دھرنا از خود نوٹس؛ جب ریاست ختم ہوجائے گی تو قتل سڑکوں پر ہوں گے، سپریم کورٹ

ویب ڈیسک  جمعرات 23 نومبر 2017
کل کو کوئی اور اپنے موقف منوانے کے لیے راستے بند کر دے گا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس۔ فوٹو: فائل

کل کو کوئی اور اپنے موقف منوانے کے لیے راستے بند کر دے گا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فیض آباد انٹر چینج پر جاری دھرنے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ جب ریاست ختم ہوجائے گی تو قتل سڑکوں پر ہوں گے۔

جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے دھرنا ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی،  جس میں وزارت داخلہ اور وزارت دفاع نے اپنی رپورٹس جمع کرادیں۔

سماعت کے دوران جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ نے رپورٹ کا جائزہ لیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ حکومت سمیت احتجاج والے بنیادی نکتہ نظر انداز کر رہے ہیں، کیا اسلام میں کوئی ڈنڈا ہے، کیا لوگوں نے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنا چھوڑ دیا ہے، اختلاف ہوتا ہے لیکن کیا عدالتیں بند ہو گئی ہیں، کل کو کوئی اور اپنا موقف منوانے کے لیے راستے بند کر دے گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ غلطی سب سے ہوتی ہے، مجھ سے جو غلطی ہو اس کا اعتراف کرتا ہوں، کوئی غیر شرعی بات ہے تو شرعی عدالت موجود ہے، کیا اسلام میں دو رائے ہو سکتی ہیں، کنٹینر کا خرچہ بھی عوام برداشت کر رہے ہیں جب کہ ایجنسیوں پر اتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے، ان کا کردار کیا ہے، سمجھ نہیں آ رہا کیا کریں اسلام امن سے پھیلا ہے ڈنڈے سے نہیں۔

اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ  معاشرے اور ذہن کو ڈنڈے سے نہیں بدل سکتے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اتحاد، ایمان اور تنظیم کہیں نظر نہیں آ تا، جس کو مرضی گالی دے دو، اگر یہ اسلامی باتیں ہیں تو مجھے قائل کریں، پاکستان دلائل دے کر بنا، دین میں کوئی جبر نہیں، ڈنڈے کے زور پر اچھی بات بھی اچھی نہیں لگتی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ دشمنوں کے لیے کام بہت آسان ہو گیا ہے، وہ ہمارے گھر میں آگ لگائیں گے، کتنے دن سے لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہے، جب ریاست ختم ہو جائے گی تو قتل سڑکوں پر ہوں گے، ہم تو تشدد کرنے کا نہیں کہیں گے، آرٹیکل 5  کو ہم نے نظر انداز کر دیا ہے، اگر آرٹیکل 5 کی پابندی نہیں کرنی تو پاکستان کی شہریت چھوڑ دیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ دھرنے میں موبائل فون چل رہے ہیں،عوام کے ٹیکس کا پیسہ دھرنے پر لگ رہا ہے، دھرنے کے باعث عدالتی نظام میں خلل پڑرہا ہے، وکیل اور سائلین عدالت نہیں پہنچ رہے، دھرنے والی جماعت نے الیکشن بھی لڑا، اس نام سے سیاسی جماعت رجسٹر کیسے ہوئی جب کہ حکومت کا پلان آف ایکشن کیا ہے، دھرنے والوں کو کیا حکومت چائے پیش کرتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کوشش ہے معاملہ تشدد کی طرف نہ جائے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسلام کی عظمت پر سمجھوتا نہیں ہو گا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج پیش رفت ہونے کا امکان ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ گولیاں نہ برسائیں لیکن ان کی سہولیات کو بند کر دیں، دھرنے کے علاقے کو سیل کریں،17 دن سے یہ لوگ کھانا کہاں سے کھا رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ  آس پاس کے لوگ کھانا فراہم کر رہے ہیں جب کہ دھرنے میں اسلحہ سے لیس لوگ موجود ہیں، ربیع الاول میں کوئی ایسی چیز نہیں چاہتے جو صورتحال کو خراب کرے، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ  169 لوگوں کو گرفتار کیا اور 18مقدمات درج ہوئے جب کہ  راستہ بند ہونے کے باعث ایک بچہ وفات پا گیا، جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ بچے کا وفات پانا معمولی بات نہیں، ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، دھرنے والوں کے دل میں یہ صورت سما جاتی تو وہ توبہ کرتے چلے جاتے، ایمبولینس کو راستہ دینے سے ہماری انا بڑی ہے، جس کا بچہ مر گیا اس کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی، پارلیمان اور عدلیہ اپنا کام اور علماء اپنا کام کریں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ سوشل میڈیا کو بلاک کرنے کیلئے حکومت نے کیا اقدامات کیے جس پر اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ پی ٹی اے کو سوشل میڈیا کو بلاک کرنے کا کہا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ عدل کا راستہ روکنا بھی گناہ ہے، کیا عدالت کو بند کر کے گھر چلے جائیں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے مسلمانوں کا اسلامی ریاست میں رہنا مشکل ہوتا جارہا ہے، اداروں کو بدنام کیا جارہا ہے، دھرنے والے میگا فون اورکرسیاں کہاں سے لے کر آئے، ہم کوئی احکامات نہیں دیں گے، حکومت کا جو کام ہے وہ خود کرے جب کہ دھرنے کے اخراجات کون برداشت کررہا ہے۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا یہ لوگ باہر سے آئے، آئی ایس آئی کو معلوم نہیں، آئی ایس آئی اتنا طاقتور ادارہ ہے، سنجیدگی دکھائیں، اس سے اچھی رپورٹ تو میڈیا دے گا، اٹارنی جنرل آپ میڈیا میں سے کسی کا انتخاب کریں وہ بہتر رپورٹ دیں گے، کیا دھرنے والے لوگوں کا کوئی کاروبار نہیں، دھرنے والے کیا ملنگ فقیر ہیں، ان کا ذریعہ معاش کیا ہے اور ان کے پیچھے کون ہے۔ کیا کوئی فارن فنڈنگ تو نہیں ہو رہی، دھرنے والوں نے مجھے گالیاں دیں تو ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں جب کہ آئندہ سماعت پر آئی بی اور آئی ایس آئی کے اعلیٰ حکام موجود ہوں۔

عدالت نے دھرنے سے متعلق آئی بی اور آئی ایس آئی کی رپورٹس مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دھرنے کے حوالے سے مثبت اقدامات کرکے رپورٹ پیش کریں جب کہ  آئندہ سماعت پر عدالت نے آئی بی اور آئی ایس آئی کے سینئر افسران کو بھی طلب کرلیا ہے۔ عدالت نے دھرنا کیس کی سماعت آئندہ جمعرات تک ملتوی کردی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔