پراسرار ماحولیاتی سانحے کے بعد روسی شہر سے پرندے غائب ہوگئے

ویب ڈیسک  جمعـء 14 ستمبر 2018
روس کے زیرِ تسلط شہر کرائیمیا میں کیمیائی فیکٹری کے حادثے کے بعد پرندے غائب ہوگئے ہیں (فوٹو: بشکریہ اوڈٹی سینٹرل)

روس کے زیرِ تسلط شہر کرائیمیا میں کیمیائی فیکٹری کے حادثے کے بعد پرندے غائب ہوگئے ہیں (فوٹو: بشکریہ اوڈٹی سینٹرل)

 ماسکو: روس کے زیرِ تسلط جزیرہ نما کرائیمیا میں اگست میں ہونے والے ایک کیمیائی حادثے کے بعد اب وہاں سے پرندے غائب ہوچکے ہیں جس پر ماہرین حیران ہیں۔

یہ پراسرار حادثہ کرائیمیا کے چھوٹے سے قصبے آرمیانسک میں 23 یا 24 اگست کو پیش آیا تھا جہاں واقع کرائیمیئن ٹائٹن پلانٹ سے گیس اور کیمیکل خارج ہوا تھا۔ کیمیائی مواد خارج ہونے کے بعد فضا میں عجیب بو تھی جبکہ مکانات، سڑکوں اور سواریوں پر زنگ نما مواد دیکھا گیا۔

اس واقعے پر حکومت خاموش رہی لیکن سوشل میڈیا پر لوگوں نے تصاویر اور معلومات کے ڈھیر لگادیئے۔ سب سے پہلے پرندے وہاں سے کوچ کرگئے اور صرف کوے ہی دکھائی دیئے۔ اس کے بعد صورتحال مزید خراب ہوگئی اور لوگوں کو سانس لینے میں شدید مشکل ہونے لگی۔ لیکن اس بار بھی سرکار اور میڈیا دونوں ہی خاموش رہے۔

کرائیمیا پر قابض روسی حکومت نے بار بار عوام کو یقین دلایا کہ کوئی خطرہ نہیں اور فضائی آلودگی تباہ کن سطح سے آگے نہیں بڑھی ہے۔ اس کے بعد کیمیائی فیکٹری نے بھی اسی طرح کا بیان داغ دیا۔ پھر اچانک 4 ستمبر کو لوگ خوفزدہ ہوکر شہر چھوڑنے لگے۔ اس دوران بھی واقعے کی پراسراریت سے پردہ نہیں اٹھایا گیا جبکہ 4 ستمبر کو تین ہزار اور اگلے دن مزید ایک ہزار افراد علاقہ چھوڑ گئے۔

اس پر مقبوضہ شہر کے سربراہ سرگائی اکسیونوف نے کہا کہ گھبرانے کی بات نہیں لوگ حفاظتی اقدامات کے تحت شہر سے جارہے ہیں۔ اس کے بعد روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے خصوصی نمائندہ برائے ماحولیات نے شہر کا دورہ کیا تو وہاں سرکاری رائے عامہ بدلنے لگی۔ سرگائی اکسیونوف جو پہلے واقعے کو بے ضرر کہہ رہے تھے لیکن انہوں نے اسے خطرناک کہنا شروع کردیا۔

ابتدائی ٹیسٹ کے بعد معلوم ہوا کہ فضا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ کی غیر معمولی مقدار ہے جو نظامِ تنفس کے لیے انتہائی خطرناک ہونے کے علاوہ سرطان کی وجہ بھی بنتی ہے۔ تاہم اب تک اداروں نے اس پر کچھ نہیں کہا، بس یہ بتایا جارہا ہے کہ تھوڑا کیمیکل لیک ہوکر فضا میں شامل ہوا ہے۔

البتہ اتنے بڑے شہر سے تقریباً تمام پرندوں کا کوچ کرجانا کسی المیے سے کم نہیں جس پر عالمی ماحولیات دانوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔