سعودی صحافی کی لاش کے ٹکڑے کئے گئے، امریکی میڈیا کا دعویٰ

ویب ڈیسک  بدھ 17 اکتوبر 2018
ایک ترک اہلکار نے سی این این کو بتایا کہ جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر کو قتل کرکے اس کی لاش کے ٹکڑے کردیئے گئے تھے۔ فوٹو: فائل

ایک ترک اہلکار نے سی این این کو بتایا کہ جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر کو قتل کرکے اس کی لاش کے ٹکڑے کردیئے گئے تھے۔ فوٹو: فائل

 واشنگٹن: استنبول میں سعودی قونصل خانے میں لاپتہ ہوجانے والے ممتاز سعودی صحافی اور تجزیہ نگار جمال خاشقجی کو دوہفتے قبل قتل کرکے ان کی لاش کے ٹکڑے کردیئے گئے تھے اس بات کا انکشاف ایک ترک اہلکار نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے۔

اس سے قبل عین یہی دعویٰ نیویارک ٹائمز نے بھی اس وقت  کیا تھا جب جمال خاشقجی استنبول سے لاپتہ ہوگئے تھے جس پر بین الاقوامی میڈیا میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں۔ خاشقجی 2 اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں اپنی ترک منگیتر سے شادی کے کاغذات بنوانے گئے تھے، سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق وہ قونصل خانے کے اندر تو داخل ہوئے لیکن باہر نہیں آئے اور اب تک لاپتہ ہیں۔

ایک روز قبل ترک حکام نے سعودی قونصل خانے کا بغور جائزہ لیا اور 9 گھنٹے مسلسل چھان بین کی، اگرچہ انہوں نے اس کی تفصیلات نہیں بتائیں لیکن اتنا کہا ہے کہ سفارت خانے کے ایک کمرے میں تازہ رنگ وروغن کیا گیا ہے، تاہم قتل کی تصدیق کرنے والے ترک اہلکار نے سی این این کو یہ نہیں بتایا کہ لاش کے ٹکڑے کہاں گئے اور کس طرح انہیں ٹھکانے لگایا گیا ہے۔

جمال خاشقجی ماضی میں سعودی حکومتوں کے مشیر بھی رہ چکے تھے تاہم انہوں نے سعودی حکام، بادشاہت اور دیگر امور پر شدید تنقید شروع کردی، اس کے نتیجے میں انہیں کئی بڑے میڈیا اداروں سے فارغ کیا گیا اور حکومتی حلقوں کی ان سے نفرت اور بے زاری بڑھتی ہی گئی، اس کے بعد وہ واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ ہوگئے اور یہ سلسلہ ان کی گمشدگی تک جاری رہا۔

خاشقجی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر شدید تنقید کرتے رہے تھے اور یمن میں جنگ کے بعد ان کی تنقید مزید شدید ہوگئی تھی، تاہم محمد بن سلمان نے ایک سے زائد بار کہا کہ وہ خاشقجی کی گمشدگی سے قطعی لاعلم ہیں۔

دوسری جانب ترک حکام نے کہا تھا کہ جمال کے قونصل خانے جانے کے بعد کم ازکم 15 افراد قونصل خانے میں داخل ہوئے تھے۔

چند گھنٹوں بعد یہ تمام افراد قونصل خانے سے واپس چلے گئے تھے اور انہی مشکوک افراد کو جمال خاشقجی کے قتل کا ذمے دار ٹھہرایا جارہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔