تھامس صاحب بکری بن گئے

محمد عثمان جامعی  اتوار 16 دسمبر 2018
اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چونتیس سالہ تھامس نے ایک خصوصی ملبوس تیار کروایا۔ فوٹو: فائل

اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چونتیس سالہ تھامس نے ایک خصوصی ملبوس تیار کروایا۔ فوٹو: فائل

ایک صاحب ہیںThomas Thwaites، برطانیہ کے باسی اور پیشے کے اعتبار سے ڈیزائنر، مگر وہ فیشن ڈیزائنریا انٹریئرڈیزائنر وغیرہ نہیں، بل کہ گھریلو استعمال کے آلات کو نئی شکل دیتے ہیں۔

جب اپنے روزوشب سے تھامس صاحب کی طبعیت اوبھ گئی، تو انھوں نے شدید بے زاری کی حالت میں ایک فیصلہ کیا، اور فیصلہ یہ تھا کہ ’’میں بکری بن کر کچھ دن گزاروں گا۔‘‘ بی بی سی ریڈیو 4 کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے اپنے اس تجربے کو اُکتاہٹ کے باعث ہونے والے ذہنی دباؤ کا نتیجہ قرار دیا۔ وہ اپنے اس تجربے پر ایک کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بچپن میں وہ سوچا کرتے تھے کہ ’’اگر میں بِلی ہوتا تو مجھے اسکول نہ جانا پڑتا۔‘‘ یعنی موصوف کا مزاج بچپن سے ’’جَنورانہ‘‘ ہے۔

اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چونتیس سالہ تھامس نے ایک خصوصی ملبوس تیار کروایا، جس کی مدد سے وہ چاروں ہاتھ پیروں سے چلنے کے قابل ہوسکے۔ بکری کے مزاج، نفسیات، ضروریاتغرض یہ کہ اس جانور سے متعلق تمام تر معاملات پر تحقیق کرنے کے بعد موصوف کوہِ الپس کے ایک چرواہے سے ملے اور اس سے درخواست کی کہ انھیں اپنے ریوڑ میں شامل کرلے۔ آخرکار وہ بکریوں کے ساتھ انھیں کی طرح دن گزارتے اور چرتے رہے۔

تھامس کا یہ بھی کہنا ہے کہ بکری بننے سے پہلے انھوں نے ہاتھی بننے کا سوچا تھا، لیکن پھر انھوں نے اپنے خواب کا حجم کم کردیا اور ہاتھی کے بہ جائے بکری بننے پر اکتفا کیا۔ ان کے ارادے کی پختگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پوری طرح بکری بننے کے لیے انھوں نے مصنوعی کُھر بھی بنوا کر لگوائے۔ یہاں تک کہ ڈاکٹروں کی مدد سے انھوں نے اپنے معدے کو بھی گھاس کھانے کے قابل بنالیا۔ بکریوں میں ان جیسا بن کر تین دن گزارنے کے بعد تھامس صاحب دوبارہ انسان بن چکے ہیں۔

تھامس صاحب بچپن میں بلی بننا چاہتے تھے، زندگی کی یکسانیت سے بے زار ہوئے تو ہاتھی بننے کا سوچا، اور آخرکار بکری بن گئے۔ ہمارے خیال میں یہ اس لیے ہوا کہ بکری بننا سب سے زیادہ آسان ہے، ذرا سا خوف بھی کسی کو بکری بنانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ انھوں نے بکری بننے کے لیے بلاوجہ کشٹ جھیلے، بکری بننے کے لیے تو صرف منمنا دینا ہی بہت ہے۔ تھامس صاحب جسے اپنا کارنامہ سمجھ رہے ہیں وہ تو بہت سے لوگوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہے۔ بہت سے لوگ دو پیروں پر چلتے ہوئے بھی ایک ہی دن میں کئی کئی جانوروں کے روپ دھار لیتے ہیں، اور اس ’’روپ دھارن‘‘ کے پیچھے بے زاری اور اکتاہٹ نہیں صرف ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی صاحب باہر شیر ہوتے ہیں، تو گھر میں داخل ہوتے ہی بکری بن جاتے ہیں، بعض حضرات گھر میں دہاڑتے اور باہر منمناتے ہیں۔

ایسے بھی ہیں جو کام پڑے تو بلی بن کر میاؤں میاؤں کرنے لگتے ہیں، اور کام نکلتے ہی طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ ان کی بھی کمی نہیں جو پہلے بھیڑیا بنتے ہیں، پھر بھیڑ کی کھالپہن کر سامنے آتے ہیں، کچھ حضرات اونٹ بن جاتے ہیں، جنھیں دیکھ کر سب سوچتے رہتے ہیں کہ جانے اب یہ کس کروٹ بیٹھں گے، اور سفید ہاتھی بن جانے اورگرگٹ بن کر رنگ بدلنے والے تو بے شمار ہیں۔

تھامس صاحب تو صرف تین روز تک بکری بنے رہے، لیکن جن کا تذکرہ ہم نے کیا ہے وہ عمر بھر حالات کے مطابق کوئی نہ کوئی جانور بنے رہتے ہیں۔بننا ہی تھا تو تھامس بھیا زندگی بھر کے لیے بکری بن جاتے، گھر، کپڑے، نوکری سمیتہر انسانی ضرورت سے بے نیاز ہوکر ریوڑوں کے ساتھ چرتے رہتے، انھیں یوں بکری بنے خوش باش زندگی کرتے دیکھ کر معاشی حالات کے ستائے کتنے ہی انسانوں کو بکری بننے کی ترغیب ہوتی اور وہ ’’یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی دل کو لگتی ہے بات بکری کی‘‘ کہتے ہوئے تھامس صاحب کے ریوڑ میں شامل ہوجاتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔