پانی کا سوگ

شہلا اعجاز  جمعرات 21 جون 2018

دنیا بھر میں پانی ممالک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے، کیونکہ پانی سے نہ صرف زراعت بلکہ بجلی اور نقل و حمل کے اہم مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ انسانی زندگی میں پانی کے بغیر تصور بھی محال ہے۔ ہر سال بارشوں سے زمین میں پانی جمع ہوجاتا ہے جس کی اگر مناسب طور پر جمع یا ذخیرہ نہ کیا جائے تو یہ پانی سمندر میں بہہ کر ضایع ہوجاتا ہے اس طرح میٹھا اور پینے کے لیے استعمال ہونے والا پانی کھارا بن جاتا ہے۔

اسی لیے ڈیمز بنائے جاتے ہیں کیونکہ یہ آبادی میں سیلاب کے بہاؤ کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔ پرانے زمانے میں بھی پانی کو محفوظ کرنے کے طریقے ہیں، بڑے بڑے گڑھے کھود کر میٹھے پانی کو طویل اوقات تک کے لیے استعمال کے قابل بنایا جاتا تھا لیکن ٹیکنالوجی کی ترقی نے اب بڑے بڑے پہاڑ جیسے ڈیمزکو تخلیق کیا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں ڈیمز کی تعداد خاصی کم ہے اس طرح ہمارے پاس پانی کو ذخیرہ رکھنے اور اسے مناسب انداز میں استعمال کرنے کی کمی رہی ہے جو اب بڑھتے بڑھتے ایک گمبھیر مسئلے کی شکل اختیار کرچکی ہے۔

اگر ہم اپنے ارد گرد کے ممالک پر نظر دوڑائیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ڈیمزکی تعمیر پر کس قدر توجہ دی گئی ہے۔ 2007ء تک ایران میں چھوٹے بڑے تین سو سے زائد ڈیمز پر کام چل رہا تھا اور 2010ء تک یہ تعداد 588 ہوچکی تھی جب کہ 1950ء کے دورانیے تک ایران میں چودہ ڈیمزکام کررہے تھے۔ ایران میں ڈیمز کی تعمیر سستی بجلی کی فراہمی اور زراعت کے شعبے میں ترقی کے لیے اہم رہی ہے، اسی طرح چین میں بھی بائیس ہزار ڈیمز ہیں جو سستی بجلی پیدا کرنے کے علاوہ سیلاب کو کنٹرول کرنے، زراعت کے اہم شعبے میں کردار ادا کرتے ہیں ۔

چین میں اونچے ڈیمزکی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، اس کے بعد ترکی اور پھر جاپان کا نمبر آتا ہے جہاں اونچے ڈیمز تعمیر کیے گئے ہیں۔ ورلڈکمیشن آن ڈیم 2000ء کے مطابق دنیا بھر میں 22104 اونچی قامت کے ڈیمز ہیں جن کا بیس فی صد صرف چین میں ہے۔ چین میں چن پنگ دنیا بھر میں اونچا ترین ڈیم ہے۔ کمیشن کے مطابق 49 فٹ کی اونچائی سے بلند ڈیمز کی کیٹگری کے مطابق چین پہلے نمبر پر ہے۔ چین ہی سب سے بڑا اور طاقتور ترین اسٹیشن تین جارجز ڈیم ہے جو بہت بڑا ریزروائر ہے۔ یہ 31,900,000 ایکڑ فٹ پانی کو اسٹور رکھ سکتا ہے۔

ترکی میں تین سو سے زائد ڈیمز ہیں جب کہ مزید ڈیمز پر کام جاری ہے لیکن ترکی کے ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق نئے ڈیمز کی تعمیر سے شام اور عراق میں پانی کا بہاؤ سکڑ جائے گا اور کرزستان میں مٹی کا طوفان آنے کے خدشات بڑھ جائے گا اس کے علاوہ کچھ ڈیمز کو بند بھی کردیاگیا ہے اور اس کی وجہ پڑوسی ممالک میں پانی کا نا مناسب روک تھام ہے۔

آبی ماہرین کے مطابق پاکستان پانی کی قلت کے حوالے سے تیسرے نمبر پر آچکا ہے۔ پہلے ہی بھارت نے دریائے راوی کے کناروں کے بالا کاری کرکے 2002ء میں کنارے بلند کردیے تھے۔ پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کے تحت اعتراض کیا تھا اور ان کناروں کے معائنے کا مطالبہ بھی کیا تھا لیکن حال سب کے سامنے ہے۔ دریائے راوی کا ماضی یاد کرکے آج لوگ آہیں بھرتے ہیں۔ بات دراصل اتنی سی ہے کہ ہم آپس میں ہی ایک دوسرے سے تو تو، میں میں کرکے وقت گزار رہے ہیں جب کہ بھارت نہایت عقل مندی سے ہماری لڑائیوں کا فائدہ اٹھاکر ہمارے ملک میں آنے والے پانیوں پر بند باندھ رہا ہے۔ دریائے کابل پر ڈیم تعمیر کرنے کے لیے بھارت نے افغانستان کی جانب مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے۔

دریائے کابل سے تقریباً دو کروڑ تیس لاکھ ایکڑ فٹ سالانہ پانی آتا ہے۔ بھارت پاکستان کو پانی کی کمی کا شکار بناکر گھیر کر شکار کرنے کا خواہش مند ہے لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ پہلے کالاباغ ڈیم پر لوگوں نے سیاست کے مینار کھڑے کیے اور اب اس مینار پر خطرے کا سرخ سگنل چمک رہا ہے لیکن ہماری حکومتیں اور مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے مخالفین پر دباؤ ڈالنے کے لیے جس رویے کو اپناکر رکھا اس کا اثر اگر یہی صورتحال رہی تو ہماری آیندہ آنے والی نسلیں اپنے بڑے بڑے رہنماؤں کو بد دعائیں ہی دیںگے۔

بھاشا دیامر ڈیم کو کالاباغ ڈیم پر ہزاروں اعتراضات کے بعد 2006ء میں شروع کرنے کا اعلان تو سناگیا تھا لیکن اب تک یہ اعلان صرف بگل ہی بجاسکا ہے لیکن اسے کب اور کیسے تعمیر کیا جائے یہ بھی ایک سوال ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی رو سے پاکستان بھارت کے ہر فیصلے پر رضامندی ظاہر کردیتا ہے جب کہ مخالفت میں اسے ڈیمز کی تعمیرات کا سلسلہ ملتا ہے۔ حالانکہ تین مشرقی دریا ستلج، بیاس اور راوی بھارت کو دیے گئے تھے اور تین مغربی دریا سندھ، جہلم اور چناب پر پاکستان کا حق دیا گیا تھا لیکن اس حق کو کہاں تک نبھایا گیا اس کے علاوہ ہر برس ہونے والی بارشوں سے جمع ہونے والے قیمتی میٹھے پانیوں کو ذخیرہ کرنے کے لیے ہم سب نئے ڈیموں کی تعمیر کے منتظر ہیں۔

پانی کے ترسے کس طرح پانی کی جانب دیکھ رہے ہیں شہروں کی آبادی اور پانی کی کمی دونوں مخالف سمتوں میں تیزی سے بڑھ رہی ہے،کراچی کی صورتحال اس اعتبارسے خاصی ابتر ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں ان ڈیموں کی کمی کا سوگ کچھ اس طرح منایا جا رہا ہے کہ کچھ اضلاع میں رمضان سے قبل پانی چھوڑا گیا تھا اور تا حال پانی کے قطرے پائپ سے برآمد ہونے کو ترس گئے۔ بقول کسی معصوم کے خبروں میں بتایاگیا ہے کہ ڈیم میں صرف دس دن کا پانی موجود ہے لہٰذا اس دن تک کے لیے صرف چند ایک اضلاع پر ہی بجلی گرائی گئی ہے۔

پانی کی فراہمی اور مناسب دیکھ بھال کے لیے ادارے فعال ہیں ان کی کیا کارکردگی ہے اس میں ان کا کیا قصور کہ پانی فراہم کرنے والے منبع سوکھ رہے ہیں ہم حیران ہیں کہ ہر پانچ برس بعد ایک نئی سیاسی تحریک کے نتیجے میں نئی جماعت براجمان تو ہوجاتی ہے لیکن معذرت کے ساتھ ایوب خان کے فوجی دور کے بعد سے اب تک کس سیاسی منتخب جماعت نے پانی کے مناسب نظام اور حفاظتی تدابیر کے تحت ڈیمز بنوائے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔