سردار عثمان بزدار کو سیاسی طاقت کے لیے جنوبی پنجاب جانا ہوگا
وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی جنوبی پنجاب کے حوالے سے بے اعتناعی نا قابل فہم ہے۔
تحریک انصاف جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے بجائے پہلے بلدیاتی انتخابات کرانے کی خواہاں ہے حالانکہ ان کے انتخابی منشور کے مطابق پہلے سو دن میں جنوبی پنجاب کو صوبہ بننا تھا لیکن تحریک انصاف کے ہی ایک تھنک ٹینک کے بقول خواب فروشی بہت ہو گئی ہے، اب وہ کام کرنے چاہیے جو ہو سکیں۔جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا نعرہ بھی خواب فروشی سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ اب اس کا کوئی وجود نہیں ہے،اس لیے تحریک انصاف کی قیادت بھی اب اس کو بھو ل گئی ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت کا رویہ تو قابل فہم ہے لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی جنوبی پنجاب کے حوالے سے بے اعتناعی نا قابل فہم ہے۔وہ تو جنوبی پنجاب جانے سے ایسے بچ رہے ہیں جیسے وہاں جانا منع ہے۔ یہ درست ہے کہ سردار صاحب نے جب سے وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا ہے ان کی کیفیت بقول شاعر کچھ ایسی ہے۔
میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
مخالف تو مخالف وہ تو اپنے دوستوں کو بھی کھٹک رہے ہیں۔سازشوں کا کھیل۔ ہر وقت یہ ثابت کرنے کی کوشش کہ وہ بے اختیار وزیر اعلیٰ ہیں حالانکہ اب تو انھوں نے خود بھی کہہ دیا ہے کہ پنجاب میں صرف ایک وزیر اعلیٰ ہے۔ بنی گالہ سے بھی بار بات واضع پیغام دیا جا رہا ہے کہ پنجاب میں طاقت کا ایک ہی مرکز ہے وہ سردار عثمان بزدار ہیں۔
وفاقی حکومت بھی پنجاب میں کسی بھی کام کے لیے سردار عثمان بزدار سے رابطہ کرتی ہے۔ چند دن قبل میں وفاقی دارلحکومت میں ایک وفاقی وزیر کے پاس بیٹھا ہو ا تھا تو وہ پنجاب میں کسی کام کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب سے بات کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں نے کہا کہ پنجاب میں تو طاقت کے کئی مراکز ہیں،آپ کسی اور سے بات کر لیں۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا، باقی تمام مراکز نمائشی ہیں۔
طاقت کا ایک ہی مرکز ہے وہ سردار عثمان بزدار ہیں۔ میں نے کہا، تاثر تو یہ نہیں ہے۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے، تاثر کچھ بھی ہو لیکن حقیقت تو یہی ہے۔ میں نے کہا، طاقت کے باقی مراکز نمائشی ہو کر تاثر میں مضبوط کیوں ہیں ۔کہنے لگے کچھ سردار عثمان بزدار کی شرافت ہے۔ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے بہت سی باتیں نظر انداز کر دیتے ہیں ورنہ سب کھیل ایک حکم میں ختم ہو جائے۔ تا ہم وقت لگے کا سب کو سمجھ آجائے گی۔
سرادر عثمان بزدار کا باقی صوبوں کے وزر اء اعلیٰ سے موازنہ کیا جائے تو سندھ کے سردار مراد علی شاہ کی دوسری مدت ہے۔ پی پی پی کے مخالفین بھی یہ بات مانتے ہیں کہ قائم علی شاہ کے مقابلے میں مراد علی شاہ کی کارکردگی بہت بہتر تھی۔ انھوں نے بہت کم وقت میں بہت اچھے نتائج دئے بلکہ پی پی پی میں ایک پچھتاوا تھا کہ انھیں پہلے کیوں نہیں بنایا گیا۔ اس لیے مراد علی شاہ کو تسلسل کی ایک برتری ہے۔ ان کے لیے امیج کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں وہ کتنے بااختیار ہیںاور کہاں ان کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔
کے پی کے وزیر اعلیٰ محمود خان کو بھی سردار عثمان بزدار جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔ جس طرح پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے امیدوار کے لیے بہت سے نام سامنے آرہے تھے۔ اسی طرح کے پی میں وزارت اعلیٰ کے لیے کافی نام سامنے تھے۔ پرویز خٹک خود دوبارہ وزیر اعلیٰ بننا چاہتے تھے۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ عمران خان عاطف کو بنانا چاہتے تھے۔ ایسے میں قرعہ محمود خان کے نام نکل آیا تھا۔ ان کے بارے میں بھی یہی تاثر دیا گیا تھا کہ وہ بھی ڈمی ہوں گے۔ لیکن آہستہ آہستہ وہاں بھی یہی نظر آرہا ہے کہ محمود خان ہی مضبوط وزیر اعلیٰ ہیں۔ وزارت اعلیٰ کے منصب کا تقاضا ہی ایسا ہے کہ اس میں ڈمی بھی طاقتور بن جاتا ہے۔ بلوچستان کے سیاسی حالات باقی صوبوں سے کافی مختلف ہیں۔ وہاں طاقت کے مراکز بھی مختلف ہیں۔ اس لیے وہاں کوئی بھی وزیر اعلیٰ بن جائے طاقت کا مرکز جہاں ہے وہی رہے گا۔
اس تناظر میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو دوسرے صوبوں کے وزراء اعلیٰ سے تقابلی جائزہ میں ہمیشہ برتری رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے۔ اس کے وزیر اعلیٰ کو باقی وزرائے اعلیٰ پر ویسے ہی نفسیاتی برتری حاصل ہوتی ہے۔ مرکز کی سیاست میں بھی پنجاب کے اہم کردار کی قیادت بھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے پاس ہی ہوتی ہے۔ اس لیے پنجاب کا کمزور وزیر اعلیٰ بھی باقی صوبوں کے طاقتور وزراء اعلیٰ سے طاقتور ہی سمجھا جاتا ہے۔ ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ اگر پنجاب میں طاقتور وزیر اعلیٰ آجائے تو وہ سیاسی منظر نامہ کو اپنے گرد گھما لیتاہے۔ مرکز اور پنجاب کے سیاسی تناؤ میں پنجاب کا وزیر اعلیٰ جیت ہی جاتا ہے۔ جب کہ باقی صوبوں میں ایسا نہیں ہے۔
سردار عثمان بزدار کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کا فوری موازنہ شہباز شریف سے شروع ہوجاتا ہے۔ لوگ پنجاب میں ایک مضبوط وزیر اعلیٰ دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ میں یہاں شہباز شریف کی کارکردگی پر بحث نہیں کرنا چاہتااور ابھی سردار عثمان بزدار کا شہباز شریف کی کارکردگی سے موازنہ بھی غلط ہوگا۔ ایک طرف دس سال کی مسلسل وزارت اعلیٰ دوسری طرف ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن۔ موازنہ بنتا ہی نہیں ہے۔ لیکن لوگ موازنہ کر رہے ہیں۔ لیکن شائد یہ موازنہ کارکردگی کا نہیں بلکہ سیاسی طاقت کا ہے۔ شہباز شریف کو نواز شریف کا بھائی ہونے کا فائدہ تھا۔ سردار عثمان بزدار کو بھی تحریک انصاف کو وہی طاقت دینی ہوگی جو شہباز شریف کو میسر تھی تب ہی پنجاب کی سیاسی برتری کو قائم رکھا جا سکے گا۔
بہر حال سردار عثمان بزدار بنیادی نوعیت کے کافی کام کر رہے ہیں۔وہ اسپتالوں میں جا رہے ہیں۔ دفاتر میں چھاپے مار رہے ہیں۔ لوگوں کو ریلف دینے کے لیے نوٹس لے رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے سرکاری افسران سے دفاتر میں چٹ سسٹم ختم کرنے لیے کہا ہے۔کہنے کو یہ بہت چھوٹا کام ہے لیکن دیکھا جائے تو یہ بہت بڑا کام ہے۔ جب سرکاری افسر آپ کو ملاقات کے لیے انتظار کراتا ہے تو تضحیک اور نفسیاتی طور پرکمتری کا عمل وہیں سے شروع ہوجاتا ہے۔ جب افسر گپ مار رہا ہوں اور کہا جائے میٹنگ چل رہی ہے تو آپ کو اپنے غیر اہم ہونے کا احساس وہیں سے شروع ہو جاتا ہے۔ آپ ذہنی طور پر خود کو کم تر اور افسر کی برتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے چٹ سسٹم کا خاتمہ کوئی چھوٹا کام نہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ اپنے اس اقدام کو ردی کی ٹوکری میں نہیں جانے دیں گے، اس پر پہرہ دیں گے۔ افسرشاہی اس کی بہت مخالفت کرے گی لیکن اگر افسر شاہی کو ٹھیک کرنا ہے، عام آدمی کو معتبر کرناہے تو یہ کرنا ہو گا۔
سردار عثمان بزدارکو جس سیاسی طاقت کی تلاش ہے وہ انھیں وسطی یا شمالی پنجاب سے نہیں مل سکتی۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ انھیں یہ طاقت صرف اور صرف جنوبی پنجاب سے ہی ملے گی۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ مہینے میں دو دن ملتان میں بیٹھیں گے۔ لیکن یہ بہت کم ہے۔ انھیں سمجھنا ہوگا کہ جنوبی پنجاب ان کی حمائت میں تب تک نہیں آئے گا جب تک وہ جنوبی پنجاب کی قیادت اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے۔ انھیں جنوبی پنجاب میں وقت لگانا ہوگا۔ مہینے میں دو دن بہت نا کافی ہیںاور صرف ملتان بیٹھناکافی نہیں۔ انھیں جنوبی پنجاب کے ہر ضلعی ہیڈکواٹر میں بیٹھنا ہوگا۔ صرف ملتان نہیں بہاولپور پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ رحیم یار خان، ڈیر ہ غازی خان، راجن پور سمیت سب علاقے ان کی توجہ کے طالب ہیں۔
یہ محروم علاقے ہیں۔ یہ سیاسی طور پر بھی محروم ہیں۔یہاں سے کبھی کوئی سیاسی قیادت بھی نہیں ابھری ہے۔ سب کی الگ الگ ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد ہیں۔ ایسے میں سردار عثمان بزدار کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کے قائد بن کر ابھر سکتے ہیں لیکن اس حقیقت کو مان کر جنوبی پنجاب الگ صوبہ نہیں بن سکتا،آگے کا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔جنوبی پنجاب کو انتظامی طور پر مضبوط کرنے کے روڈ میپ پر عمل کرنا ہوگا۔ اگر وہ یہی کر گے تو تاریخ میں امر ہو جائیں گے۔
سردار عثمان بزدار کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جس قدر ہو جنوبی پنجاب میں مضبوط ہوتے جائیں گے، ویسے ویسے ہی ان کی وزارت اعلیٰ اور ان کی بطور وزیر اعلیٰ ساکھ بھی مضبوط ہوتی جائے گی۔ ان کے مخالفین اور دوستوں کے روپ میں سیاسی مخالفین سب ہی کمزور ہوتے جائیں گے۔ وہ انھیں وسطی یا شمالی پنجاب میں ہرانے کی کوشش میں خود ہار سکتے ہیں، انھیں اپنے سیاسی قلعہ میں جانا ہوگا۔ وہی وہ مضبوط ہوںگے اور باقی سب کمزور۔ جیسے جیسے جنوبی پنجاب سردار عثمان بزدار کے ساتھ کھڑا ہوتا جائے گا۔ جو لوگ انھیں ہٹا کر خود آنے کے خواب دیکھ رہے ہیں، وہ بھی تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے۔