خواہشیں، حقیقت نہیں بن سکیں گی…

ناصر الدین محمود  جمعرات 18 اپريل 2013

انتخابات کے انعقاد میں ایک مہینے سے کم کا عرصہ باقی رہ گیا ہے لیکن انتخابات ملتوی کروانے کی خواہشات ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہیں اور انتخابات کو چند دنوں یا ایک ماہ کے لیے موخر کرنے کے مطالبات جاری ہیں۔ کہیں اس تجویز کی حمایت میں یہ دلیل دی جارہی ہے کہ الیکشن کمیشن کو ہزاروں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے لیے دیا گیا وقت ناکافی تھا اور جلد بازی میں اتنا اہم کام سرانجام دینا ممکن نہیں لہٰذا انتخابات کو ایک ماہ کے لیے آگے بڑھادیا جائے تاکہ یہ عمل زیادہ بہتر اور شفاف انداز میں ہوسکے۔

عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ میں اضافے کا مطالبہ ایسے لوگ بھی کررہے ہیں جو 2011 اور 2012 میں اسمبلیوں کو تحلیل کرکے بلاتاخیر از سر نو انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔ اس وقت کی اپوزیشن کو ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا طعنہ بھی دیا کرتے تھے، جس نے انتہائی ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت وقت کی غلطیوں کا بھرپور محاسبہ توکیا لیکن جمہوری نظام کے خلاف کسی بھی غیر جمہوری سازش کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا۔

اگر الیکشن کمیشن کو واقعی وقت کی کمی کا مسئلہ درپیش ہوتا اور وہ ہزاروں امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال وقت مقررہ پر کرنے میں دشواری محسوس کرتا تو یہ ادارہ انتخابات کی تاریخ میں کچھ توسیع کی تجویز خود بھی پیش کرسکتا تھا۔ الیکشن کمیشن اس ضمن میں کسی پریشانی کا اظہار نہیں کررہا لیکن کچھ لوگ جو جمہوری نظام میں خود کو تنہا اور بے آرام محسوس کرتے ہیں اس قسم کے مطالبات کررہے ہیں۔ اس طرح کے مطالبات کرنے والوں کو یہ امر بخوبی معلوم تھا کہ اگر موجودہ اسمبلی وقت مقررہ پر تحلیل ہوئی تو اس کی زیادہ سے زیادہ مدت 16 مارچ 2013 ہوگی اور اگر اسمبلی کو اس کی آئینی مدت کے اعتبار سے آخری روز تک بھی کام کرنے دیا جائے تب بھی وہ 16 مارچ 2013 کو ازخود تحلیل ہوجائے گی۔

اس کے بعد فوری طور پر پورے انتخابی عمل کو مکمل کرکے مئی کے مہینے میں انتخابات کو بہتر صورت منعقد کروانا ہوگا کیونکہ جون کے مہینے میں سالانہ بجٹ پیش کیا جاتا ہے اور نئی آنے والی حکومت کو یقیناً اس بجٹ کی تیاری کے لیے بھی کچھ وقت دینا ضروری ہوگا۔ اس طرح یہ بات یقینی طور پر کہی جارہی تھی کہ انتخابات 2013 کا انعقاد مئی کے مہینے میں ہوجائے گا اور بعد ازاں توقعات کے عین مطابق 11 مئی 2013 انتخابات کی تاریخ مقرر کردی گئی۔ ان حقائق کے تناظر میں انتخابات میں التوا کے مطالبات تشویش پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔

اس مطالبے کے پس پشت یہی خواہش پوشیدہ ہوسکتی ہے کہ جمہوری نظام اپنی جڑیں مضبوط نہ کرسکے اور تین سال کے لیے ایک غیر آئینی عبوری حکومت قائم کردی جائے ۔ اس غیر آئینی مطالبے کو آئینی جواز فراہم کرنے کے لیے یہ دلیل بھی دی جارہی ہے کہ جب تک آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوجاتا قوم ایسے انتخابات اور اس کے نتائج کو ہرگز تسلیم نہیں کرے گی۔

مولانا طاہر القادری نے بھی ’جمہوریت نہیں ریاست بچائو‘ مہم کے دوران یہی مطالبہ کیا تھا۔ اس وقت جن جماعتوں نے مولانا کے احتجاج کی حمایت کی تھی اور جو لوگ ’’معاہدہ اسلام آباد‘‘ پر مولانا طاہر القادری کو گلے لگا کر مبارکباد پیش کررہے تھے آج خود وہی ان دونوں آرٹیکلز پر عملدرآمد کے خلاف طرح طرح کی باتیں کررہے ہیں۔ جب کہ اسمبلی اور اسمبلی سے باہر کی قابل ذکر تقریباً تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں جو اس روز میاں محمد نواز شریف کی دعوت پر ان کی رہائشگاہ پر موجود تھیں اور اس معاہدے کو غیر آئینی قرار دے رہی تھیں وہ آج بھی انتخابات کو مقررہ تاریخ پر منعقد کروانے کی پرزور حامی ہیں۔

انتخابات ملتوی کروانے کے خواہش مند عناصر جب عوامی احتجاج کے ذریعے مولانا طاہر القادری کی مدد سے یہ ہدف حاصل نہ کرسکے تو مولانا موصوف کے ذریعے الیکشن کمیشن کو متنازعہ بناکر انتخابات کے پورے عمل کو مشکوک بنانے کی سازش شروع کردی گئی۔ سپریم کورٹ میں اس کی تشکیل کو چیلنج کردیا گیا لیکن سپریم کورٹ میںحق دعویٰ ثابت کرنے میں ناکامی کے بعد ان کی جانب سے الیکشن کے روز دھرنوں کا اعلان کروا دیا گیا۔

انتخابات کو مزید کچھ وقت ٹالنے کے حق میں بڑی معصومیت سے یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے پس پشت کوئی غلط ارادہ یا سازش کارفرما نہیں۔ تاہم، معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر اس بات کو جواز بناکر الیکشن ایک بار چند دنوں کے لیے ہی سہی ملتوی ہوگئے تو پھر اس سے بڑا جواز پیدا کرکے الیکشن کو مزید چند ماہ کے لیے بھی ملتوی کروانے کا مطالبہ ہوگا اور پھر کوئی بڑا مسئلہ پیدا کرکے انتخابات کو کئی سال کے لیے ملتوی کرنے کا جواز پیدا کرلیا جائے گا۔ لہٰذا اس سازش کو پہلے ہی مرحلے میں مسترد کرکے ناکام بنادیا جائے تاکہ ایسے عناصر کو یہ پیغام دیا جاسکے کہ انتخابات کسی صورت میں بھی ملتوی نہیں کیے جائیں گے۔ غیر جمہوری سوچ کے حامل افراد اور عناصر اگر اپنے ملک کی ہی دو مثالوں کو سامنے رکھتے تو انھیں معصومانہ انداز میں ایسی بچکانہ تجویز پیش کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔

ماضی قریب کی تاریخ میں ملک کی مقبول ترین سیاسی رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت جیسے بہت ہی افسوسناک سانحے کے باوجود بھی انتخابات محض چند دنوں کے لیے ہی آگے بڑھائے گئے تھے جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اتنے عظیم سانحے کو بنیاد بناکر جب انتخابات کو بھی کئی ماہ یا کئی سال کے التوا کا جواز نہیں بنایا جاسکا تو اب ایسے بے معنی نوعیت کے اعتراضات اور خدشات کو جواز بناکر انتخابات کا التوا کس طور ممکن بنایا جاسکے گا۔

یہاں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ 1988 میں سپریم کورٹ نے جنرل ضیاء الحق کی جانب سے محمد خان جونیجو کی حکومت اور اس وقت کی اسمبلی کی برطرفی پر اپنے تاریخی فیصلے میں جنرل ضیاء الحق کے اقدام کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا تھا لیکن چونکہ حکومت اور اسمبلی کی بحالی کے ضمن میں کہا گیا تھا کہ اب چونکہ پوری قوم انتخابات کے لیے ذہنی طور پر تیار ہے اور اس کے تمام انتظامات بھی مکمل کرلیے گئے ہیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ قوم سے ایک نیا مینڈیٹ حاصل کرلیا جائے۔ اس وقت چونکہ عام انتخابات کا اعلان کیا جاچکا تھا لہٰذا ایک غیر آئینی اقدام کے ثابت ہوجانے کے باوجود بھی انتخابات کو ترجیح دی گئی تھی اور متاثرہ اسمبلی اور حکومت کو بحال نہیں کیا گیا تھا۔ آج ملک میں حالات معمول پر ہیں اس لیے وقت کی کمی اور شفافیت کا بہانہ بناکر انتخابات کو ملتوی کروانے کی کوششوں کو عوام کی پذیرائی حاصل نہیں ہورہی ہے۔

انتخابات کے بروقت انعقاد میں بیشتر سیاسی جماعتوں کے علاوہ ملک کی بیدار سول سوسائٹی، طاقت ور آزاد میڈیا، خود مختار عدلیہ کے ساتھ عسکری قیادت کا کردار قابل تعریف ہے جس نے مہم جوئی کی سابقہ روایات سے گریز کیا ہے۔ ملک کے تمام ریاستی ادارے اس حقیقت کو تسلیم کرچکے ہیں کہ اب تبدیل شدہ دنیا میں عزت اور وقار کے ساتھ آگے بڑھنے کا واحد راستہ جمہوریت کا استحکام اور اس کا تسلسل ہے۔ لہٰذا توقع کی جاسکتی ہے کہ انتخابات کو ملتوی کروانے کی خواہشیں حقیقت نہیں بن سکیں گی اور انتخابات 11 مئی 2013 کو ہی منعقد ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔