پروٹوکول یعنی تشریفات عالیہ

کسی وزیر کو ہم نے ’’ لائیو‘‘ دیکھا ورنہ اپنے صوبے میں کسی وزیر کو زندہ دیکھنا کسی کسی کے نصیب میں ہوتا ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq November 30, 2017
[email protected]

لاہور: کہتے ہیں انسان کا دل ململ کے کپڑے جیسا ہوتا ہے کہ شبنم سے بھیگ جاتا ہے اور پھر ہوا کے ہلکے سے جھونکے سے سوکھ جاتا ہے چنانچہ بعض اوقات چھوٹی سی خوشیاں بھی انسان کو بڑا خوش کر دیتی ہیں ۔

ابھی کچھ روز ہوئے ہم کابل گئے تھے تو وہاں وزیروں اور گورنروں بلکہ نمرود عبد اللہ عبداللہ کی اٹھک بھٹک آنے جانے اور ملنے ملانے کا پروٹوکول دیکھ کر دل بلیوں اچھلنے لگا کہ یہ لوگ ابھی ہم سے کتنے پسماندہ ہیں کہ وزیروں گورنروں تک کو بھی حکومت کرنا نہیں آتا، ایسے ہی دھقانوں کی طرح یہاں وہاں یونہی واہی بتاہی پھرتے رہتے ہیں کسی بھی پہلو سے ایسا لگتا ہی نہیں کہ کوئی وزیر ہے یا گورنر ہے ۔

اس سے پہلے بلوچستان میں بھی کچھ ایسا ہوا تھا کہ جب ہم ہال میں پہنچتے تو گورنر وزیر اعلی اور اسپیکر پہلے سے موجود ہوتے مقررہ وقت سے بھی پہلے ۔ کیا وزیر مطلب یہ کہ سرکاری لوگ ایسے ہوتے ہیں خاص طور پر ٹھیک وقت پر آنا نہایت ہی کسرشان والی بات ہے ۔ ایک وزیر سے ہم نے کہہ بھی دیا اور یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ کسی وزیر کو ہم نے زندہ یعنی '' لائیو'' دیکھا ورنہ اپنے صوبے میں کسی وزیر کو زندہ دیکھنا کسی کسی کے نصیب میں ہوتا ہے ۔

لیکن سب سے بڑی خوشی ہمیں بھارت میں ہوئی تھی جب ہم بمقام بھوپال ایک صوفی کانفرنس کے لیے گئے تھے، پروگرام میں لکھا تھا کہ پروگرام کا اختتام مدہیہ پردیش کے راج پال (گورنر) کریں گے چنانچہ مقام واردات میں جب گیٹ سے اندر جانے لگے تو سب سے پہلے اپنے پر یعنی بازو پھیلا کر کھڑے ہوئے پولیس والے کے پاس گئے، ہمیں یوں ہاتھ پھیلائے دیکھ کر وہ سمجھا کہ ہم اس سے بغلگیر ہونا چاہتے ہیں، اس لیے وہ بھی نہایت خوشی اور خلوص سے ایسے گلے لگا کہ سارا گلہ جاتا رہا۔ پیچھے سے ہمارے ساتھی نے کھینچا ۔ بولا یہ کیا کر رہے ہو۔ ہم نے بتایا کہ تلاشی دینا مقصود تھا اس لیے پہلے سے اس بیل کی طرح منہ کھولنا اچھا ہے جس کے دانت اکثر دیکھے جاتے تھے لیکن اس نے بتایا کہ یہ پولیس والے تلاشی کے لیے نہیں بلکہ ایسے ہی کھڑے ہیں، جوش تلاشی میں ہم نے یہ بھی نہیں دیکھا تھا کہ وہ گیٹ پر بالکل لا تعلق اور ایک طرف کھڑا تھا وہ بھی غیر مسلح اور اکیلا، پولیس والا بڑا خوش ہوگیا تھا اس لیے سوچا چلو کسی '' کس مپرس'' کی تھوڑی سی پرسان تو کرلی۔

ہال میں گئے تو پہلی قطار کے بعد دوسری قطار میں جگہ ملی بیٹھ کر انتظار کھینچنے لگے کہ اب گورنر یعنی راج پال کی آمد کا غلغلہ ہوگا، زمین و آسمان ہل جائیں گے کچھ دیر ہوئی تو سوچا کہ یہاں بھی وہی دیر سے آنے کا سلسلہ ہے اس لیے آرام سے بیٹھ کر قیامت کا انتظار کرنے لگے۔ ہمارے آگے ایک ذرا دبیز قسم کا آدمی بیٹھا تھا جو لباس میں سے اچھا خاصا مفلوک الحال لگ رہا تھا، کئی بار سوچا کہ اسے اٹھنے کے لیے کہہ کر آگے بیٹھ جائیں آخر ہم تو مہمان اور مندوبین ہیں، اتنے میں پروگرام کا آغاز ہو گیا اور جب تک ہم سمجھتے وہ ہمارے آگے والا مزدور رہنما شخص اٹھ کر اسٹیج پر پہنچ گیا تھا، وہی کم بخت راج پال یعنی گورنر تھا ، گدلے سے رنگ کے ڈھیلے لباس میں کسی بھی اینگل سے گورنر نہیں لگ رہا تھا ،اس کے ساتھ صرف ایک ہی آدمی تھا جو پیچھے کھڑا ہو گیا تھا اور لباس سے کم از کم گورنر سے تو بدرجہا بہتر تھا ۔

یہی وہ موقع تھا جب ہماری گردن میں سریا فٹ ہو گیا کہ یہ دیکھوں یہ تو ان کا گورنر ہے تو اور جو کچھ ہوگا اس کا اندازہ اسی '' مشتے '' نمونہ از خروارے سے ہوتا ہے ۔

اسی وقت یہ سوچ کر ہم پھولے نہیں سما رہے تھے کہ یہ لوگ چلے ہیں ہم سے ہمسری کرنے ۔ پہلے تو ذرا حکومت کرنا سیکھ لیں گورنری سیکھ لیں سرکاری ہونا سیکھ لیں پروٹوکول پہچان لیں، دیر سے آنے کا سلیقہ سیکھ لیں پھر ہم سے پنگا لیں۔یہ گورنر ایسے ہوتے ہیں پتہ نہیں ان لوگوں کو ابھی تک کسی نے یہ تک نہیں سکھایا ہے کہ گورنری کیسی ہوتی ہے وزارت کیسی ہوتی ہے اور ان کے لیے کیا کیا لوازم درکار ہوتے ہیں، کیا کچھ سیکھنا اور اپنے آپ میں پیدا کرنا ہوتا ہے ۔

یہ کیا کہ وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے آئے بیٹھے ہیں او جو انتظار اوروں کو کروانا چاہیے تھا وہ خود کر رہے ہیں اورکہیں کسی اور سے ہی سہی کوئی ڈھنگ کا لباس تو لے کر پہن آتے، گلی محلے کے دو چار لوگوں کو کھانے کی لالچ میں سہی اپنے اردگرد لے کر آتے ، ذرا پڑوس میں جھانک کر ہم سے کچھ سیکھ لیتے کہ گورنر اور وزیر لوگ کیا ہوتے ہیں اور کیسے ہوتے ہیں ۔

لیکن وہی بات ہے شاید جو حضرت قائد اعظم ؒ نے کہی تھی کہ ایک دن ان سے کسی نے پوچھا کہ گاندھی یہ ہند والوں کے باپو تھے اور ساری عمر ایک چادر میں گزاری تھی بلکہ سنا ہے کہ گرمیوں میں اکثر ایک بڑے مٹکے میں پانی کے اندر گزارا کرتے تھے یہاں تک کہ لکھت پڑھت بھی مٹکے کے کنارے پر رکھ کر کرتے تھے ۔ہاں تو کسی نے قائد اعظم ؒ سے پوچھا کہ گاندھی تھرڈ کلاس میں سفر کرتے ہیں اور آپ ہمیشہ فسٹ کلاس میں جاتے ہیں تو انھوں نے کیا دندان شکن جواب دیا کہ تھرڈ کلاس لیڈر تھرڈ کلاس میں سفر کرتے ہیں اور فرسٹ کلاس لیڈر فسٹ کلاس ڈبے میں سفر کرتے ہیں ۔اور یہ بات پتھر کی لکیر ثابت ہوئی بلکہ اسے ہم پاکستانیوں کی سعادت مندی سمجھتے ہیں کہ ہمیشہ فسٹ کلاس کو پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ ہوتے ہی فسٹ کلاس ہیں ۔

اس وقت ہمارا جی چاہا کہ اس راج پال سے کہیں کہ پہلے وہ پاکستان آکر دیکھے اور سیکھے کہ گورنری کیسے کی جاتی ہے اور موقع بھی ہمارے ہاتھ لگا تھا کیونکہ چائے کے دوران وہ نو سیکھیا بلکہ نہ سیکھیا راج پال سب شرکاء سے بالکل عام انداز میں مل رہا تھا بلکہ ہمارے ساتھ تووہ تھوڑا سا خصوصی طور پر ملا کیونکہ جب اسے پتہ چلا کہ ہم پشاور سے ہیں تو بہت خوش ہوا اور بولا کہ اس کے بزرگوں کا تعلق بھی پشاور سے ہے بلکہ حماقت میں یہ تک بول گیا کہ میراباپ پشاور کے علاقے صدر میں چائے کا ہوٹل چلاتا تھا ۔

لیکن ہم نے منہ میں آیا ہوا مشورہ اس لیے نہیں دیا کہ اگر یہ لوگ ہم سے سیکھ سکھا کر ویسے ہی ہو گئے تو پھر ان میں اور ہم میں فرق کیا رہ جائے گا پھر تو یہ بھی ترقی کرکے ہماری طرح گورنری اور وزیری کرنے لگیں گے اور ہمارے ساتھ ہمسری کے مدعی ہو جائیں گے اس لیے ہم چپ رہے، ہم ہنس دیے کہ تم ایسے ہی اچھے ہو غریبو جاہلو اور پھوہڑو ۔

اور یہ تو خیر آپ کو بتانے کی ضرورت ہے ہی نہیں کہ ہمارے ہاں گورنر اور وزریر کیسے ہوتے ہیں جس میں سب سے بڑی اور اچھی بات یہ ہے کہ کم از کم چار پانچ سو لوگ تو ان کے پروٹوکول میں باروزگار ہو جاتے ہیں گویا ایک تیر سے دو شکار ۔ بیروزگار کو روزگار اور '' متاع بے بہا'' کی حفاظت بھی ۔ ہم خرما و ہم ثواب

مقبول خبریں