Salees Sultana Chughtai August 06, 2012
تعلیمات نبوی کی تبلیغ و اشاعت میں آپ کا ثانی نہیں

NEW DEHLI: حضرت عائشہؓ بنت ابوبکرؓ اسلامی تاریخ میں ام المومنین اور مسلمان فقیہا کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ آپؓ کا لقب صدیقہ اور حمیرہ اور آپ کے بھانجے کے حوالے سے آپ کی کنیت ام عبداﷲ تھی۔ حضرت عائشہؓ اسلام کے ان برگزیدہ افراد میں سے ہیں جن کے کانوں نے کبھی کفر و شرک کی آواز نہیں سنی۔ آپؓ کی پیدائش سے چار سال قبل حضرت ابوبکرؓ اسلام قبول کرچکے تھے۔

ایک مسلمان عورت کے لیے سیرت عائشہؓ میں عورت کی زندگی کے تمام پہلو شادی، رخصتی، شوہر کی خدمت و اطاعت، غربت، خانہ داری غرض ہر حالت کے لیے تقلید کے نمونے موجود ہیں۔ آپؓ کی زندگی علمی، عملی، اخلاقی، ہر قسم کے گوہر گراں مایہ سے مالا مال ہے۔ یہ ایک حجلہ نشین حرم نبوتؐ کی پاک زندگی کا مجموعہ ہے جو نو سال تک نبوت عظمیٰ کے حامل دنیا کے افضل ترین انسان ﷺکی شریک حیات رہیں ۔حضرت عائشہؓ نے اپنی پوری زندگی عورتوں اور مردوں میں اسلام اور اس کے احکام و قوانین اور اس کے اخلاق و آداب کی تعلیم دینے میں صرف کرکے اسلام کی بیش بہا خدمات انجام دیں۔

حضرت عائشہؓ کے ذریعے سے علم دین کا بہت بڑا ذخیرہ مسلمانوں تک پہنچا اور فقہ اسلامی کی بڑی معلومات لوگوں کو حاصل ہوئیں۔ حضرت عائشہ سے2210 احادیث مروی ہیں۔ آپؓ صرف احادیث روایت کرنے والی ہی نہیں تھیں، بلکہ فقیہا اور مفسرہ اور مجتہدہ بھی تھیں۔ آپؓ کو بالاتفاق مسلمان عورتوں میں سب سے بڑی فقیہا جانا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ کا شمار مدینے کے ان چند علماء میں ہوتا تھا جن کے فتوے پر لوگوں کو مکمل اعتماد تھا۔ آپ غیر معمولی ذہانت کی مالک تھیں۔ آپ نے اپنی عظیم ذہنی صلاحیتوں کی بنا پر اس انقلابی معاشرے میں حضور ؐ کے ساتھ مل کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا۔

آپ کے بچپن میں آپ کی صلاحیتوں کا علم اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہ تھا۔ اس بناء پر اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول ؐؐ کی معیت کے لیے حضرت عائشہ کا انتخاب خود کیا تھا۔ صحیح بخاری میں باب ترویج عائشہؓ میں ہے کہ حضور اکرم ؐ نے حضرت عائشہ سے ارشاد فرمایا:''مجھے خواب میں تمہیں دو دفعہ دکھایا گیا اور کہا گیا کہ یہ آپؐ کی زوجہ ہیں۔''

آنحضرتؐ کی کثرت ازواج اور خصوصاً حضرت عائشہؓ کی کم سنی کی شادی میں ایک بڑی حکمت اور مصلحت پوشیدہ تھی۔ اگرچہ آنحضرتؐ کے دائمی فیضان صحبت نے سینکڑوں مردوں کو سعادت کے درجے پر پہنچایا، لیکن فطرتاً یہ موقع عام عورتوں کو میسر نہیں آسکتا تھا۔ صرف ازواج مطہرات ہی اس سے فیض یاب ہوسکتی تھیں اور یہ نور آہستہ آہستہ اپنے ستاروں کے ذریعے سے پوری کائنات نسوانی میں پھیل سکتا تھا۔

حضرت عائشہ کا لڑکپن حضور اکرم ؐ کی صحبت میں گزرا۔ حضرت ابوبکرؓ صدیق سارے قریش میں علم الانساب کے ماہر تھے۔ شعر و ادب میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ حضرت عائشہؓ نے بھی اسی باپ کی گود میں پرورش پائی تھی، اس لیے علم الانساب کی واقفیت اور شاعری ان کا خاندانی وصف تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنی اولاد کی تربیت میں بہت سخت تھے۔ شادی کے بعد بھی حضرت عائشہؓ پر روک ٹوک کرتے تھے اور انہیں ہدایات سے سرفراز کرتے رہتے تھے۔

حضرت عائشہؓ کی تعلیم و تربیت کا اصل زمانہ ان کی رسول کریمﷺ سے شادی کے بعد شروع ہوا۔ ام المومنین نے اسی زمانے میں قرآن پڑھنا سیکھا۔ آپ ؓ کو علوم دینیہ کے علاوہ تاریخ، ادب اور طب میں بھی مہارت حاصل تھی۔ آپ نے علوم دینیہ کی تعلیم ہر لمحہ معلم شریعت ﷺسے حاصل کی تھی۔ حضور اکرم ؐ کی تعلیم و ارشادات کی مجلسیں روزانہ مسجد نبویؐ میں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ یہ مسجد، حجرۂ عائشہؓ سے ملحق تھی۔ اس بناء پر آپؓ اپنے حجرے ہی میں بیٹھ کر اس مجلس میں ذہنی طور پر شریک رہتی تھیں۔ اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو بعد میں حضور اکرم ؐ سے دریافت فرمالیتیں۔ آپؓ نے عورتوں کی درخواست پر ہفتے میں ایک دن ان کی تعلیم و تلقین کے لیے مخصوص کردیا تھا۔

حضرت عائشہؓ کی یہ عادت تھی کہ ہر مسئلہ کو بلاتامل آنحضرتؐ کے سامنے پیش کرتیں اور جب تک تسلی نہ ہوجاتی، سوال کرتی رہتیں۔ وہ فہم مسائل، اجتہاد فکر اور حفظ احکام میں ممتاز تھیں۔ حضرت عائشہؓ انسانیت کی تکمیل، اخلاق کے تزکیے، ضروریات دین سے واقفیت، اسرار شریعت کی آگاہی، کلام الٰہی کی معرفت احکام نبویؐ کے علم سے مکمل طور پر بہرہ ور تھیں۔ آپؓ کے نکاح کے ذریعے عرب کی بہت سی لغو رسموں کو توڑا گیا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ عرب منہ بولے بھائی کی لڑکی سے شادی نہیں کرتے تھے، مگر حضور اکرم ؐ نے اس رسم کو توڑا۔ اسلامی بھائی صدیق اکبرؓ کی بیٹی سے نکاح کرکے یہ تصور غلط قرار دیا۔

دوسری رسم یہ تھی کہ اہل عرب ماہ شوال میں شادی کو منحوس سمجھتے تھے، کیوں کہ گزرے وقتوں میں شوال میں اس علاقے میں طاعون پھیلا تھا، اس لیے اس مہینے کو منحوس سمجھا جاتا تھا۔ لیکن حضرت عائشہؓ کی شادی اور رخصتی دونوں شوال میں ہوئیں۔ عرب میں قدیم دستور تھا کہ دلہن کے سامنے آگ جلاتے تھے، مگر یہاں اس رسم کو بھی ختم کیا گیا۔

حضرت عائشہؓ کا گھر مال و اسباب سے خالی تھا۔ مگر آپؓ کو اس کی پروا نہیں تھی۔ آپؓ روایت کرتی ہیں کہ حضور اکرم ؐ نے ہمیں پانچ چیزوں کے استعمال سے منع فرمایا:''ریشمی کپڑے، سونے کے زیور، سونے اور چاندی کے برتن، نرم گدے اور کتان آمیز ریشمی کپڑے۔'' چناں چہ ام المومنین حضرت عائشہ نے ان چیزوں سے زندگی بھر اجتناب فرمایا۔ آپؓ اپنے شوہر کی محبوب بیوی تھیں، مرتے دم تک اطاعت رسول ؐؐ پر قائم رہیں۔ انہوں نے حضورؐ سے جہاد کی اجازت چاہی تھی۔اس موقع پر نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا:''عورتوں کا جہاد حج ہے۔''

یہ حکم سن آپ اس کی تاحیات پابندی کرتی رہیں، اور آپ کا کوئی سال حج سے خالی نہ گیا۔ حضرت خدیجہؓ، حضور اکرم ؐ کی پہلی زوجہ محترمہ تھیں۔ حضرت عائشہؓ سے نکاح کے وقت وہ حیات نہیں تھیں، مگر حضور اکرم ؐ کے قلب مبارک میں ان کی یاد ہمیشہ زندہ رہی۔ حضرت عائشہ صدیقہ ان پر رشک کرتی تھیں اور فرماتی تھیں:''جس قدر خدیجہؓ پر مجھے رشک آتا ہے، کسی دوسری بی بی پر نہیں آتا۔'' حضرت عائشہؓ ہر سال حج کے لیے مکہ جاتیں۔ آپؓ کے خیمے میں سائلوں کا ہجوم رہتا۔ جن مسائل میں صحابہ میں اختلاف ہوتا تھا، ان مسائل پر لوگ فیصلے کے لیے ام المومنین سے رجوع کرتے تھے۔ آپؓ کے زیادہ تر مسائل زن و شوہر کے تعلقات، حضورؐ کی عبادات اور ذاتی اخلاق کے متعلق ہیں۔

حضرت عائشہؓ نے مذہب، اخلاق اور تقدس کے ساتھ مذہبی، علمی، سیاسی، فقہی، حدیث، فرائض، احکام، حلال و حرام، طب و حکمت، غرض بہت سے علوم کی جامع تشریحات کیں، اور اپنے زمانے میں ان علوم میں سب سے آگے تھیں۔ آپؓ نے اپنے زندگی کے کارناموں سے، خدا پرستی کے نمونوں سے، اخلاق کی عملی مثالوں سے، روحانیت کی پاک تعلیمات سے، دین و شریعت اور قانون کی تعلیم و تشریح سے دنیا کی عورتوں کے لیے ایک کامل زندگی کا بیش بہا نمونہ چھوڑا ہے۔

حضرت عائشہؓ کے ذریعے سے علم دین کا بہت بڑا ذخیرہ مسلمانوں تک پہنچا اور فقہ اسلامی کی بڑی معلومات لوگوں کو حاصل ہوئیں۔ آپؓ صرف احادیث روایت کرنے والی ہی نہیں تھیں، بلکہ فقیہا اور مفسرہ اور مجتہدہ بھی تھیں۔ آپؓ کو بالاتفاق مسلمان عورتوں میں سب سے بڑی فقیہا جانا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔

مقبول خبریں