خارجہ پالیسی کی نئی جہتیں

ناصر الدین محمود  اتوار 28 جولائی 2013

پاکستانی قوم نے چارفوجی آمریتوں کا مقابلہ کیا اور ہر بار بے مثال جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے ذریعے فوجی آمروں کو پسپائی پر مجبورکیا کہ ہر بار فوجی آمروں کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور جمہوریت پسندوں کو کامیابی نصیب ہوئی۔طویل آمریتوں کے دنوں میں عوام نے ایک جانب جمہوریت کی بحالی کے لیے قابل رشک اور زبردست تحریکیں چلائیں تو دوسری جانب انھوںنے ان آمریتوں کی حمایت کرنے والے ممالک سے بھی یہ پرزور مطالبہ کیا کہ وہ فوجی آمریت کی حمایت کرکے ہمارے ملک کے اندرونی سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔

انھیں اگر حمایت کرنے کا اخلاقی فریضہ انجام دینا ہی ہے تو ملک میں جمہوریت کی بحالی اور قیام کے لیے کی جانے والی سیاسی جدوجہد کی حمایت کی جائے تاکہ ہمارے ملک میں بھی دنیا کے دیگر مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کی طرح پارلیمنٹ کی بالادستی ہو ،عدلیہ مکمل خود مختار ہو ، میڈیا آزاد ہو اور انتظامیہ پوری دیانت داری کے ساتھ عوام کی خدمت کا قومی فریضہ انجام دے سکے۔گویا ہم نے دور آمریت میں ساری دنیا کے سامنے ایک اصولی موقف اختیار کیا جس سے عالمی سطح پر کسی نے کوئی اختلاف نہیں کیا بلکہ اصولی طور پر اُسے درست تسلیم کیا گیا۔

آج کم و بیش اسی نوعیت کی صورتحال افغانستان کو درپیش ہے جہاں درجنوں ملک اپنے اثرات اور مفادات کے لیے سرگرم ہیں ۔اس حوالے سے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کہ جنھوں نے جب پہلی مرتبہ وزارت خارجہ کا تفصیلی دورہ کیا اور سیکریٹری خارجہ سمیت اعلیٰ سرکاری افسران کے علاوہ وہاں موجود مشیر امور خارجہ، وزیر اعظم کے معاون خصوصی اورکئی وفاقی وزراء سے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں اپنے اس موقف کو دہرایا کہ پاکستان ،افغانستان میں کسی گروپ کی حمایت نہیں کرے گا اور نہ ہی افغانستان کے اندرونی معاملات میں کسی قسم کی کوئی مداخلت کرے گا۔اس اعلان کے پس پشت درحقیقت اس اصولی موقف کی اخلاقی قوت اور جواز کی طاقت موجود تھی کہ جو پاکستان کے عوام سالہا سال تک بیرونی دنیا سے اپنے لیے کرتے رہے ہیں۔

وزیر اعظم کا خطاب کئی اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل تھا انھوں نے آج کی تبدیل شدہ دنیا میں جمہوری پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بنیادی نکات پر اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے پڑوسی ممالک اور عالمی طاقتوں کے ساتھ دوستانہ اور برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور بہت ہی واضح الفاظ میں ساری دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ اب پاکستان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ نہ خود کسی ملک میں مداخلت کریں گے اور نہ ہی کسی اور ملک کو اپنے اندرونی امور میں مداخلت کی اجازت دیں گے۔اس ضمن میں انھوں نے وزارت خارجہ کو بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے جامع حکمت عملی مرتب کرنے کی بھی ہدایت کی تاکہ مستقبل میں محاذآرائی کے بجائے مذاکرات کے ذریعہ تمام اختلافات اور تنازعات حل کیے جاسکیں۔

وزیر اعظم کے اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی میں ایشیا اور بالخصوص جنوبی ایشیا کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہے گی۔ اسی لیے موجودہ حکومت معاشی ڈپلومیسی کو کلیدی حیثیت کا حاصل قرار دیتی ہے اور تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ پر امن بقائے باہمی کے اصول کی بنیاد پر معیشت اور تجارت کو فروغ دینے کی خواہش مند ہے ۔اس حقیقت سے اختلاف مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے کہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ بہترین تعلقات کے ذریعے اس پورے خطے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو شکست دی جاسکتی ہے جو آج کم از کم خود پاکستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔اس مسئلے کے حل ہونے کا براہ راست فائدہ معیشت اور تجارت کو پہنچے گا اور معاشی سرگرمیوں میں اضافے کے ساتھ ہی ملک میں غربت ،مہنگائی اور بے روز گاری کے عفریت کو قابو میں لایا جا سکے گا۔ ایک ایسے موقعے پر کہ جب اگلے برس افغانستان سے اتحادی ممالک اور امریکا کی افواج کا بڑی حد تک انخلاء ہونے کو ہے پاکستانی حکومت کی جانب سے حقیقت پسندانہ تجزیے کے ساتھ مسائل کے حل کی تدابیر تجویز کی گئی ہیں جو بجائے خود ایک لائق تحسین اقدام ہے۔

نئی جمہوری حکومت کی جانب سے چین کے ساتھ توانائی ،مواصلات اور تجارت کے کئی معاہدوں کے بعد وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے خطے کے دیگر انتہائی اہم ممالک بھارت اور افغانستان کے حوالے سے خارجہ پالیسی کے جو اہم نکات متعین کیے گئے ہیں ان کے باعث بھارت اور افغانستان سمیت خطے کے تمام ممالک کے ساتھ مستقل بنیادوں پر ترقی کی راہیں کھل سکیں گی۔موجودہ حکومت کی جانب سے خارجہ پالیسی کے حوالے سے پیش کی گئی تجاویز کے نتیجے میں چین کے ساتھ دو طرفہ تعاون اور تجارتی روابط کو مزید مستحکم کرنے سمیت تمام پڑوسی ملکوں کے ساتھ سرگرم اقتصادی و تجارتی تعلقات کی حکمت عملی کی بدولت ایڈ کے بجائے ٹریڈ کو فروغ حاصل ہوگا اور ملک میں روز گار کے بے پناہ نئے مواقعے پیدا ہونگے۔

وزیر اعظم کی جانب سے نئی حکومت کی خارجہ پالیسی کے بنیادی نکات کی روشنی میں وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ نے اپنے دورہ افغانستان میں افغان وزیر خارجہ سے ملاقات کی اور افغان صدر کو وزیر اعظم پاکستان کا پیغام بھی پہنچایا ۔افغانستان میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے ساری دنیا پر یہ واضح کردیا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت پر امن اور مستحکم افغانستان کی خواہشمند ہے اور اس سلسلہ میں وہ اپنا بھر پور کردار ادا کرے گی اور اگرضرورت پڑی تو پاکستانی حکومت طالبان سے مذاکرات اور افغانستان میں قیام امن کے لیے کیے جانے والے معاہدے میں مدد کرے گی ۔مزید یہ کہ پاکستان ، افغانستان کی آزادی کا احترام کرتا ہے لہٰذا اپنی جانب سے اس پر اپنا پسندیدہ حل مسلط نہیں کیا جائے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ خطہ کے دیگر ممالک سے بھی یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بھی افغانستان کے اندرونی سیاسی معاملات میں مداخلت سے باز رہیں۔ نہ کسی گروپ کی بے جاحمایت کی جائے اور نہ کسی گروپ کی بے جا مخالفت کی جائے ۔مشیر خارجہ نے پاکستان اور افغانستان کے مابین مزید تعلقات کو فروغ دینے کی پاکستانی خواہش کا اظہار کیا اور دونوں برادر ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت میں حائل تمام رکاوٹوںکو دور کرنے کے عزم کا اظہار کیا ۔ان اقدامات سے اس امر کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت کو یہ پختہ یقین ہے کہ مستحکم افغانستان ناصرف عالمی امن بلکہ خود پاکستان کے بھی وسیع تر قومی مفاد میں ہے۔

موجودہ جمہوری حکومت ملک کے اندر اور عالمی سطح پر جو اقدامات اور طرز عمل اختیار کررہی ہے اس سے اس فکر کو تقویت مل رہی ہے کہ ایک سنجیدہ اور پختہ کار سیاسی قیادت اب پاکستان کو میسر آگئی ہے جو بین الااقوامی سطح پر بھی اپنے اصولی موقف پر قائم ہے۔ خارجہ پالیسی میں ان بنیادی تبدیلیوں کے بعد اب یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ جب ہم دوسری قوموں کی آزادی کا احترام کریں گے تو دوسری اقوام بھی ہماری آزادی اور خود مختاری کا احترام کریں گی۔آج کی مہذب جمہوری اور ترقی یافتہ دنیا میں آگے بڑھنے کے یہی مہذب اطوار ہیں جو اب اختیار کیے جارہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔