منچھر جھیل تباہی کے دہانے پر

آلودہ پانی کے باعث لوگ نقل مکانی پر مجبور


گلن بھنڈ June 13, 2013
آلودہ پانی کے باعث لوگ نقل مکانی پر مجبور۔ فوٹو: فائل

ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے تاریخی منچھر جھیل کا حُسن معدوم ہونے لگا ہے۔

جھیل کے کنارے پر لوگوں کا بسیرا رہا ہے اور نہ ہی یہ جھیل اب سائیبریا کے خوب صورت پرندوں کی میزبانی کے قابل رہی ہے۔ ماضی میں اس جھیل میں مختلف اقسام کی مچھلیوں کا شکار کیا جاتا تھا۔ جھیل کے آس پاس لوگ سبزیاں کاشت کیا کر تے تھے لیکن بدقسمتی سے ایشیاء کی سب سے بڑی جھیل اس وقت تباہی کے آخری دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ محکمہ آب پاشی گذشتہ 2 برسوں سے جھیل کے کم زور بندوں کی مرمت کا کام مکمل نہیں کر پائی ہے۔

سروے کے مطابق2010؁ء میں محکمہ آب پاشی کی نا اہلی کے باعث منچھر جھیل میں زیرو پوائنٹ سے پڑنے والے شگاف کے بعد ایم سی بند ہزار فٹ تک ڈوب گیا تھا، جس کا کام ابھی تک نہیں کیا گیا اور کسی بھی وقت پانی کا دباؤ بڑھنے سے یہ بند ٹوٹ سکتا ہے۔ دو سال قبل سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے ازخود نوٹس کے باوجود ایم این وی ڈرین کے ذریعے جھیل میں بلوچستان سے سیم زدہ اور زہریلے پانی کا چھوڑا جانا تاحال جاری ہے جس سے جھیل کا مستقبل خطرے میں ہے۔ سیاسی، سماجی، مذہبی حلقوں اور مقامی رہائشیوں نے منچھر جھیل کی تباہی کا ذمے دار حکومت، محکمہ آب پاشی اور واپڈا اسکارپ کو قرار دیا ہے۔ شہری ویلفیئر ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں ڈاکٹر عبدالجبار ببر، عابد گھلو، دوست علی زؤنر، اور دیگر کا کہنا ہے کہ حکومت کی عدم توجہی کے باعث منچھر جھیل اجڑ چکی ہے، جس کو آباد کرنے کے لیے بڑی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔



اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مقامی ماہی گیر پینے کے صاف پانی کے لیے پریشان ہیں اور سہولتیں نہ ہونے کے باعث نقل مکانی کرنے سے متعلق سوچ رہے ہیں۔ جھیل کا پانی آلودگی کی وجہ سے جان داروں کے لیے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ جھیل میں آلودگی کی بڑی وجہ لاڑکانہ، دادو اور دیگر اضلاع کا آلودہ پانی ہے، جس میں سیم اور کیمیکل وغیرہ کے زہریلے اجزا ملے ہوتے ہیں، جو آر بی او ڈی کے ذریعے جھیل میں ڈالا جاتا ہے۔ آلودگی کے باعث مچھلیوں کی تعداد میں بھی نمایاں کمی آئی ہے، جس کے باعث ماہی گیروں کی معاشی حالت بھی دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ جھیل میں نہ پانی ہے اور نہ مچھلیاں، صرف خراب پانی ہے جو ہم پینے کے لیے استعمال نہیں کر سکتے۔

متعلقہ محکموں کا کہنا ہے کہ جھیل میں زہریلا پانی چھوڑنا ماضی کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ تھا، اب اس زہریلے پانی کے خاتمے کے لیے منصوبے پر کام کیا جا رہا ہے۔ سابقہ حکومت کی جانب سے منچھر جھیل پر ایک ڈسپینسری سینٹر بھی قائم کیا گیا تھا جس کا افتتاح وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کیا تھا، لیکن یہ منصوبہ اب بند پڑا ہے۔ جھیل میں آلودہ پانی کی وجہ سے یہاں کے مکین 6 کلومیٹر دور لگے فلٹر پلانٹ سے پانی بھرنے پر مجبور ہیں جب کہ فلٹر پلانٹ کا پانی بھی علاقے کی ضروریات کے لیے ناکافی ہے۔

آلودہ پانی پینے کی وجہ سے حیدرآباد سمیت دیگر علاقوں میں 58 سے زاید اموت ہو چکی ہیں، جس کے بعد جھیل کا پانی نہروں میں چھوڑنا بند کر دیا گیا ہے۔ جھیل کو بچانے کے لیے سنجیدہ اور جامع حکمت عملی اشد ضروری ہے۔ محکمہ آب پاشی کی نا اہلی نے منچھر جھیل سے نکلنے والے دانستر نالے کے دوازوں کی37 سال سے مرمت نہیں کی۔ تین دروازے زنگ آلود ہو کر ٹوٹ چکے ہیں جنہیں مٹی اور پتھر ڈال کر بند کیا گیا ہے لیکن ان دروازوں کو ابھی تک نہیں بنوایا گیا جو کسی بھی وقت 200 سے زاید دیہات ڈوبنے کا سبب بن سکتا ہے۔ واضح رہے کہ1994؁ء میں دانستر نالے کے دروازے ٹوٹ گئے تھے اور بڑی تباہی آئی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں