صبر و تحمّل

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی صبر و تحمل سے لبریز ہے۔


November 10, 2017
اگر کوئی بُرائی کرے تو اس کا جواب اچھائی سے دو۔ فوٹو : فائل

KARACHI: صبر کے معنی ہیں کسی خوشی، مُصیبت، غم اور پریشانی وغیرہ کے وقت میں خود کو قابو میں رکھنا اور خلاف شریعت کاموں سے بچنا اور اللہ اور رسول اکرم ﷺ کی مقرر کردہ حدود میں رہنا۔ رسول کریم ﷺ نے ہمیں یہ عظیم حقیقت بھی بتائی کہ بے شک صبر ( تو وہ ہے جو ) کسی صدمے کی ابتداء میں کیا جائے۔

صبر کی اہمیت، عظمت اور دُنیا اور آخرت کے فوائد کا اندازہ اس بات سے خوب اچھی طرح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قُرآن کریم میں ہمیں مختلف حالات میں صبر اختیار کرنے کا حُکم فرمایا ہے۔ صبر ایک ایسا عظیم اور اعلیٰ فضیلت والا عمل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں علیہم الصلاۃ و السلام کی صفات میں تعریف کرتے ہوئے بیان فرمایا۔ قرآن میں ''صبر'' مختلف معانی میں استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ برائی کرنے والوں کی برائی اور بدخواہ لوگوں کے قصور کو معاف کیا جائے یعنی حاسدین اور دشمنوں کے تکلیف دہ کاموں پر غصے اور اشتعال کے بہ جائے تحمل، بردباری اور برداشت سے کام لیا جائے۔

ارشادِ باری ہے، مفہوم : '' اور بھلائی اور بُرائی برابر نہیں، اگر کوئی بُرائی کرے تو اس کا جواب اچھائی سے دو، پھر جو تیرے اور جس کے درمیان دشمنی ہے وہ ایسا ہوجائے گا گویا دوست ہے ناتے والا اور یہ بات ملتی ہے انہیں کو جنہیں صبر ہے اور یہ بات ملتی ہے اس کو جس کی بڑی قیمت ہے۔''

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ خدا نے اس آیت میں ایمان والوں کو غیظ و غضب میں صبر کا اور نادانی و جہالت کے وقت حلم و بردباری کا اور برائی کے مقابلے میں عفو و درگزر کا حکم دیا ہے۔ جب وہ ایسا کریں گے تو خدا ان کو شیطان کے اثر سے محفوظ رکھے گا۔ (تفسیر کبیر)

اس سے معلوم ہوا کہ غصہ اور اشتعال شیطانی اثر ہے۔ شیطان انسان کو مختلف تدابیر کے ذریعے ابھارنا چاہتا ہے تاکہ وہ جذبات میں آکر کوئی ایسا کام کر بیٹھے جو اس کے لیے دور رس نقصانات کا باعث بنے۔ اسی لیے قرآن نے ہمیشہ عفو و درگزر کی تعلیم دی ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ معاف کرنے والوں کے لیے آخرت میں بڑا اجر ہے۔ بدخواہ اور حاسدین دنیا میں جتنا چاہیں تمسخر اور مذاق اڑالیں، ایک دن ضرور ان کو اپنے کیے ہوئے پر افسوس کا اظہار کرنا ہوگا۔ دنیا میں اگر کسی مصلحت کے سبب انہیں نجات مل بھی گئی تو قیامت جو عدل و انصاف کا دن ہے، وہاں پر ہر ایک کو اچھے اور بُرے عمل کا بدلہ مل کر رہے گا۔ خدا نے اپنا یہ فیصلہ ان الفاظ میں سنایا ہے، مفہوم : '' ایمان والوں سے کہہ دیجیے کہ ان کو جو اللہ کی جزا و سزا پر یقین نہیں رکھتے معاف کردیا کریں تاکہ لوگوں کو ان کے کاموں کا بدلہ ملے، جس نے اچھا کیا اس نے اپنے بھلے کے لیے کیا اور جس نے بُرا کیا اس نے اپنا بُرا کیا، پھر تم اپنے پروردگار کے پاس لوٹائے جاؤگے۔''

اس آیت کی شانِ نزول میں لکھا ہے کہ کسی منافق یا کافر نے کسی مسلمان سے کوئی بدتمیزی کی بات کہی تھی، اس سے بعض مسلمانوں کو طیش آیا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی اور مسلمانوں کو عفو و درگزر کی نصیحت کی گئی۔(تفسیر کبیر)

اس مفہوم پر مشتمل متعدد آیات قرآن میں نازل کی گئی ہیں، جن میں مختلف پیرایے سے جذباتیت کے بدلے حقیقت پسندی، غصے اور اشتعال کے بہ جائے صبر و تحمل اور انتقامی کارروائی چھوڑ کر بردباری اور قوتِ برداشت کی صفت اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ صبر کا راستہ جنت کا راستہ ہے اور کسی ناخوش گوار واقعے پر کسی بھائی کے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھنا شیطانی راستہ ہے، اور شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ اس لیے اس سے جہاں تک ہوسکے اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جب میں اپنے بندے کو اس کی دو محبوب چیزوں یعنی دو آنکھوں کی وجہ سے آزمائش میں مبتلا کرتا ہوں اور وہ صبر کرتا ہے تو میں اس کے عوض اس کو جنت عطا کرتا ہوں۔ ( صحیح بخاری)

حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کوئی شخص تکلیف دینے والی بات سن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا نہیں ہے کہ لوگ اس کے لیے بیٹا بتاتے ہیں اور وہ انہیں معاف کر دیتا ہے، اور انہیں رزق دیتا ہے۔

(صحیح بخاری)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، کہ جب میں کسی مومن بندے کی محبوب چیز اس دنیا سے اٹھا لیتا ہوں پھر وہ ثواب کی نیت سے صبر کرے، تو اس کا بدلہ جنت ہی ہے۔

(صحیح بخاری)

ابوسعیدؓ بیان کرتے ہیں کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی چیز مانگی، تو آپؐ نے ہر شخص کو کچھ نہ کچھ دیا۔ یہاں تک کہ جو کچھ آپؐ کے پاس تھا ختم ہوگیا، اس کے بعد آپؐ نے فرمایا کہ میں نے تمام چیزیں خرچ کردیں اب میرے پاس کچھ مال نہیں رہا، میں تم سے چھپا کر نہیں رکھتا، تم میں سے جو شخص سوال سے بچنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے صبر دے دیتا ہے اور جو شخص استغناء ظاہر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے غنی کردیتا ہے اور صبر سے بہتر اور وسیع کوئی چیز تمہیں نہیں دی گئی۔ (صحیح بخاری)

حضرت ابومالک اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا طہارت نصف ایمان کے برابر ہے اور اَلْحَمْدُلِلَّہ ِ میزان کو بھر دے گا اور سُبْحَانَ اللَّہِ وَالْحَمْدُلِلَّہِ سے زمین و آسمان کی درمیانی فضا بھر جائے گی اور نماز نور ہے اور صدقہ دلیل ہے اور صبر روشنی ہے اور قرآن تیرے لیے حجت ہوگا یا تیرے خلاف ہوگا، ہر شخص صبح کو اٹھتا ہے اپنے نفس کو فروخت کرنے والا ہے یا اس کو آزاد کرنے والا ہے۔ (صحیح مسلم)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی عورتوں سے فرمایا تم میں سے جس کسی کے بھی تین بچے فوت ہو جائیں گے اور وہ ثواب کی امید پر صبر کرے گی تو جنّت میں داخل ہوگی۔ ان میں سے ایک عورت نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ؐ اگر دو مرجائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو یعنی دو میں بھی اسی طرح۔ (صحیح مسلم)

عبدالرحمن ابن ابی لیلی حضرت صہیبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن آدمی کا بھی عجیب حال ہے کہ اس کے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے اور یہ بات کسی کو حاصل نہیں سوائے اس مومن آدمی کے کہ اگر اسے کوئی تکلیف بھی پہنچی تو اسے نے شُکر کیا تو اس کے لیے اس میں بھی ثواب ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچا اور اس نے صبر کیا تو اس کے لیے اس میں بھی ثواب ہے۔(صحیح مسلم)

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو مومن لوگوں سے میل جول رکھے اور ان کی ایذا پر صبر کرے اسے زیادہ ثواب ہوتا ہے اس مومن کی بہ نسبت جو لوگوں سے میل جول نہ رکھے اور ان کی ایذا پر صبر نہ کرے ۔ (سنن ابن ماجہ)

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی صبر و تحمل سے لبریز ہے، کسی موقع پر بھی آپؐ نے نفسانی جذبات کا استعمال نہیں کیا، غیظ و غضب اور وقتی معاملات سے طیش میں آکر کوئی بھی اقدام بلاشبہ ہزار مفاسد پیدا کرتا ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ تمام شعبہ ہائے حیات میں صبر و تحمل سے کام لیا جائے۔ آقا اپنے ملازم کے قصور اور لغزشوں کو معاف کرے اور اگر وقتی طور پر کبھی آقا ناراض ہوجائے تو ملازم کو بھی اسے برداشت کرنا چاہیے۔

باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹا اپنے باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرے۔ میاں بیوی میں خلش ایک فطری بات ہے مگر اسے باہمی صبر و تحمل سے دور کرتے ہوئے زندگی کو خوش گوار بنانے کی کوشش کی جائے۔ پُرسکون اور کام یاب زندگی کے لیے صبر و تحمل اور قوتِ برداشت بنیادی عنصر ہے۔ ہماری پستی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم جذبات کے رَو میں بہہ جاتے ہیں، موجودہ حالات میں خاص طور پر سیرتِ نبویؐ کے اس پہلو کو اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔

مولانا رضوان اللہ پشاوری

مقبول خبریں