شاہ ہو یا گدا

سید نور اظہر جعفری  منگل 30 اکتوبر 2018

کون کس کا رزق ہے اورکیوں ہے؟ کے سلسلے میں سائنس صرف یہ جان سکی ہے کہ کون کس کا رزق ہے اور بس؟ گھوڑا گوشت کیوں نہیں کھاتا، چیتا یا بلی گھاس کیوں نہیں کھاتے ، تو کوا، چیل اور اس قبیل کے پرندے گوشت کھاتے ہیں، کبوتر، چڑیاں اور دوسرے پرندے دانہ، شتر مرغ گھاس، گھوڑا گھاس دانہ کھا کر بچے پیدا کرتا ہے اور شتر مرغ انڈے دیتا ہے کھاتا گھاس اور دانہ ہے۔

یہ معمہ صرف خالق کا ترتیب دیا ہوا ہے ،اگر مزید تفصیل میں جاؤں تو سارا کالم غذائی چارٹ بن جائے گا۔ ہاں انسان ایک ایسا سماجی جانور ہے جو سب کچھ کھا جاتا ہے یہ نوٹ بھی کھا جاتا ہے اور پلینر نوٹ بھی کھا جاتا ہے اگر ساتھ نوٹ نہ لگے ہوں۔ اب شاعر بے چارے نے تو ارشاد خداوندی کو نظم کردیا تفسیر کون کرے۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

معاملہ تفسیر پر جائے تو عجب ہوجاتا ہے۔ کتاب حکمت کی تفسیر پر بھی سیکڑوں سال سے لکھی جا رہی ہیں قیامت تک لکھی جائیں گی ۔ یہ الگ موضوع ہے۔ انسان بہت چالاک ہے کیونکہ بشر ہے تو اس نے اس شعر کو حسب حال ڈھال لیا اور درد دل کو دینے کا صیغہ بنالیا بجائے اس میں حصہ بٹانے کے مودی، ٹرمپ، نیتن یاہو، بنگلہ دیش برما کی خواتین سربراہ اور بہت سے مسلمان سربراہان جن کے نام لکھ کر میں اپنے درد دل میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا اور یہی مسئلہ مذہبی منافرت پھیلانے والے نام نہاد علما اور ان کے سیاسی مددگاروں کا ہے۔

یہ لوگ ہمارے ان ڈاکٹروں کی طرح ہیں جن کا پیٹ اپنی فیس سے نہیں بھرتا اور لیبارٹریز اور میڈیکل اسٹورز سے کمیشن طے ہے دواسازکمپنیاں الگ طعام و قیام کے ساتھ دوسرے ملکوں کی سیر کراتی ہیں یہاں یہی فوائد کشمیر کمیٹی کی سربراہی نے پہنچائے جس میں کشمیر کے علاوہ سب کچھ تھا ان کے نام پر پلاٹ پرمٹ تک سنتے ہیں اللہ بہتر جانے اور سمجھے۔

تو جب ان لوگوں سے جو معاشرے میں مختلف خدمات انجام دیتے اور عوام کو ’’درد دل‘‘ دیتے ہیں ۔ پوچھا گیا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو انھوں نے سابقہ دو حکومتوں کا حوالہ دیا کہ یہ پارٹیاں کک بیک پارٹیاں اور حکومتیں تھیں ہم نے ان سے سیکھا پہلے کم تھا ان دونوں نے اسے آرٹ بنا دیا، مشاہد اللہ جیسے ایکسپرٹس کے ذریعے۔ زرداری تو کنگ ہیں ان کی کرنسی تو لانچوں تک پر سفر کرتی تھی اور بھی بہت کچھ کہہ رہے تھے لوگ بلاول کس کا کمایا کھا رہے ہیں وغیرہ مگر کیا فائدہ عوام کھلا رہے ہیں اور وہ ان سے جئے کہلوا رہے ہیں۔ اب ان کاریگروں نے جب تک حکمرانی عوام کو لوٹنے کے لیے نہ مل جائے کام کرنے والوں کو ٹف ٹائم دینے کا سمجھوتہ کرلیا ہے۔ یعنی عوام کا بھلا نہیں ہونے دینا، ان کو ننگا بھوکا رکھنا ہے، روم کے حکمران ہیں روٹی نہیں مل رہی تو غریب عوام سے کہتے ہیں کیک کھاؤ۔ ان میں سب وہ لوگ شامل ہیں جن کو لیاری نے دھتکارا۔ صوبہ سرحد نے باہر پھینک دیا، اڈیالہ والے اور پانچ سال تک حزب اختلاف کے نام پر غلط کاموں کی حمایت کرنے والے زرداری کا حکم تھا:

کچھ نہ کہو‘ کچھ نہ سنو

عدلیہ ، فوج، حکومت، عوام ایک صفحے پر ہیں سیاسی تخریب کار اور ان کی کراکری دوسری طرف۔ گزشتہ پانچ سال پاکستان کے بدترین سال تھے، خودغرض اور ناکام عوام دشمن حکومت حزب اختلاف کی حمایت یافتہ اس سے پہلے وہ ان کے حمایت یافتہ۔

تو یہ ہیں وہ لوگ جو عوام کو درد دل دیتے ہیں، ان میں نئے آنے والے بھی ہیں جو دھرنے سے اب سیاست میں قدم رکھ رہے ہیں منزل تو ایوان ہی ہے احتجاجی دھرنا تو اک بہانہ تھا خادم ہونے کا عوام کے، فیض آباد کے لوگ بہت تنگ تھے ان سے بول نہیں سکتے تھے اسلام طاقت کے زور پر پھیلایا جا رہا تھا، کوئٹہ میں ھذا من فضل ربی کے ڈانڈے سوٹے کے بعد یہ دوسرا مظاہرہ تھا۔ یہ سب لوگ چاہتے ہیں عوام درد سے بلبلائیں اور اللہ کی اطاعت کریں اور یہ درد دل عوام کے لیے بڑھاتے جائیں، ڈار ابھی تک لندن میں گھوم رہا ہے، کالم لکھتے وقت تک اڈیالہ والے گھر تھے اور سیاست کر رہے تھے عوام کے درد دل کو بڑھانے کی، ادارے جب مضبوط ہوں گے تو یہ کہیں اور جابسیں گے ان کو صرف اللہ پوچھ سکتا ہے اور پوچھ رہا ہے اس کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔

اللہ رب العزت جب کسی کو سزا دیتے ہیں تو حالات بتاتے ہیں تاریخ سے کہ وہ لوگوں سے عقل اور قوت فیصلہ واپس لے لیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ پھر وہ سمت گنوا دیتے ہیں اور تباہ ہوجاتے ہیں ، سیاسی کعبے کے بڑے بڑے بت گر رہے ہیں مگر ارشاد ہے، رب پاک کا ، انسان ظالم ہے، جاہل ہے یہ بھی دیکھ رہے ہیں، بصارت سے محروم کچھ مفاد پرست اپنا بھتہ جاتا دیکھ کر برائی کا ساتھ دے رہے ہیں یہ بھی لفافے ہیں عوامی لفافے مگر خالی شہرت کے بھوکے چاہے عزت گنوا کر ہی ملے۔

یہ حقیقت ہے کہ جانوروں پرندوں سب میں ایک نظم و ضبط ہے جو کائنات کا حسن ہے، ایکو سسٹم کو برقرار رکھتا ہے۔ مفاد پرستی کے تالابوں سے باہر آنے والے ان مگرمچھوں کو اب پکڑنا اور ختم کرنا ہوگا، وطن دشمنوں کو سیاست کے لباس سے باہر لانا ہوگا یہ ضروری ہے ملک بچانے کا یہی ایک راستہ ہے، دہشت گردوں کے پشت پناہ جب تک تختہ دار پر نہ ہوں گے عوام مرتے رہیں گے یہ جشن مناتے رہیں گے جس طرح عوام نے موجودہ الیکشن میں فیصلہ دیا ہے وہ قابل تعریف ہے، اب سونے کا وقت نہیں ہے وحشی درندے تمہارے کھیتوں کھلیانوں میں گھس آئے تھے باہر نکال دیا مگر تاک میں ہیں ختم کرنا ہوگا اپنے اتحاد سے، عزم کرنا ہوگا ہم مسلمان ہیں اور کچھ نہیں، سب کو رد کرنا ہوگا یہ دھوکہ دیتے ہیں سب کو۔ بہکاتے ہیں ہم صرف مسلمان ہیں اور صرف پاکستانی، ہر صوبہ پاکستان ہے ہر زبان پاکستان ہے۔ اب سمجھنے کا وقت آگیا۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ہم انسان ہیں اور ہمارا درد دل ایک ہے، دکھ تکلیف ہے، دشمن ایک ہے وہ ہے جہالت جس کا یہ سوداگر فائدہ اٹھا کر ہم سب کو دنیا کے ہاتھوں بیچتے رہے قرض لے کر اپنے گھروں کو سجاتے خریدتے سنوارتے رہے اپنی اولاد لندن میں پہلے کیوں نہیں تھا خاندان لندن میں عوام کو لوٹا، بیچا اور اپنی اولاد کو لندن میں رکھا۔ سب کھاتے کھلیں گے، کس جانور نے کیا کھایا، عوام کو پانی اور کیمیکل ملا دودھ وزیر اعظم ہاؤس میں بھینسیں پل رہی ہیں۔ عوام خیراتی اسپتالوں میں آپ لندن میں بال لگوا رہے ہیں۔ جنگل کا قانون، جنگل میں اور آبادی کا قانون آبادی میں یہ عوام کا فیصلہ ہے اور جنگلی درندوں کو جنگل جانا پڑے گا اڈیالہ ہو یا اٹک۔

دو روٹی کافی تھی صبر کرلیتے اب قبر کا بھی حساب دینا ہے وہاں کوئی تقریر نہیں چلے گی عزت صرف عمل کو ملے گی۔ جس نے ظالم کا ساتھ دیا اس کا حساب بھی اس کے ساتھ چاہے شاہ ہو یا گدا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔