بھائی کے حقوق

ماں کی بے لوث ممتا، باپ کی پیار بھری شفقت کے بعد اگر کوئی خلوص و وفا سے گُندھا ہوا رشتہ ہے تو وہ بھائی کا ہے


April 27, 2018
شرک کے بعد سب سے بڑا جرم قتلِ ناحق ہے۔ وہ بھی اگر بھائی کا ہو!۔ فوٹو: فائل

دنیا کا پہلا مقتول ہابیل تھا، اس طرح سب سے پہلا قتل بھائی کا ہوا۔ قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا، لیکن انسان نے اس کے خوف ناک انجام سے عبرت پکڑنے کے بہ جائے اس کا طریق اختیار کیا، ہائے بدنصیبی۔ قابیل قاتل بن کر نبیؑ کی صحبت، ایمان کی دولت، ربِ رحمن کی مہربانی سے محروم ہوا، اور شیطان کی جھولی میں جاگرا۔

اللہ تعالی اس کے انجام بد کا تذکرہ فرما کر انسانوں کو درس دے رہے ہیں کہ ایسے مت بنو! قرآن بتاتا ہے ایک قتل کی دھمکیاں دے رہا تھا، حسد، غصے سے پھٹ رہا تھا۔ دوسرا نرمی، محبت اور شفقت بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا، تُو مجھے قتل ہی کیوں نہ کردے میں تو بھائی پر ہاتھ اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتا۔

شرک کے بعد سب سے بڑا جرم قتلِ ناحق ہے۔ وہ بھی اگر بھائی کا ہو! اس کی شدت اور سنگینی کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ قرآن و سنت میں صرف قطع تعلق پر جو وعیدیں ہیں اسے سن کر ہی انسان کانپ اٹھتا ہے۔

اللہ تعالی قطع تعلق کرنے والے کو خسارے اور گھاٹے میں بتاتے ہیں، ان پر لعنت برساتے ہیں اور بُرے ٹھکانے سے آگاہ فرماتے ہوئے تنبیہ کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اندھا و بہرا کردیا ہے، نہ انہیں حق دکھے گا نہ وہ سیدھی و سچی بات سن و سمجھ سکیں گے۔

بنی کریم ﷺ نے فرمایا: '' رشتے ناتے توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔''

احادیث میں یہاں تک آیا ہے، کہ وہ جنت کی خوش بُو تک نہیں پاسکے گا۔ رشتہ اللہ رب العزت کی صفتِ رحمن کی شاخ ہے۔ جو اسے توڑتا ہے اللہ اسے توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اس کی بڑی نحوست یہ ہے کہ اعمال قبول نہیں ہوتے، اس کی سزا دنیا میں ملتی ہے اور آخرت میں بھی۔

ماں کی بے لوث ممتا، باپ کی پیار بھری شفقت کے بعد اگر کوئی خلوص، وفا سے گندھا ہوا رشتہ ہے تو وہ بھائی کا ہے۔ ایک ہی ماں باپ کی مذکر اولاد بھائی کہلاتی ہے، یہ نہایت اعتماد، پیار، اپنائیت بھرا رشتہ ہے۔ جسے برادری اور معاشرے میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ کسی کے تئیں خلوص، الفت کے اظہار کے لیے یہی لفظ کام آتا ہے۔ دل میں بھائی کے لیے جو ہم دردی ہے اس کا پرتو، عکس اور کچھ حصہ مستعار لینے کے لیے اسی مقدس لفظ کا سہارا لیتے ہیں۔ جیسے مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، یعنی جو جذبات بھائی کے لیے ہیں، ان کا حتی المقدور رخ مسلمان بھائیوں کی طرف ہوجائے۔ صلۂ رحمی کرنے والا جنت میں داخل ہوگا، رب رحمن کی خصوصی عنایتیں نصیب ہوتی ہیں، جو چاہے کہ اس کے گھر، خاندان، قبیلے میں آپسی محبت ہو، اس کے رزق میں وسعت، مال میں زیادتی، اور عمر میں اضافہ ہو اور بُری موت سے محفوظ رہے اسے چاہیے کہ صلۂ رحمی کرے۔ والدین کے بعد صلۂ رحمی کا سب سے زیادہ مستحق بھائی ہے۔

بخاری شریف میں ہے: '' بدلہ لینے والا صلۂ رحمی کرنے والا نہیں ہے۔'' بے شک بھائی سے بدلہ کیسا ؟ تمام مال و منال جائیداد و جاگیر دیتے ہوئے بھی بھائی کا قرب حاصل ہو تو سستا سودا ہے۔ حدیث میں ہے جو توڑے اس سے جوڑو، وہ دیکھو! کعبۃ اللہ کے جوار میں جانیں دشمن، لڑائیاں، جنگ و جدال بھڑکانے والے، ہر طرح کی ایذائیں دینے والے دشمن، سرجھکائے بے بس قیدیوں کی طرح کھڑے ہیں، نگاہیں زمین پر گڑی ہوئیں، چہرے زرد پڑے ہوئے ہیں، شہنشاہِ بطحا ﷺ فرماتے ہیں مطمین رہو تم سے کوئی بدلہ نہیں لیا جائے گا۔

نبوی جمال، شاہی جلال کے ساتھ ایک ذی شان شخصیت جلوۂ افروز ہیں۔ سامنے کھڑے افراد مہربانی، لطف اور عنایت کی آس لگائے، کھوٹے سکوں کے بدلے بہ طور صدقہ غلہ طلب کررہے ہیں۔ شاہِ مصر کے ذہن کی سلوٹوں میں نقش ابھرتے ہیں، وہ منظر گردش کرنے لگتا ہے جب اسے اپنے کرم فرما باپ سے فریب، جھوٹ، اور دجل سے حاصل کیا جاتا ہے۔ سخت دل بھائی مارتے، پیٹتے، ہانکتے مقتل کی طرف لے جاتے ہیں۔ وحشت اور خوف بھرے اندھیرے کنویں میں ڈال دیتے ہیں، وہ منڈھیر پکڑتا ہے، چیخ، پکار کر رحم طلب نگاہوں سے بھائیوں کو دیکھتا ہے، مگر وہ سفاک دھکا دے کر اوپر پتھروں کی بارش کردیتے ہیں۔ ایسے ظالم و جابر مظلوم کے سامنے بے دست وپا کھڑے ہیں، یوسف علیہ السلام چاہیں تو ابرو کے اشارے سے ان کا تیا پانچا کردیں، مگر وہ اپنائیت بھرے لہجے میں فرماتے ہیں: آج تم پر کوئی الزام نہیں ہے۔ ایک بھائی کی زبان پر بھائیوں کے لیے یہی الفاظ جچتے سجتے ہیں۔ اللہ ہمارے ظالم بھائیوں کو ندامت اور مظلوم بھائیوں کو یہ حوصلہ نصیب فرمائے۔

ایک بھائی کے اپنے بھائی پر کیا حقوق ہیں؟ ان حقوق کی تفصیل بہت طویل ہے، چند بنیادی باتیں درج کی جارہی ہیں۔

1۔ اپنے بھائی کے ساتھ نیک سلوک کرنا اور معاملے میں نرمی برتنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' اپنے ماں باپ اور بہن بھائی کے ساتھ نیک سلوک رکھو، پھر درجہ بہ درجہ دوسرے رشتے داروں کے ساتھ۔'' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رضاعی بہن کے لیے اکراماً چادر بچھائی تھی۔ خصوصاً بڑا بھائی باپ کی مانند ہوتا ہے، اور باپ کی طرح اس کا احترام بھی ضروری ہے، اور بڑے بھائی پر چھوٹوں کی تربیت کی ذمے داری بھی ہے، لیکن اس حوالے سے شرعی تعلیمات ہر پہلو سے سامنے رکھنی چاہییں۔

2۔ اپنے بھائی کے لیے دعا کرنا: حضرت موسی علیہ السلام کی دعاؤں میں سے ہے: '' اے اللہ ! میری اور میرے بھائی کی مغفرت فرما اور ہمیں اپنی رحمت (کے سائے) میں داخل فرما، تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔''

3۔ غلطی پر چشم پوشی اور درگزر سے کام لینا: حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے ساتھ جو رویہ اپنایا وہ کس قدر تکلیف دہ تھا، لیکن خود انہوں نے موقع پانے پر انتقام لینے کے بہ جائے درگزر سے کام لیا۔

4۔ باہمی رابطہ مضبوط رکھنا، تاکہ کسی قسم کی غلط فہمی پیدا نہ ہو: عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ بھائیوں کے درمیان دوری سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں، اور اولادوں تک میں دوریاں پیدا ہوجاتی ہیں، صلۂ رحمی شریعت کے بنیادی احکام میں سے ہے، اور بھائی اس کے ابتدائی حق داروں میں سے ہے۔

اللہ تعالی ہمیں اپنے عزیز و اقربا کے حقوق ادا کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین

امیر سندھ

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں