آتشزدگی اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  پير 13 مئ 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

ملک میں آتشزدگی کا ایک اور واقعہ رونما ہوا، جس نے 28 انسانی جانیں لے لیں، درجنوں کو زخمی کردیا جس میں 28 ریسکیو اہلکار بھی شامل ہیں، لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی بلڈنگ میں لگنے والی اس آگ نے 3 منزلیں جلاکر راکھ کردیں، چھلانگیں لگانے اور رسی چھوٹنے سے کئی افراد ہلاک ہوئے، ایک شخص تو پائپ سے لٹکا کافی دیر تک چیختا چلاتا رہا ہے، ریسکیو ادارے اور عوام بے بسی سے یہ منظر دیکھتے رہے، بلندی پر آگ بجھانے کے آلات اور ساز و سامان نہ ہونے کی وجہ سے آگ پر 23 گھنٹوں بعد بمشکل قابو پایا گیا۔

عروس البلاد کراچی جیسے ڈیڑھ کروڑ نفوس کے لیے دو اسنارکل کی سہولیات موجود ہیں مگر دیگر بڑے شہروں میں بھی اس قسم کی کوئی اسنارکل موجود نہیں ہے، ایل ڈی اے کی بلڈنگ سے پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے کے لیے 4 ہیلی کاپٹرز بھی استعمال کیے گئے، جنھیں چھت پر موجود موبائل اور ریڈیو ٹاورز کی وجہ سے دشواری کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے پاک فوج اور سول ایوی ایشن کے4 ہیلی کاپٹرز صرف 5 افراد کو نکال سکے اور اس کارروائی کے دوران ایک شخص رسی چھوٹ جانے کی وجہ سے گر کر ہلاک ہوگیا، عمارت کے نیچے غلط پارکنگ کی وجہ سے اور اس میں ایمرجنسی خارجی راستہ نہ ہونے کی وجہ سے بھی امدادی ٹیموں کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ حادثے کے وقت ڈائریکٹر جنرل بھی عمارت میں موجود تھے اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے امدادی کاموں میں بھی شریک رہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ریسکیو کے ادارے مطلوبہ استعداد کار کے حامل نہیں ہیں، اس کے 28 اہلکار زخمی ہونے کے باوجود اس بلند عمارت کی آگ بجھانے اور پھنسے ہوئے افراد کو باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

کراچی کی ایک فیکٹری میں بھی ریسکیو ٹیم کا مثالی جذبہ دیکھنے میں آیا تھا جب مالکان نے محض اپنی فیکٹری کو بچانے کی خاطر فائر بریگیڈ کے عملہ سے غلط بیانی کی تھی کہ اندر مزدور پھنسے ہوئے ہیں جس پر اس مخدوش عمارت میں سیفٹی رولز کو بالا ئے طاق رکھتے ہوئے اور دوسروں کی جانیں بچانے کے لیے اپنی جانوں پر کھیل کر مخدوش حصہ میں داخل ہوگئی مگر اندر کوئی شخص موجود نہیں تھا، اس دوران عمارت کا یہ حصہ گرگیا جس سے انسپکٹر سمیت کئی اہلکار ملبے تلے دب کر ہلاک ہوگئے۔ شہید انسپکٹر کی بیوہ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ میرے شوہر کی وصیت تھی کہ اگر میں کام کے دوران مرجاؤں تو مجھے اسی طرح دفنا دیا جائے جہاں سرکاری اداروں اور اہلکاروں کی روایتی غفلت، لاپرواہی اور سنگدلی دیکھنے میں آتی ہے وہیں اداروں میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو اپنے فرض کو ملازمت نہیں عبادت سمجھ کر سرانجام دیتے ہیں، مگر جزا وسزا کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے گدھے گھوڑے سب برابر ہیں۔

چند سال قبل اسلام آباد کے ایک بڑے شاپنگ سینٹر میں بھی آتشزدگی کے نتیجے میں ایک درجن کے قریب افراد شعلوں کی نذر اور سو کے قریب جھلس کر زخمی ہوگئے تھے، 500 دکانوں پر مشتمل یہ 6 منزلہ عمارت راکھ کا ڈھیر بن گئی تھی، جس میں اربوں روپے کا نقصان ہوا تھا، کئی افراد بالائی منزلوں سے چھلانگیں لگانے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، اس حادثے کی وجہ بھی شارٹ سرکٹ بتائی گئی تھی، ممبئی حملوں کے ردعمل کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا تھا ۔ اسلام آباد کے شاپنگ سینٹر میں آتشزدگی کے سانحے کے دنوں میں ہی کراچی میں کراکری اور پلاسٹک کی مارکیٹ گل سینٹر جل کر خاکستر ہوئی تھی، اسی طرح کلفٹن کے کانٹی نیٹل ٹریڈر سینٹر میں بھی سیکڑوں دکانیں جل کر تباہ ہوئیں تھیں، لیکن پھنسے ہوئے لوگوں کو ہیلی کاپٹر اور اسنارکل کی مدد سے بچالیا گیا تھا، لیکن پچھلے سال کراچی اور لاہور کی فیکٹریوں میں بیک وقت لگنے والی آگ نے پورے ملک کو افسردہ کرکے رکھ دیا تھا جس میں سیکڑوں جانوں کا اتلاف ہوا تھا، درجنوں افراد اب تک لاپتہ ہیں اور درجنوں کی باقیات کو لاوارث قرار دے کر امانتاً دفن کردیا گیا ہے۔

سانحے کے وقت تو بڑی ہمدردیاں، انسانی ہمدردی کے دعوے اور قانون کی عملداری، ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے، نمائشی دورے، فوٹو سیشن کیے گئے لیکن اس کے بعد لواحقین کے خاندانوں کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا، ملزمان بھی آزاد گھوم رہے ہیں جس کے نتیجے میں قانون سے بے خوفی، عدم جوابدہی اور رشوت میں اضافے کا رجحان اور مستقبل میں ایسے سانحات کے امکانات میں اضافہ ہوا۔ اگر غفلت کے مرتکب چند افراد کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جاتا تو دوسروں کا قبلہ درست ہوجاتا اور انسانی زندگیوں کی ارزانی بھی نہ ہوتی۔ ای او بی آئی، سوشل سیکیورٹیز ڈپارٹمنٹ، الیکٹریکل انسپیکٹریٹ، سول ڈیفنس، ہیلتھ ڈپارٹمنٹ اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جیسے اداروں کی کارکردگی بہتری کے بجائے ابتری کی طرف گامزن نہ ہوتی۔

کشمیر زلزلہ کے بعد قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے نام سے جو ادارہ قائم کیا گیا تھا، کئی سال گزرنے کے باوجود نہ تو متاثرین زلزلہ کی بحالی کے کاموں میں صحیح طور پر نبرد آزما ہوسکا نہ ہی سندھ میں سیلاب زدگان کی بحالی میں اس کا کوئی فعال کردار دیکھنے میں آیا، ملک میں تعمیراتی نقص کی بناء پر کئی عمارتیں منہدم اور قیمتی انسانی جانوں کا اتلاف ہوا، ا داروں کی غفلت اور مالکان کی بے بسی اور سنگدلی سے آتشزدگی کے واقعات میں جہاں اربوں روپے کی املاک تباہ ہوئیں وہیں سیکڑوں قیمتی انسانی جانوں کو بھی لالچ اور طمع کی نذر کردیاگیا، جس کی وجہ سے متعلقہ اداروں کی کارکردگی اور عوام کی نفسیات اور کردار دونوں متاثر ہورہے ہیں۔

بلدیہ کراچی کی فیکٹری کے سانحے کے بعد اسٹیٹ لائف انشورنس کی بلڈنگ میں روزگار کے متلاشی نوجوان نے اسی نفسیاتی خوف ودباؤ کے تحت باہر لٹک کر زندگی بچانے کی کوشش کی اور اس کا باپ یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ میں اپنے بیٹے کے مقدمے سے دستبردار ہورہاہوں روز روز عدالتوں کے چکر سے میری نوکری بھی جانے والی ہے اور بعد میں یہ مقدمہ عدالت سے واپس لے لیاگیا، باپ کے پاس بارگیننگ پاور تھی نہ اس کی پشت پر کوئی ہاتھ تھا، قیاس یہی کیا جاسکتاہے کہ انتظامیہ کی خواہش اور شرائط پر ہی مقدمہ واپس لیاگیاہوگا۔

آتشزدگی کے واقعات میں عموماً شارٹ سرکٹ کو اس کا سبب قرار دیاجاتاہے اور ایسا یقیناً ہوتا بھی ہے اس کے علاوہ تخریب کاری کا الزام بھی سیاسی ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ حد تک مبنی برحقیقت لگتاہے، جنریٹر یا بوائلر پھٹنے اور بھتہ نہ دینے پر فیکٹریوں کو آگ لگادینے کے الزامات بھی سامنے آتے ہیں، جعلی انشورنس حاصل کرنے اور کرایہ داروں سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس قسم کے واقعات کا ہونا بھی بعید از قیاس نہیں ہیں، لیکن وجہ کچھ بھی ہو اس قسم کے سانحات سے حفاظت کا انتظام کرنا اور خدانخواستہ کسی حادثہ کی صورت میں اس کا ازالہ کرنے کی ذمے داری حکومت کے کاندھوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔حالیہ دنوں میں پورے ملک میں زلزلہ کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں کچھ جگہوں پر جانی ومالی نقصانات بھی ہوئے ہیں۔

کئی مرتبہ سمندری طوفانوں کا رخ بھی پاکستان کی طرف سے مڑا ہے اگر ملک میں خدانخواستہ کوئی ناگہانی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے تو متعلقہ اداروں سے کسی کارہائے نمایاں کی قطعی طورپر کوئی توقع نہیں کی جاسکتی، عوام صرف حالات کے رحم وکرم پر ہوںگے۔ ارباب اختیار واقتدار کو کم از کم یہ بات ہی سوچ لینا چاہیے کہ زلزلہ اور سونامی امیر کے محلات اور غریب کی جھونپڑی میں اس تفریق کے قائل نہیں ہے، جو تفریق انھوںنے پیدا کی ہوئی ہے، دوسروں کے لیے نہ سہی اپنے اور اپنوں کے لیے تو سوچ وبچار کا وقت تو ضرور نکالیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔