ووٹ کو عزت دو، لیکن کیسے؟

محمد عمران چوہدری  بدھ 23 مئ 2018
باسٹھ  ون ایف نے جن لوگوں کو نااہل قرار دیا ہے کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ فوٹو:انٹرنیٹ

باسٹھ ون ایف نے جن لوگوں کو نااہل قرار دیا ہے کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ فوٹو:انٹرنیٹ

قوم کو مبارک ہو، مبارک ہو، شنید ہے کہ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب قوم کے منتخب لیڈروں کو نا اہل کرنے والا خود نا اہل ہو کر ہمیشہ کےلیے ماضی کا حصہ بن جائے گا، اور چونکہ تینوں بڑی جماعتوں کے لیڈر اس سے متاثر ہورہے ہیں اس لیے غالب گمان ہے کہ کوئی خاص مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئے گی اور باسٹھ ون ایف کو غیر موثر کرنے یا اس کو آئین سے نکالنے کی ترمیم ملک کے سب سے مقدس ادارے سے بہ آسانی منظور ہوجائے گی، اور پھر میری قوم کے لیڈر قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنی ملکی اور غیر ملکی خدمات کو باآسانی جاری رکھ سکیں گے، یعنی ایک طرف ایک لیڈر پاکستان کا منسڑ ہوگا، اور دوسری طرف وہ اپنے ذاتی اخراجات چلانے کےلیے بیرون ملک ملازمت بھی کر رہا ہوگا۔

غور طلب امر یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا درست ہے کہ ایک طرف ایک لیڈر عوام کا نمائندہ ہو، اور دوسری طرف اس کا معاملہ الٹ ہو۔ جب ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ جب اسلام کے پہلے خلیفہ بنائے گئے توآپ نے اپنے ذاتی کاروبار چھوڑ دیا اور آپ کا وظیفہ بیت المال سے مقرر کیا گیا، آپ نے ذاتی کاروبا ر کو چھوڑ کر امور مملکت پر توجہ دی۔ اب سوال یہ پید ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسا کیونکر ممکن ہو سکے گا، یہ کام باسٹھ ون ایف تو کرنے میں ناکام رہا ہے۔ شاید اسی لیے اس سے یہ ذمہ داری واپس لی جارہی ہے، کیونکہ باسٹھ  ون ایف نے جن لوگوں کو نااہل قرار دیا ہے کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے، ان کا یہ گلہ ہے کہ ہم اگر صادق اور امین نہیں ہیں تو کیا باقی لوگ صادق اور امین ہیں؟

مستقبل میں اس قسم کی صورتحال سے بچنے کےلیے ہم سب کو چیف جسٹس بننا ہوگا۔ ہم سب کو محترم جناب چیف جسٹس صاحب کی طرح اپنی ذمہ داری کو جان کی پروا نہ کرتے ہوئے ادا کرنا ہوگا، خاص طور پر آنے والے الیکشن میں ہم سب کو ووٹ کو عزت دینی ہوگی اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارا ووٹ دین سے دور کسی ایسے شخص کے ہاتھ میں نہ چلا جائے جو اس کو پاکستان کےخزانے کی بنیادیں کھوکھلا کرنے کےلیے استعمال کرے یا جو اس کو سینٹ کے الیکشن میں مہنگے داموں فروخت نہ کرے۔

اور اگر کوئی بھی صادق اور امین شخص ہمارے حلقے میں نہیں ہے تو ہم کسی مستند مفتی سے رجوع کریں اور ان کی مشاورت سے کوئی فیصلہ کریں، کیونکہ ہر کلمہ گو تاجدار مدینہ، امام الانبیا، ختم الرسل، رہبر کامل، نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ صل اللہ علیہ وصلم کا غلام ہے، اور غلام کی اپنی کوئی زندگی نہیں ہوتی، غلام تو پوچھ پوچھ کر چلتا ہے؛ ہم سب کو بھی پوچھ پوچھ کر چلنا ہے۔ مستند علما اکرام سے رجوع کرنا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تھانے کچہری، بیٹے کو ملازمت کی آس میں یا پھر برادری کی وجہ سے اپنی امانت کسی کے سپرد کردیں اور پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس کے سیاہ سفید میں حصہ دار بن جائیں اور حشر کے روز ہمارے نامہ اعمال سے لندن کےفلیٹس، یا پھر شوگر ملز، یا پھر زمینوں پر قبضے، ماورائے عدالت قتل یا پھر… اور ہم کہیں کہ باری تعالی میں نے تو یہ سب کچھ نہیں کیا تھا، جواب ملے کہ آپ نے جانتے بوجھتے، ایک ایسے شخص کو ووٹ دیا تھا جو صادق اور امین نہیں تھا۔ یا یہ جواب ملے کہ آپ نے بغیر تحقیق کے ووٹ دیا تھا یا پھر جواب ملے کہ آپ نے ووٹ کو جس طرح عزت دینی تھی اس طرح نہیں دی۔ آپ نے ووٹ کو عزت دو کی خود ساختہ تعریف کرڈالی، اور پھر اس پر عمل بھی کر ڈالا، سو اس نے جوکچھ کیا اس میں آپ کو بھی حصہ ملا۔ اس لیے آئیے ہم سب مل کر ووٹ کو عزت دیں اور ابھی سے الرٹ ہو جائیں، ہمارے حلقے کے جو امیدوار ہیں ان کی تحقیق کر لیں کہ و ہ صادق اور امین ہیں کہ نہیں، اور اگرایسا کچھ نہیں ہے تو بھی علما سے مشاورت کر لیں کہ اب کیا کیا جائے۔

یہاں پر موت کی ضرورت نہیں ہے، عمل کی ضرورت ہے۔ نفس کے خلاف عمل، برادری کے خلاف عمل، ذاتی مفاد کے خلاف عمل… اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو بقول شاعر
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے مسلمانو!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔