شرح سود میں کمی، نئے معاشی بیانیے کی بنیاد

عالمی حالات کی دشواری، خصوصاً برآمدات کے حوالے سے، اس فیصلے پر ایک اور سوالیہ نشان ہے


ایڈیٹوریل December 17, 2025
فوٹو: فائل

مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود میں 50 بیسز پوائنٹس کمی کا اعلان کرتے ہوئے نئی شرح 10.5فیصد مقرر کر دی ہے،مانیٹری پالیسی کمیٹی کے مطابق ٹیکس وصولیوں کی رفتار سست رہی جس کے باعث مالی اہداف کے حصول کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے، بیروزگاری کی شرح بڑھنے کی نشاندہی ہوئی ہے، پائیدار اقتصادی نمو کو سہارا دینے کے لیے پالیسی ریٹ کم کرنے کی گنجائش موجود ہے،گزشتہ 3ماہ کے دوران عمومی مہنگائی وسط مدتی ہدف کی حد میں رہی،مانیٹری پالیسی کمیٹی نے محسوس کیا کہ مجموعی مہنگائی کا منظرنامہ بڑی حد تک برقرار رہا، جس کی اہم وجوہات اجناس کی سازگار عالمی قیمتیں، اور مہنگائی کی توقعات قابو میں رہنا ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پالیسی ریٹ میں پچاس بیسز پوائنٹس کمی کرتے ہوئے اسے 10.5 فیصد پر لانا محض ایک عددی فیصلہ نہیں بلکہ ایک ایسے معاشی مرحلے کی عکاسی ہے جو کاروباری حرکیات میں اضافے کا مرحلہ ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کی معیشت جس شدید دباؤ سے گزری ہے، اس کے پس منظر میں شرح سود میں یہ کمی ایک نفسیاتی موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔

بلند شرح سود نے اگرچہ مہنگائی کو قابو میں رکھنے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے میں کردار ادا کیا، مگر اس کی قیمت نجی سرمایہ کاری، صنعتی سرگرمی اور روزگار کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔ کاروباری لاگت میں اضافے، قرضوں کے بوجھ اور طلب میں جمود نے معیشت کی رفتار کو سست رکھا۔ اب جب کہ ہیڈ لائن مہنگائی گزشتہ تین ماہ سے 5 سے 7 فیصد کے ہدف کے اندر رہی ہے اور عالمی اجناس بالخصوص تیل کی قیمتوں میں نرمی دیکھنے میں آئی ہے، اسٹیٹ بینک نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ محض استحکام نہیں بلکہ نمو کے عنصر کو بھی پالیسی کے دائرے میں واپس لانا چاہتا ہے۔

مانیٹری پالیسی کمیٹی کے بیان میں مہنگائی کے منظرنامے کو بڑی حد تک مستحکم قرار دینا اس فیصلے کی بنیاد ہے۔ اجناس کی سازگار عالمی قیمتیں، مہنگائی کی توقعات کا قابو میں رہنا اور محتاط زری پالیسی کے اثرات نے مجموعی مہنگائی کو ایک قابلِ قبول سطح پر رکھا ہے۔ تاہم یہاں ایک نکتہ خاص طور پر توجہ طلب ہے کہ مہنگائی نسبتاً جامد رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنیادی ساختی مسائل، جیسے خدمات، کرایوں اور اجرتوں سے جڑی قیمتیں، اب بھی دباؤ میں ہیں۔ چنانچہ شرح سود میں کمی سے اگر طلب میں اضافہ ہوتا ہے تو مہنگائی کے دوبارہ سر اٹھانے کا خطرہ بھی موجود رہے گا۔ یہی وہ باریک لکیر ہے جس پر مرکزی بینک کو توازن قائم رکھنا ہوگا۔

 اس فیصلے نے یہ بھی واضح کیا کہ اسٹیٹ بینک محض بیرونی آراء یا تجزیہ کاروں کی پیش گوئیوں کا پابند نہیں بلکہ اپنے داخلی تجزیے اور اعداد و شمار کی بنیاد پر فیصلہ سازی کر رہا ہے۔ ماہرین کی جانب سے شرح سود برقرار رہنے کی پیش گوئیاں اس امر کی نشاندہی کرتی تھیں کہ بیس ایفیکٹ کے ختم ہونے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں معمولی اضافے اور آئی ایم ایف کی جانب سے مہنگائی کے خطرات پر زور کے باعث نرمی کا وقت ابھی نہیں آیا۔

اس کے باوجود اسٹیٹ بینک کا قدم ایک طرح سے یہ پیغام بھی ہے کہ وہ معیشت کی اندرونی بحالی کے ابتدائی آثار کو نظرانداز نہیں کرنا چاہتا۔اقتصادی سرگرمیوں میں اضافے کے حوالے سے بلند تعدد کے اشاریوں میں بہتری ایک مثبت اشارہ ضرور ہے۔ بڑے پیمانے کی اشیا سازی میں توقع سے زیادہ اضافہ اس بات کی دلیل ہے کہ صنعت نے کسی حد تک سانس لینا شروع کر دیا ہے۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا شرح سود میں یہ کمی اس بہتری کو وسعت دے پائے گی یا یہ محض محدود شعبوں تک ہی اثر انداز ہوگی۔ پاکستان کی صنعتی ساخت، توانائی کی قیمتیں، ٹیکس نظام اور درآمدی انحصار ایسے عوامل ہیں جو صرف شرح سود سے حل نہیں ہوتے، اگر ساختی اصلاحات کے بغیر محض زری نرمی پر انحصار کیا گیا تو اس کے ثمرات عارضی ثابت ہو سکتے ہیں۔

بیروزگاری کی شرح میں اضافے کی نشاندہی اس فیصلے کا ایک اہم سماجی پہلو ہے۔ بلند شرح سود کے دور میں روزگار کے مواقع سکڑ گئے، خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار زیادہ متاثر ہوئے۔ شرح سود میں کمی سے اگر قرضوں کی لاگت کم ہوتی ہے اور کاروباری سرگرمیوں میں جان آتی ہے تو روزگار کے مواقع بڑھنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ تاہم یہ امید اسی وقت حقیقت بنے گی جب سستا قرض حقیقی معیشت تک پہنچے، نہ کہ محض سرکاری قرضوں یا قیاس آرائی پر مبنی سرگرمیوں میں جذب ہو جائے۔

عالمی حالات کی دشواری، خصوصاً برآمدات کے حوالے سے، اس فیصلے پر ایک اور سوالیہ نشان ہے۔ عالمی معیشت میں سست روی، بدلتی ہوئی ٹیرف پالیسیاں اور تجارتی غیر یقینی صورتحال پاکستان جیسے ممالک کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہیں، اگر برآمدات دباؤ میں رہتی ہیں اور درآمدات میں اضافہ ہوتا ہے تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دوبارہ سر اٹھا سکتا ہے۔

اکتوبر 2025 میں 112 ملین ڈالر کا خسارہ اگرچہ حجم کے لحاظ سے بڑا نہیں، مگر یہ ایک علامت ضرور ہے کہ بیرونی توازن اب بھی نازک ہے۔ ایسے میں زری نرمی اگر درآمدی طلب میں اضافہ کرتی ہے تو زرمبادلہ پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔تاہم زرمبادلہ کے ذخائر میں حالیہ بہتری اس خدشے کو کسی حد تک کم کرتی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے پاس 14.58 ارب ڈالر اور مجموعی مایع ذخائر کا 19.61 ارب ڈالر تک پہنچنا ایک مثبت پیش رفت ہے۔ یہ ذخائر مرکزی بینک کو پالیسی سازی میں کچھ اعتماد فراہم کرتے ہیں۔ مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ذخائر کی پائیداری کا دارومدار مسلسل بیرونی آمدن، برآمدات، ترسیلات اور مالیاتی نظم و ضبط پر ہے، اگر ان محاذوں پر کمزوری آئی تو ذخائر تیزی سے گھٹ بھی سکتے ہیں۔

تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی، جو اس وقت تقریباً 57 ڈالر فی بیرل کے آس پاس ہیں، مہنگائی کے دباؤ کو کم رکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تقریباً بغیر تبدیلی کے رہنا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ تاہم عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں ہمیشہ غیر یقینی رہی ہیں اور کسی جغرافیائی یا سیاسی جھٹکے سے یہ صورتحال بدل سکتی ہے۔ اس لیے صرف موجودہ قیمتوں کو بنیاد بنا کر طویل مدتی زری نرمی کا راستہ اختیار کرنا خطرے سے خالی نہیں۔

مانیٹری پالیسی کا ایک بنیادی مقصد توقعات کو منظم کرنا بھی ہوتا ہے۔ اس فیصلے سے کاروباری طبقے اور صارفین کو یہ پیغام ملا ہے کہ مرکزی بینک معیشت کو سہارا دینے کے لیے تیار ہے، مگر ساتھ ہی یہ ذمے داری بھی بڑھ گئی ہے کہ اس نرمی کو غلط سمت میں جانے سے روکا جائے، اگر شرح سود میں کمی کے باوجود ٹیکس اصلاحات، سرکاری اخراجات میں کفایت شعاری اور برآمدات کے فروغ کے اقدامات نہیں کیے گئے تو مہنگائی دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے اور مرکزی بینک کو ایک بار پھر سخت پالیسی کی طرف جانا پڑ سکتا ہے۔

یہ فیصلہ آئی ایم ایف پروگرام کے تناظر میں بھی اہم ہے۔ ماضی میں آئی ایم ایف کی جانب سے سخت زری پالیسی پر زور دیا جاتا رہا ہے تاکہ مہنگائی اور بیرونی عدم توازن کو قابو میں رکھا جا سکے۔ اگرچہ موجودہ فیصلہ براہ راست کسی خلاف ورزی کا مظہر نہیں، مگر اس سے یہ تاثر ضرور پیدا ہو سکتا ہے کہ پاکستان نمو کے دباؤ کے تحت نرمی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس لیے حکومت اور اسٹیٹ بینک کو یہ یقین دہانی کرانا ہوگی کہ یہ نرمی محتاط، تدریجی اور ڈیٹا پر مبنی ہے، نہ کہ سیاسی یا قلیل مدتی دباؤ کا نتیجہ۔

 آخرکار اس فیصلے کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آیا یہ حقیقی معیشت میں بہتری لاتا ہے یا محض مالیاتی اشاریوں تک محدود رہتا ہے، اگر صنعتی پیداوار میں اضافہ، روزگار کے مواقع میں بہتری، سرمایہ کاری میں وسعت اور برآمدات میں نمو اس کا نتیجہ بنتی ہیں تو یہ قدم درست سمت میں شمار ہوگا، لیکن اگر اس کے نتیجے میں مہنگائی دوبارہ بڑھتی ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ وسیع ہوتا ہے اور مالیاتی نظم و ضبط مزید کمزور پڑتا ہے تو یہ فیصلہ ایک اور کھوئے ہوئے موقع کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔اس وقت پاکستان کی معیشت ایک نازک مگر امید افزا موڑ پر کھڑی ہے۔

شرح سود میں کمی نے ایک دروازہ ضرور کھولا ہے، مگر اس دروازے کے پار جانے کے لیے محض زری پالیسی کافی نہیں۔ مالیاتی اصلاحات، برآمدات پر مبنی نمو، توانائی کے شعبے میں بہتری اور ٹیکس نیٹ کی توسیع جیسے اقدامات کے بغیر یہ نرمی ایک ادھوری کہانی بن سکتی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے اپنا کردار ادا کر دیا ہے، اب گیند حکومت اور مجموعی پالیسی فریم ورک کے کورٹ میں ہے، اگر یہ تمام عناصر ہم آہنگی سے آگے بڑھیں تو 10.5 فیصد کی یہ شرح محض ایک عدد نہیں، بلکہ ایک نئے معاشی بیانیے کی بنیاد بن سکتی ہے۔

مقبول خبریں