انتخابات اور احتساب
ایسی اضطراری صورتحال میں میاں فیملی کے خلاف کرپشن کی داستانوں نے پورے ملک کے عوام کو مایوس کردیا۔
ہر پانچ سال کے بعد عوام کو ایک موقع ملتا ہے کہ وہ اگلے پانچ سال کے لیے اپنے حکمران چنیں۔ پچھلے پانچ سال کے بعد 25 جولائی کو عوام کو ایک بار پھر موقع مل رہا ہے کہ وہ آنے والے پانچ سالوں کے لیے اپنے حکمران منتخب کریں۔اس حوالے سے مزید گفتگو سے پہلے ہم حکمرانوں کے حوالے سے بعض حقائق عوام کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں اگر ان حقائق کا ادراک عوام کو ہوجائے تو ملک میں ایسی جمہوریت روشناس ہوسکتی ہے جسے ہم عوامی جمہوریت کہہ سکتے ہیں۔
انتخابات کے بعد جیتنے والی پارٹی حکمران پارٹی کہلاتی ہے اور عملاً وہ شاہانہ اختیارات کی مالک ہوجاتی ہے جس ملک کے عوام اس حقیقت سے واقف ہوجاتے ہیں کہ حکمران جماعت ان کے ووٹ یعنی ان کی حمایت سے حکمران جماعت بنی ہے تو عوام حکمران جماعت پر حاوی رہتے ہیں اور حکمران جماعت کو اس حقیقت سے آگاہ کردیتے ہیں کہ وہ عوام کے ملازم ہیں، آقا نہیں ہیں جن ملکوں کے عوام کو اپنی طاقت کا احساس ہوتا ہے ان ملکوں کے حکمران بادشاہ بننے کی کوشش نہیں کرتے عوام کے تابعدار رہتے ہیں اور عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارے حکمران طبقات نے بڑی مہارت اور چالاکی سے یہ سائیکی مضبوط کردی ہے کہ حکمران عوام کے آقا ہوتے ہیں اور عوام ان کے غلام اس سائیکی کی وجہ سے ستر سال سے ہمارے حکمران ہمارے آقا بنے ہوئے ہیں اور عوام کی حیثیت ان کے غلاموں کی ہوکر رہ گئی ہے۔
ہم نے اس سے قبل بارہا اس دلخراش حقیقت کا ان ہی کالموں میں ذکر کیا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا مقبول ترین رہنما ذوالفقار علی بھٹو عوام میں کیوں اپنی مقبولیت کھوتا رہا اور اس کی انتہا یہ تھی کہ جب ضیا الحق جیسے فوجی حکمران نے بھٹو کوگرفتار کیا تو عوام میں کسی قسم کی کوئی بے چینی کوئی رد عمل پیدا نہیں ہوا۔ ضیا الحق نے قانون اور اخلاق کو پس پشت ڈال کر بھٹو کو سزائے موت سنوائی تو عوام پھر بھی ٹس سے مس نہیں ہوئے اور جب ضیا الحق نے انسانیت کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا تو پورے ملک میں ایک سناٹا تھا کسی طرف سے احتجاج کی کوئی صدا بلند نہ ہوئی یہ کوئی معمولی بات نہ تھی ۔
ہمارے مفکرین کو اس صورتحال کی تحقیق کرنا چاہیے تھا اور ملک کے سب سے مقبول ترین رہنما کے ساتھ عوام کی اس سرد مہری کے اسباب کا پتا لگاکر عوام کو اس سے آگاہ کرنا چاہیے تاکہ بے لگام مقتدر طبقات کو احساس ہو کہ وہ ظل الٰہی نہیں وہ بھی ایک عام آدمی ہیں اگر ملک کے عوام سے لا تعلق ہوکر صرف دولت بنانے کی مشین بن جائیں تو عوام کے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حالانکہ بھٹو پر کرپشن کا کوئی الزام نہ تھا بیڈ گورننس اور اپنے طبقے کی پذیرائی بھٹو کو لے ڈوبی۔
نواز شریف با اخلاق اور پولائٹ انسان ہیں لیکن ان کی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے عوامی مسائل کو نظر انداز کرکے متنازعہ مسائل پر توجہ دی اور یہ سمجھتے رہے کہ انھوں نے عوام کو مطمئن کردیا جب کہ حقیقت یہ تھی کہ بالادست طبقات ان کی حکومت سے نالاں ہوگئے تھے۔ میاں برادران کی ساری سیاست پنجاب پر مرکوز تھی، یہ بھی حقیقت تھی کہ پنجاب میں چھوٹے میاں نے کچھ کام بھی کیے لیکن عوام کے اصلی مسائل غربت، مہنگائی،بے روزگاری، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور بڑھتی پھیلتی رستوں میں کوئی کمی نہ آئی۔
ایسی اضطراری صورتحال میں میاں فیملی کے خلاف کرپشن کی داستانوں نے پورے ملک کے عوام کو مایوس کردیا اور پھر اہل سیاست بھی ان سے لا تعلق ہوگئے۔ میاں فیملی کو پورا یقین تھا کہ ملک کے عوام باہر نکلیں نہ نکلیں پنجاب کے عوام ضرور نکلیںگے۔ 25 جولائی کو ہمارے عوام کو ان ہی تلخ اور مایوس کن حالات میں اپنے ووٹ کا اسی طرح استعمال کرنا چاہیے کہ اور کچھ فائدہ ہو یا نہ ہو 70 سال بد ترین ظالمانہ استحصالی اسٹیٹس کو سے تو ملک اور ملک کے عوام کی جان چھوٹ جائے۔
ملک کا سابق وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور عوام کو باور کرایا جارہا ہے کہ وہ کرپٹ ہیں۔ ادھر ہمارے دانشوروں کا ایک حلقہ ان حقائق کو جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کی لڑائی بناکر اسیر سیاست دانوں کو مظلوم اور انھیں جیل بھیجنے والوں کو ظالم قرار دے رہا ہے اس حقیقت کو یہ طبقہ بھلارہاہے کہ 70 سال سے غلاموں کی زندگی گزارنے والے حیرانی سے دیکھ رہے ہیں کہ ''کیاایسا بھی ہوسکتا ہے۔''
سابق وزیراعظم، ان کے خاندان سے ہماری کسی قسم کی عداوت اور دشمنی نہیں ہے، اصل مسئلہ اس پورے حکمران طبقے کا ہے جو اقتدار کو اپنی جاگیر سمجھا بیٹھا ہے اور عوام کو غلاموں سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے محبوس وزیراعظم اور ان کی جماعت کو یہ مان تھا کہ ان کی جماعت ملک کی سب سے زیادہ مقبول جماعت ہے اور نواز شریف ملک کا مقبول ترین لیڈر ہے لیکن تصورات کے غبارے سے اس وقت ہوا نکل گئی جب عوام ان کی گرفتاری سے لا تعلق بنے رہے۔