اس نئے نوحے کو کون سنے گا؟

رمضان رفیق  اتوار 12 نومبر 2017
کاش انہیں کوئی سمجھا دے کہ ٹریفک جام سے بچنے کےلیے ٹریفک قوانین پر عمل کرنا اشد ضروری ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کاش انہیں کوئی سمجھا دے کہ ٹریفک جام سے بچنے کےلیے ٹریفک قوانین پر عمل کرنا اشد ضروری ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جیسے ہر نئی موت پر ایک نیا نوحہ لکھا جاتا ہے، ایسے ہی ہرنئے حادثے پر وہی پرانی آنکھیں نئے آنسو روتی ہیں۔ پاکستان میں بسنے والوں کو کچھ پریشانیوں میں رہنے کی اتنی عادت ہو گئی ہے کہ اب یہ مسئلے انہیں مسائل ہی نہیں لگتے۔ ان میں سے ایک بڑا مسئلہ ٹریفک کا بڑھتا ہوا دباؤ، ٹریفک جام، ٹریفک کی آلودگی اور سڑک پر چلنے یا سڑک استعمال کرنے کی تہذیب ہے۔

پاکستان کی سڑکوں پر ایک سے بڑھ کر ایک گدھا ڈرائیور آپ کو گاڑی چلاتا ہوا ملے گا۔ پچھلے دنوں کھانے والے گوشت میں گدھے کے گوشت کے ملاوٹ کی خبر تھی شاید اس کی کوئی کرامت ہے یا پڑھائی لکھائی نے اس قوم کا کچھ نہیں بگاڑا۔ دوسروں کو کوسنے، طعنے دینے کی طبیعت کے پیش نظر ہماری ذاتی سوچ اور عمل وہی ہے کہ جیسا دیس ویسا بھیس۔ یعنی جس طرح باقی ڈرائیور چل رہے ہیں، ہم بھی ویسے ہی چلیں گے۔ پچھلے ہفتے کی بات ہے کہ لاہور کینال سے بحریہ ٹاؤن کی طرف جانے والی سڑک پر کم و بیش ڈیڑھ گھنٹہ ٹریفک جام میں پھنسے رہے۔ وہاں موہلنوال کی طرف جانے والا ایک سگنل خراب تھا اور بس۔

اس چوراستے پر گھمسان کا رن جاری تھا، ٹریفک کی رفتار کچھ تھمی تو بہت سے لوگوں نے سروس روڈ پر گاڑیاں اتار دیں۔ جہاں تین لائنوں کی گنجائش تھی وہاں ساڑھے تین اور ڈھائی قسم کی لائنیں ترتیب پاگئیں، موٹر سائیکل سوار زگ زیگ کے انداز میں گاڑیوں والوں کی مجبوریوں پر ہنستے ہنساتے فٹ پاتھ پر چلنے لگے۔ کچھ لوگ موٹرسائیکلوں سے اتر کر درمیان کی پارٹیشن کو عبور کرکے، ون وے کی خلاف ورزی کرکے سڑک کے دوسری طرف جانے لگے۔ کچھ من چلے اپنی گاڑیوں سے اتر کر آگے کی طرف بھاگے دوڑے کہ پتا کریں کہ آگے کیا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے سڑک پر ٹریفک رکی ہوئی ہے۔ ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں کی کھڑکیاں آہستہ آہستہ کھلنے لگی، کچھ بے قرار ڈرائیور اپنی سیٹ کو چھوڑ کر دروازوں سے سر نکال کر جھانکنے لگے۔ اتنے میں سائرن بجاتی ایک ایمبولینس کہیں سے آن دھمکی۔ ایمبولینس ڈرائیور اسے سروس لائن کی طرف لے گیا لیکن سروس لائن پر بھی گاڑیاں ساکت کھڑی تھیں۔ کسی طرف بھی ایک انچ جگہ نہ تھی کہ ایمبولینس کو جگہ دی جا سکے، ایسا لگ رہا تھا کہ اس شور میں ایمبولینس کا یوں چلاتے رہنا اور شور مچانا روز کا معمول ہو، کوئی ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا۔

اتنے میں نجانے کہاں سے پنجاب پولیس کے نوجوان دوڑتے ہوئے ایمبولینس کی طرف لپکے، انہوں نے آگے جانے والی گاڑیوں کی کھڑکیوں کو تھپتپایا، کچھ مردہ ضمیر لوگوں کے دلوں اور گاڑیوں پر دستک دی، تب جاکراس ایمبولینس کےلیے جگہ بنی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ پولیس کے سپاہی کسی بڑے پولیس آفیسر کے ساتھ گارڈ کے طور پر موجود تھے جو ہماری ہی طرح اس ٹریفک جام کا حصہ تھے۔ اس پولیس گاڑی کےلیے انہوں نے سروس روڈ کی ٹریفک کو بند کروا کے کچھ راستہ بنایا اور اس کے بعد وہ اس معمولی ذمہ داری سے بھی آزاد ہوئے کہ وہ اس ٹریفک میں پھنسے ہوئے لوگوں کی کچھ مدد کر سکتے۔

آگے نجانے کیا تھا کہ ٹریفک ایک انچ بھی اگے نہیں بڑھ رہی تھی۔ نہر پر موہلنوال کا اشارہ کچھ پانچ سو میٹر ہوگا لیکن ٹریفک کے ایک اشارے کے دورانیے میں جتنا ایک گاڑی کو آگے بڑھنا چاہیے تھا، ٹریفک اتنی بھی آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔ ہم کچھوے کی سی رفتار پر آگے رینگ رہے تھے۔ اس سست رفتاری کے باوجود ہر ڈرائیور یہ چاہتا تھا کہ چند انچ ہی سہی، اس کی گاڑی دوسری گاڑیوں سے آگے رہے۔ طبل جنگ کی طرح ہارن بجائے جارہے تھے، کھڑکی کھول کر دوسرے ڈرائیوروں کو ان کے گدھے پن پر صلواتیں سنانے والے بھی کم نہ تھے۔

رفتہ رفتہ ہم اس چوک تک آپہنچے جس کے دائیں طرف لاہور ملتان روڈ، بائیں طرف بھوبتیاں چوک، سامنے بحریہ اور پیچھے لاہور ہے۔ یہاں خرابی بس یہ تھی کہ ٹریفک کا سگنل خراب تھا اور یہ ساری بھیڑ ایک ٹریفک سارجنٹ کے بس سے باہر تھی۔ وہ اپنی پشت جس جانب کرکے کھڑا تھا، لوگ رینگتے رینگتے اس کو مس کرنے کے قریب تھے۔ تین اطراف کے لوگ بس اپنی مرضی سے اس چوک سے گزر رہے تھے۔ صرف اور صرف اس بدنظمی کی وجہ سے ٹریفک کی یہ صورت حال ہوئی تھی ورنہ وہاں کوئی بھی اور غیرمعمولی صورت حال نہ تھی جس کی وجہ سے ٹریفک جام ہو۔

ہم اس چوراہے کے درمیان تک آپہنچے تو معلوم ہوا کہ کچھ عام شہری اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں کو اس بھیڑ سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس گروپ میں موجود کچھ لوگوں کا مرکز و محور ان کی اپنی واحد گاڑی تھی جو پیچھے کہیں بھیڑ میں موجود تھی۔ لیکن پھر بھی ان کا یہ قدم اس طرح کی بھیڑ میں ایک احسن قدم ہی کہا جاسکتا ہے۔ تاہم اس طرح کے کئی ایک لوگ موجود تھے جن کی وجہ سے اس چوراستے پر کون کس کی مانے، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم وہیں سے لاہور ملتان روڈ پر چلے آئیں گے لیکن ہمیں اس ہجوم میں یہی مناسب لگا کہ آگے بحریہ کی طرف چلے جائیں۔

اس دن کے بعد کل رات کو اوکاڑہ جاتے ہوئے درجنوں بار ایسا ہوا کہ آپ ایک ہیوی ٹرک کو کراس کر رہے ہیں اور پیچھے کی گاڑی والا آپ کو مسلسل ڈپر دے رہا ہے۔ اب اس سے کوئی بندہ پوچھے کہ اے گدھے، یہ بڑی گاڑی کراس ہو گی تو تجھے راستہ ملے گا ناں! سڑک پر چلتے چلتے جابجا احساس ہوتا کہ سب کسی انجانی منزل کی طرف چلے جارہے ہیں اور ہر کسی کو اپنی منزل پر جلد از جلد جانا ہے چاہے اس کےلیے ون وے کی خلاف ورزی کرنا پڑے، گاڑی کو غلط سائیڈ سے اوور ٹیک کرنا پڑے یا اسپیڈ لمٹ کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ یعنی جو کچھ قانون شکنی تصور کی جاسکتی ہے، لوگ بہ آسانی اور بلا خوف و خطر اس پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں۔ رات کے اندھیرے میں بغیر ریفلیکٹر سست رفتار گاڑیاں یا دیگر ٹریفک بغیر کسی حفاظتی سوچ کے جی ٹی روڈ یا مین ہائی وے پر دندناتی دکھائی دیتی ہے۔

کیا اِن، ان پڑھ ڈرائیوروں کی فوج ظفر موج کو کوئی لگام ڈال پائے گا؟ یہ جو جاہل ہر قطار سے باہر نظر آتے ہیں، جنہیں دائیں یا بائیں اوورٹیک سے کوئی فرق نہیں پڑتا، جن کےلیے ون وے کی خلاف ورزی کچھ معنی نہیں رکھتی، جن کےلیے چند منٹ بچانے کی خاطر جان ہتھیلی پر رکھنا بہت آسان ہوا پھرتا ہے۔ کون ہے جو انہیں سمجھائے؟ آپ گھنٹوں ایک چوراہے پر سینگ پھنسائے کھڑے رہنے کو تیار ہیں لیکن ایک لائن کی پابندی کرنے کو تیار نہیں۔ کیا کوئی آسمان سے آکر انہیں بتائے گا کہ ایک دوسرے کے پیچھے چلیں گے تو منزل سب کی آسان ہوجائے گی۔

چلئے سڑک پر ٹریفک تو آپ کے بس سے باہر ہے لیکن جو لوگ پیدل ہیں وہ عقل سے پیدل تو نہیں۔ جہاں سے دل چاہا کراس کر لیا، کیا ہمارا نصاب اور نظام تعلیم ہمیں جینے کی اس قدر کی سعی کرنے کا درس دے رہے ہیں؟ کیا اسکول و کالج کے طالب علم سڑک پر چلنے کے آداب سے زیادہ اچھے انداز میں آشنا ہیں؟ کسی اسکول کے باہر چلیے اور ماتم کیجیے اس نظام تعلیم کا بھی جس کا واحد مقصد آپ کے نمبروں میں اضافہ کرنا ہے۔ جب کبھی چار چھ ماہ بعد یورپ سے پاکستان آتا ہوں اور عوام الناس کو سڑکوں پر ایک دوسرے کے ہاتھوں ذلیل ہوتے دیکھتا ہوں تو ان لوگوں پر ترس آتا ہے کہ یہ کس عذاب میں مبتلا ہیں۔ ایسا جنگل جہاں ہر کوئی دوسرے کے سینگ سہنے کا عادی ہوچکا ہے۔ انہیں احساس تک نہیں کہ اس دوڑ میں وہ ایک دوسرے کا کیا حال کیے جارہے ہیں۔ اس بے ہنگم ٹریفک کا حل کیا ہے؟ کاش ہم سب سوچیں؛ کاش ہم انسان بننا سیکھ جائیں اور گدھے پن سے باز آئیں۔

لیکن اس نئے نوحے کو کون سنے گا؟ میرے سب سے کم پڑھے جانے والے بلاگز میں ایک نیا بلاگ اور بس… کاش! اے کاش کوئی جاگے؛ اور اس ہجوم کو سڑک پر چلنے کے درس سے آشنا کردے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

رمضان رفیق

رمضان رفیق

رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں، اور ایگری ہنٹ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔ آپ ان کے بلاگ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔ www.ramzanrafique.com

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔