ادب کی سماجیات اور ہمارا عہد

مبین مرزا  اتوار 27 مئ 2018
جیسے اس دور میں ادب کی سماجیات کو بجائے خود ادب سمجھ لیا گیا ہے۔ فوٹو : فائل

جیسے اس دور میں ادب کی سماجیات کو بجائے خود ادب سمجھ لیا گیا ہے۔ فوٹو : فائل

وجہ خواہ کچھ بھی ہو، لیکن یہ سچ ہے کہ ہمارے یہاں فی زمانہ ادب سے زیادہ ادب کی سماجیات پر زور صرف کیا جارہا ہے۔

بعض اوقات تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اس دور میں ادب کی سماجیات کو بجائے خود ادب سمجھ لیا گیا ہے، اور اُس نے مقصد کا درجہ اختیار کرلیا ہے۔ ویسے تو سچ یہ ہے کہ ہم تہذیب و معاشرت کے ایک عجیب دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ التباس اور مخمصے کا دور ہے۔

واضح رہے کہ یہ بات اپنے مقامی یا لسانی سیاق میں نہیں کہی گئی ہے، بلکہ ہم یہ نقشہ عالمی انسانی تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔ تہذیب و تمدن کے اعلیٰ مظاہر سے لے کر روزمرہ تک کو دیکھ لیجیے، تصورات، نظریات، معاملات، اشیا اور اقدامات کے بارے میں کچھ بھی یقین سے کہنا اِس وقت جس قدر مشکل ہوگیا ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔

اصل میں ایجادات، ترقی اور سہولتوں کی فراوانی کے اس سفر میں انسان اب ایک ایسے مرحلے سے دوچار ہے کہ جب اُس کی راہ میں آنے والے مناظر اُس کے اندر التباس کی کیفیت پیدا کررہے ہیں۔ اصل اور نقل، جھوٹ اور سچ، کھرے اور کھوٹے میں فرق اِس حد تک مشکل ہوگیا ہے کہ بہت سے معاملات میں فوری طور پر اور وثوق سے کچھ طے کرنا ممکن ہی نہیں معلوم ہوتا۔ انسان کی شناخت کرنے والی صلاحیتیں اور فیصلہ کرنے والی قوتیں بار بار مخمصے میں پڑ کر رہ جاتی ہیں۔ یہ اس جدید عہد کی صورتِ حال کا ایک نہایت اہم اور گمبھیر مسئلہ ہے۔

سچ اور جھوٹ یا کھرے اور کھوٹے کے فرق کا جو مسئلہ ہمیں درپیش ہے، وہ کوئی نئی چیز تو ہرگز نہیں ہے۔ انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ اس آویزش کا حساب زمانۂ قدیم سے رکھتی چلی آتی ہے، لیکن اِس دور میں آکر یہ مسئلہ کچھ زیادہ پیچیدہ ہوگیا ہے۔ پہلے زمانے میں سچ کی بنیاد پر کھڑے ہونے والے اور جھوٹ سے کام لینے والے دونوں ہی بہ خوبی جانتے تھے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔

دونوں اپنے دائرۂ کار کا شعور رکھتے تھے۔ دونوں کی شناخت کے الگ الگ نشانات ہوا کرتے تھے جو حقیقت کے متلاشی کو راہ سجھاتے اور شناخت کے دائرے متعین کرنے میں مدد فراہم کرتے تھے۔ اِس عہد کا مسئلہ یہ ہے کہ سچ اور جھوٹ کی سرحدیں نہ صرف آپس میں مل گئی ہیں، بلکہ دونوں کے امتیازی نشانات بھی اب وہ نہیں رہے کہ انھیں فوراً اور جداگانہ طور پر پہچان لیا جائے۔ رنگ، آواز، لہجہ، اسلوب، انداز اور قرینہ کسی رخ سے دیکھ لیجیے، دونوں کی باہمی مماثلت دھوکے میں ڈالتی ہے۔ اس التباس کا کوئی فائدہ ظاہر ہے کہ سچ یا کھرے کو نہیں پہنچتا، وہ تو جھوٹ یا کھوٹ ہی کے حصے میں آتا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپس میں خلط ملط ہوجانے کی وجہ سے آج سچ یا کھرے تک رسائی آسان بہرحال نہیں رہی ہے۔

اب مثال کے طور پر ادب اور اس کی سماجیات ہی کو دیکھ لیجیے۔ ادب اور سماج کا باہمی رشتہ ہمیشہ سے ہے اور دو طرفہ ہے، یعنی ادب نہ تو جنگل میں بیٹھ کر تخلیق ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کی معنویت کا اظہار جنگل میں ممکن ہے۔ یہ رشتہ سماج اور تخلیقی شعور کے مابین جذب و انجذاب کی سی کیفیت رکھتا ہے، اگرچہ تہ نشین رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جن مظاہر میں یہ براہِ راست اور خارجی نوعیت کا نظر آتا ہے، مثلاً مشاعرہ، شامِ افسانہ یا شبِ داستاں جیسی محفلیں، وہاں بھی اس کے مفہوم و معنیٰ اور اثرپذیری کا عمل دراصل انفرادی اور داخلی قسم کا ہوتا ہے۔ گویا ادب کی سماجیات صرف ادب کی ترسیل سے تعلق رکھتی ہے، فروغِ معنی اور اثرآفرینی میں اُس کا ایسا کچھ کردار نہیں ہوتا۔

پہلے تو ادیبوں شاعروں کے ساتھ ساتھ اس بات کو عوام کا ایک بڑا حلقہ بھی واضح طور پر سمجھتا تھا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اکیس ویں صدی تک آتے آتے صورتِ حال اس حد تک بدل گئی ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے عوام ہوں یا تخلیق کار دونوں کو اب اس قسم کے فرق و امتیاز سے کچھ خاص سروکار ہی نہیں رہا۔ آج عوام تو رہے ایک طرف خواص، یعنی اچھے خاصے درجے کے ادیب شاعر بھی اس حقیقت کو سرے سے سمجھتے ہی نہیں کہ ادب اور ادب کی سماجیات دونوں الگ چیزیں ہیں اور دونوں کے اپنے اپنے الگ دائرہ ہائے کار ہیں، اور ان میں سے کوئی ایک دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتا۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ چلیے عوام کو تو چھوڑیے، وہ اس حقیقت سے بے خبر ہوسکتے ہیں، لیکن ادیب شاعر تو اس کو واضح طور پر سمجھتے ہیں تو پھر ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ آج وہ دیدہ دانستہ اس کی نفی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

چلیے خیر، یوں ہی سہی، لیکن سوال یہ ہے، کیا کسی حقیقت کو رد کیا جاسکتا ہے؟ جی ہاں، اس کی ایک صورت ممکن ہے۔ ایسا اُس وقت ہوسکتا ہے جب کسی متبادل قوت کے ذریعے حقیقت کی ماہیت بدل دی جائے۔ ایسا کب اور کس طرح ہوسکتا ہے؟ یہ تب ہوتا ہے جب کسی چھوٹی حقیقت کے مقابل اس سے بڑی کوئی شے آئے اور رُو بہ عمل ہو۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔

نیند ایک حقیقت ہے، ایسی مسلمہ حقیقت کہ اسے موت کی بہن کہا گیا ہے۔ ٹھیک ہے، لیکن خواب نیند سے بڑی شے ہے۔ چناںچہ جب خواب رُو بہ عمل ہوتا ہے تو نیند کی حیثیت و حقیقت تبدیل ہوجاتی ہے۔ اہلِ تصوف اس مسئلے کو انفس و آفاق اور فوق اور تحت کی اصطلاحوں کے ذریعے اپنے انداز اور اپنی سطح پر سمجھتے ہیں۔ نیند کے اپنے معانی ہیں اور خواب کے اپنے۔ آفاق کی اپنی حقیقت ہے اور انفس کی اپنی۔ ہر فوق اپنے تحت سے مقتدر اور اُس پر حاوی ہوتا ہے۔ خیر، یہ گفتگو کسی اور سمت جانکلی۔ ہم بات کررہے تھے، ادب اور اُس کی سماجیات کی۔

اس عہد میں ادب کی سماجیات کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا ہے، اس درجہ وسیع کہ وہ فوق کا التباس پیدا کررہا ہے اور ادب اُس کا تحت معلوم ہوتا ہے۔ حقیقت جب کہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایک لمحے کے لیے ذرا سوچیے کہ اگر ادب نہ ہو تو ادب کی سماجیات چہ معنی؟ ایک ادیب یا شاعر کے لیے اپنے سماج میں شناخت اور شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ دراصل اس کا تخلیق کردہ ادب ہے۔ اگر ادب ہی نہ ہو تو پھر اس سماجی شناخت کے کیا معنی رہ جاتے ہیں، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں تو اب گنگا الٹی بہنے لگی ہے۔ ادب کہ جو اصل شے ہے، وہ آج پس منظر میں کہیں ثانوی درجے کی شے بناکر رکھ دیا گیا ہے اور اُس کے نام پر کھیل تماشا ہر جگہ نظر آتا ہے۔

یہ ادب کی سماجیات کا منظرنامہ نہیں تو اور کیا ہے کہ جو آئے دن ہم سنتے اور دیکھتے ہیں کہ کہیں ادب کا فیسٹیول چل رہا ہے، کہیں سیمینار ہورہا ہے اور کہیں کانفرنس ان کے ساتھ ساتھ کتابوں کی رونمائی اور ادیبوں شاعروں کی پذیرائی کے جلسے بھی روزمرہ معمول ہوچکے ہیں۔ ادب کی سماجیات کے ان مظاہر کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب اس دور میں خاص اہمیت حاصل کرگیا ہے۔

خیر، فیسٹیول تو ذرا ایک الگ چیز ہے اور ادب سے اس کا جوڑ بھی کچھ ڈھب سے نہیں بیٹھتا۔ اس لیے کہ مشاعرے اور افسانے کی محفلوں کے عوامی رنگ اور آزادانہ غیررسمی ماحول کے باوجود اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان محفلوں میں ادب ہی پیش کیا جاتا ہے۔ گویا مشاعرہ ہو یا محفلِ افسانہ— یہ اپنی سماجیاتی جہت کے باوجود ایک ادبی سرگرمی ہی کہلائے گی اور ادبی سرگرمی بہرحال ایک قدرے سنجیدہ کام ہے۔ اس کے برعکس فیسٹیول تو رونق میلے کی چیز ہوتا ہے۔ اس میں سنجیدگی کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

یہ اس کے فطری مزاج کا مسئلہ ہے۔ چناںچہ آج ہمارے یہاں جو لوگ ادب کو فیسٹیول بنا رہے ہیں، وہ یا تو ان دونوں کی فطرت کے فرق سے واقف نہیں ہیں، یا پھر وہ شعوری کوشش کررہے ہیں کہ ادب کو فیسٹیول کی سطح پر لایا جائے تاکہ وہ جو ذہن سازی اور کردار گری کی قوت رکھتا ہے، شعور کو مہمیز دیتا اور احساس کو بدلتا ہے، اُس کی یہ قوت زائل ہوجائے اور وہ محض ایک تفریحِ طبع کی چیز ہوکر رہ جائے۔ خیر، یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر قدرے تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے۔ سو، اس پر کسی اور وقت بات کرنا مناسب ہوگا۔

ادبی سیمینارز اور کانفرنسز کوئی نئی یا صرف ہمارے زمانے کی چیزیں نہیں ہیں۔ یہ سب پہلے بھی ہوتی تھیں، لیکن کسی سالانہ میلہ مویشیاں یا بسنت کے ہلے گلے کی طرح یہ کام اس تواتر سے ایک خاص وقت پر اور مخصوص انداز سے پہلے ہرگز نہیں ہوتا تھا۔ اس سے قبل ہمارے یہاں یہ کام گاہے بہ گاہے ہوا کرتا تھا۔ دوسرے یہ کہ اس کی بردباری اور متانت کو بہرحال ملحوظِ خاطر رکھا جاتا تھا۔ بردباری ور متانت کا مطلب یبوست ہرگز نہیں ہوتا۔ شگفتہ انداز، بلکہ طنز و مزاح تک میں بردباری اور متانت کا رویہ دیکھا جاسکتا ہے۔

اس لیے کہ اصل میں یہی وہ شے ہے جو اپنے کام سے آپ کی وابستگی اور اُس کے لیے پیشِ نظر مقصد کے معنی کا تعین کرتی ہے۔ مقصد بڑا ہو تو وابستگی ہمیشہ گہری بنیادوں پر قائم ہوتی ہے، بہ صورتِ دیگر معاملہ صرف میلے ٹھیلے کا ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہ بات واضح طور پر سمجھنے کی ہے کہ ادب عوام کے لیے تفریحِ طبع کا سامان رکھنے کے باوجود اپنی سرشت میں فکر و نظر سے تعلق رکھنے والی چیز ہے۔ تفریح اور شگفتگی کے باوصف یہ اپنے اندر ایک سطح سنجیدگی اور متانت کی بھی رکھتا ہے۔ یہی سطح اس کے معنی کی فکری جہت کو سامنے لاتی ہے۔ اسی کے ذریعے رویوں کی تشکیل اور ذہن سازی کا عمل ہوتا ہے۔ لہٰذا سمجھنے کی بات یہ ہے کہ فکری و نظری مقاصد کے حصول کے لیے میلے ٹھیلے کا انداز کارآمد ہوہی نہیں سکتا، وہ تو صرف وقت گزاری اور تفریح کا ذریعہ ہوتا ہے۔

اپنے آخری زمانے میں ایک موقعے پر انتظار حسین صاحب نے کہا تھا کہ یہ جو ہم اپنے دور میں ادبی کانفرنسز اور سیمینارز کی بہتات دیکھ رہے ہیں، یہ اصل میں دہشت و خوف کے اس ماحول میں ایک طرح سے ہماری تہذیبی روح کا ردِعمل ہے۔ ہمارے دور میں غیرمعمولی سطح پر پھیلے ہوئے اس ادبی سماجیات کے پورے سلسلے کو اگر اس زاویے سے دیکھا جائے تو یہ بہت بامعنی اور خوش آئند معلوم ہونے لگتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے، مگر یہاں رُک کر دیکھیے اور سوچیے، کیا واقعی ایسا ہے؟ ہم اس سوال کا جواب نفی میں دیں گے— لیکن یہ حرفِ انکار ذرا سی وضاحت چاہتا ہے۔

ابتدا میں، یعنی دس گیارہ برس پہلے جب یہ سلسلہ آغاز ہوا تھا اور ایک کے بعد دوسری جگہ کانفرنس یا سیمینار کا انعقاد ہونے لگا تو کہا جاسکتا تھا کہ اُس وقت ان کارروائیوں کے عقب میں دہشت گردی کے خلاف ہمارے تہذیبی و ادبی ردِعمل کی آرزو ہی کام کررہی تھی، لیکن بعد میں صورتِ حال خاموشی سے اور غیر محسوس انداز میں تبدیل ہوگئی۔ یہ اُس وقت ہوا جب اس کام میں کچھ اور قوتیں بھی راہ بناکر داخل ہوگئیں۔

یہ قوتیں ہمارے قومی، سماجی، تہذیبی اور ادبی نظام و اقدار سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔ ان کا منبع کہیں اور ہے اور مقاصد بھی الگ ہیں۔ ان قوتوں نے پہلے ہمارے ردِعمل کے اس سلسلے میں اپنی جگہ بنائی اور پھر اپنے اصل مقاصد کے حصول اور ایجنڈے کی تکمیل کے لیے مصروفِ کار ہوگئیں۔ چناںچہ آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان سیمینارز اور کانفرنسز کی وہ صورتِ حال ہے اور نہ ہی اُن کے وہ مسائل ہیں جو ابتدائے کار میں واضح طور پر نظر آتے تھے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اس عرصے میں ہمارے یہاں سماجی و سیاسی صورتِ حال بھی بدلی ہے۔ دہشت گردی کے روزمرہ معمولات پر نمایاں حد تک قابو پالیا گیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پہلے آپریشن ضربِ عضب اور بعد میں ردالفساد نے دہشت و خوف کے ماحول کے لیے نہ صرف ایک قومی بیانیہ تشکیل دیا اور سماجی شعور اجاگر کیا، بلکہ ملکی سطح پر نہایت نمایاں حد تک اس منظرنامے کو تبدیل بھی کیا۔ ظاہر ہے، یہ تبدیلی جوہری نوعیت کی تھی اور سمجھنا چاہیے کہ اس نوع کے کام کسی خاص مقصدی اور زمانی فریم میں آغاز ہوتے ہیں، اس فریم کی تبدیلی کے ساتھ ہی اُن کی معنویت، اہمیت اور ضرورت تبدیل ہوجاتی ہے۔

اس مسئلے کی داخلی حقیقت کو جاننے اور عصری منظرنامے میں اس صورتِ حال سے آگاہی کے بعد اب یہاں دو باتیں پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔ اوّل یہ کہ اس سلسلے کا مقصدی فریم بدل چکا ہے، دوم جیسا کہ سطورِ بالا میں کہا گیا کہ اس میں کچھ خارجی قوتیں اپنے مقاصد اور ایجنڈے کے ساتھ داخل ہوچکی ہیں۔ چناںچہ اب یہ وہ شے نہیں ہے جو پہلے ہم اسے سمجھ رہے تھے۔ اس کی داخلی کیمیا بدل چکی ہے، سو اب یہ ہماری قدروں کی پاس داری نہیں کررہا، بلکہ اس کے برعکس اثرات مرتب کررہا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ بات قطعیت کے ساتھ اور واضح طور پر جان لینی چاہیے کہ ایک سلسلہ جس میں خود ہماری تہذیبی قدریں زوال آمادہ دکھائی دیں، وہ بھلا ہمارے تہذیبی ردِعمل کا مظہر کیسے ہوسکتا ہے؟

ممکن ہے، اس کام سے وابستہ کچھ اداروں اور افراد نے اس پوری صورتِ حال کو اس نظر سے دیکھا نہ ہو اور وہ اس کی حقیقت سے واقف ہی نہ ہوں اور وہ اپنی پرانی دُھن میں مگن اب بھی اُسی طرح اپنا کام کیے جارہے ہوں۔ یہ ضروری ہے کہ اب ہم انھیں اس طرف متوجہ اور حقیقتِ حال سے آگاہ کریں۔ یہ کام دو وجوہ سے ضروری ہے۔ ایک یہ کہ اس میں ہمارے انفرادی، اجتماعی اور ملکی وسائل صرف ہورہے ہیں، دوسرے یہ کہ ہم فکری، نظری اور جذباتی انویسٹ منٹ جس شے پر کررہے ہیں، وہ اب اپنے اصل فریم ورک سے باہر نکل چکی ہے۔ اس کے صغریٰ کبریٰ بدل چکے ہیں۔ وہ اب حقیقت نہیں ہے، بلکہ التباس ہے۔ چناںچہ اس کی اصلیت کو سمجھنے کے بعد ہمیں اس التباس کا پردہ چاک کرنا اور لوگوں کو حقیقتِ حال سے آگاہ کرنا چاہیے۔

اس گفتگو کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان کانفرنسز اور سیمینارز کے ذریعے کیے گئے سب کاموں کی مکمل نفی کردی جائے جو کہ اب تک اس سلسلے میں ہوتے رہے ہیں اور کہا جائے کہ اب یہ سلسلہ ختم ہوجانا چاہیے۔ بالکل نہیں۔ مراد صرف یہ ہے کہ ہمیں آئندہ آنکھیں کھول کر اور سنبھل کر وہ اقدامات کرنے چاہییں جن کی واقعی ہمیں ضرورت ہے اور جن کا تقاضا ہمارے داخل میں بھی ہے اور وقت بھی جس کا احساس دلا رہا ہے۔ چناںچہ ہمیں سب سے پہلے اُن قوتوں کو پہچاننا چاہیے جو اِن مظاہر کے ذریعے ہماری توانائی اور جستجو کے جذبے کو خود ہمارے خلاف استعمال کرکے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ اس کے بعد اپنا قبلہ درست اور اپنے اہداف واضح کرکے پھر اپنی قوتوں کو صرف کرنا چاہیے۔ ادب کی سماجیات کا بھی بے شک معاشرے میں ایک کردار ہوتا ہے، لیکن مقدم سماجیات کو نہیں خود ادب کو ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ:

اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی

اگر نہ ہو تو مسلماں بھی کافر و زندیق

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔