نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کیا جائے

ناصر الدین محمود  منگل 7 مئ 2013

تمام سازشوں کے باوجود بھی 11 مئی 2013 کے انتخابات ملتوی نہ کرائے جا سکے اور مقررہ تاریخ پر ان کا انعقاد حتمی اور یقینی ہو چکا ہے۔ ملک کی بیشتر سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اب تک جس بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئین کے مطابق ہونے والے پورے انتخابی عمل پر اپنے غیر متزلزل اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ انتہائی قابل تعریف و باعث اطمینان ہے۔

سیاسی جماعتیں انتخابی عمل کے انعقاد کے ضمن میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے ضابطہ اخلاق پر مکمل عمل پیرا رہیں۔ انھوں نے ہر مرحلے پر الیکشن کمیشن، نگراں حکومتوں اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کیا، الیکشن کے عمل میں کوئی رخنہ نہیں ڈالا بلکہ اسے آگے بڑھایا۔

چیف آف آرمی اسٹاف کے تازہ ترین بیان کے بعد انتخابات کے بر وقت انعقاد کے حوالے سے اگر کوئی شبہات باقی تھے تو وہ بھی ختم ہو چکے ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ سیاسی جماعتیں عام انتخابات کے انعقاد میں یہی رویہ برقرار رکھیں گی اور بعد ازاں انتخابی نتائج کو بھی کھلے دل سے قبول کیا جائے گا۔ اس طرح ہم 11 مئی کے الیکشن کے ذریعے ایک ترقی پسند روشن پاکستان کی تعمیر کے لیے مستحکم بنیادیں فراہم کریں گے۔

الیکشن کے دن قوم حق رائے دہی کے اصول کے تحت آیندہ کے پانچ سال کے لیے اپنے نمایندوں کا انتخاب کرے گی اور اپنے اتحاد کی بدولت جمہوری نظام پر اعتماد کرتے ہوئے دھونس، دھمکی اور دھاندلی کی کارروائیوں کے نتیجے میں انتخابی عمل کو ناکام کرنے والے عناصر کو کسی صورت ان کے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دے گی اور انتخابی عمل کو نقصان پہنچانے والوں کے دھرنوں کو بھی مسترد کردے گی۔ ملک بھر میں جمہوری نظام کے خلاف مصروف عمل عناصر کی جانب سے کیے جانے والے دھرنوں اور اس کے ذریعے انتخابی نتائج کو متنازع بنانے والوں کی تمام سازشیں ایک مرتبہ پھر ناکامی سے دوچار ہوں گی اور قوم اپنے شعور کی بدولت جمہوری نظام کے خلاف کی جانے والی اس آخری سازش کو بھی ناکام بنا دے گی۔

جمہوری نظام کے استحکام اور انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے ملک و قوم کی خدمت پر یقین رکھنے والی چند سیاسی جماعتیں دہشت گردی کی کارروائیوں کا مسلسل شکار رہیں۔ بم دھماکوں اور دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں میں پوری انتخابی کیمپین کے دوران ملک بھر میں مختلف سیاسی جماعتوں کے متعدد امیدواروں سمیت درجنوں کارکنان جاں بحق ہوئے، سیکڑوں زخمی ہوئے، بے پناہ تباہی ہوئی اور عوام شدید خوف و ہراس کا شکار رہے۔

غم و غصہ اور رنج و الم کے اس موقعے پر متاثرہ جماعتوں نے سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے احتجاج کیا اور سوگ بھی منایا، لیکن ان سب حالات کے باوجود یہ جماعتیں سنجیدگی کے ساتھ انتخابی عمل میں شریک ہیں جب کہ بدترین شکست کے خوف سے کچھ عناصر اس پورے عمل سے نا صرف الگ تھلگ ہیں بلکہ مختلف اوقات میں دھرنوں جیسا شوشا چھوڑ کر انتخابات کے آئینی تقاضوں کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ یہاں یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ الیکشن کے دن دھرنوں کا اعلان کرنے والے ’’معاہدہ اسلام آباد‘‘ کی کھلی خلاف ورزی کرنے والی سابقہ حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کے خلاف بیان بازی سے مکمل اجتناب برت رہے ہیں۔ آج بھی ان کا سارا زور الیکشن کمیشن کو ہدف تنقید بنانے اور الیکشن کے پورے عمل کو متنازع بنانے پر مرکوز ہے۔

کچھ عناصر ایسے بھی ہیں کہ جو انتخابات میں بھرپور حصہ تو لے رہے ہیں لیکن اس کے نتائج کو اپنی کامیابی سے مشروط کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر انتخابی نتائج میں ان کی جماعت کو بڑی کامیابی حاصل نہ ہوئی تو ان کے نزدیک ایسے نتائج کسی دھاندلی کی پیداوار ہوں گے اور وہ ایسے نتائج کو ناصرف تسلیم نہیں کریں گے بلکہ اس کے خلاف ایسی تحریک چلائیں گے جو اس سے پہلے کبھی ملک میں نہیں چلائی گئی ہو گی اور قوم 1977 کی تحریک بھول جائے گی۔ تحریک چلانے کی دھمکی دینے والے سیاسی عناصر کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر انھوں نے پہلے سے ہی یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ پورے ملک میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کر لیں گے اور ناکامی ان کے خلاف خلاف سازش ہو گی تو یہ طرز عمل جمہوری کلچر کے تقاضوں کے برخلاف ہے اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔

اگر ایسے عناصر کے پاس اس طرح کے الزامات کے حق میں کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ الیکشن کمیشن یا نگراں حکومتیں کسی انداز کی دھاندلی میں ملوث ہیں یا کسی مخصوص سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچانے کا ذریعہ بن رہے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ تمام شواہد الیکشن سے قبل اعلیٰ عدلیہ اور قوم کے سامنے پیش کریں۔

بصورت دیگر بعد از انتخابات ان کی جانب سے مچائے جانے والے شور پر کوئی توجہ نہیں دے گا۔ انتخابات میں دھاندلی دو انداز میں کی جاتی ہے ایک قبل از وقت اور دوئم انتخابات کے دن، پولنگ کے دوران۔ پولنگ کے دوران ہونے والی دھاندلی کا تو پہلے سے علم نہیں ہوتا اور وہ اسی روز واضح ہوتی ہے لہٰذا اس کا پہلے سے اظہار بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن قبل از وقت ہونے والی دھاندلی چونکہ نظر آ رہی ہوتی ہے لہٰذا اس کا اظہار بھی الیکشن سے قبل کیا جانا چاہیے، اگر ایسا نہیں ہو گا تو اس طرح کی دھمکی دینے والے عناصر کو بھی قوم جمہوری عمل کے تسلسل کو نقصان پہنچانے والوں ہی میں شمار کرے گی۔

یوں بھی یہ طرز عمل جمہوری سوچ و فکر کی قطعاً عکاسی نہیں کرتا، یہ آمرانہ ذہن کی عکاسی ہے۔ آمر کے نزدیک بھی عوامی رائے کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنی رائے کو پورے معاشرے پر طاقت کے ذریعے مسلط کر دینے کا حامی ہوتا ہے۔ ویسے بھی ایسی دھمکیاں دینے والے عناصر کو آج کی تبدیل شدہ دنیا اور اس کے تقاضوں کو سمجھنا چاہیے، آج نہ تو 1977 والے حالات ہیں اور نہ ہی عوام کی مرضی کے بغیر اس جیسی کوئی تحریک کامیاب ہو سکے گی۔ دنیا بھی پاکستان میں مضبوط جمہوریت کی خواہشمند ہے اور جمہوری نظام کی بساط کو لپیٹنے والا ادارہ بھی مستحکم جمہوریت اور اس کے تسلسل کا خواہاں ہے۔ جب کہ عوام گزشتہ کئی سال کی غلط معاشی اور خارجہ پالیسیوں کی بنا پر امن و امان اور روزگار کی بدترین صورت حال سے دو چار ہیں۔

وہ اب کسی غیر منطقی تحریک کا ایندھن بننے کو ہرگز تیار نہیں ہیں۔ جمہوریت کے مخالفین گزشتہ پانچ برس جمہوری نظام کے خلاف در پردہ سازشیں کرتے رہے ہیں اور دسمبر 2012 سے تو ان عناصر نے کھل کر عملی طور پر اس نظام کے خلاف کوششیں کر کے بھی دیکھ لیں لیکن قوم کی جانب سے انھیں کوئی پذیرائی نہ مل سکی، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قوم اب جمہوریت کے خلاف کسی سازش میں حصہ دار نہیں بنے گی۔ لہٰذا وہ تمام سیاسی جماعتیں جو انتخابی عمل میں حصہ لے رہی ہیں انھیں چاہیے کہ وہ الیکشن کے دن بھی جمہوری طرز عمل کا مظاہرہ کریں اور الیکشن کے بعد ہر طرح کے انتخابی نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔