بہزاد لکھنوی

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 21 فروری 2019

بہزاد لکھنوی کا ہمارے نعت گو شعرا میں ایک نمایاں مقام ہے۔ نعت گوئی کی اعلیٰ استعداد کے ساتھ انھیں خوش الحانی کی نعمت بھی عطا ہوئی تھی۔ ڈاکٹر عاصی کرنالی کے بقول ان کے ہاں تغزل کا انداز ہے جس میں ڈھل کر نعت اعجاز بن جاتی ہے۔

ریڈیو پاکستان کی آواز لائبریری کے شعر و ادب کے شعبے میں بہزاد لکھنوی کی شمیم رحمانی سے ایک طویل گفتگو کا ریکارڈ محفوظ ہے۔ بہزاد صاحب نے پہلے تو اپنی ایک نعت کے یہ شعر سنائے:

مدینے جاؤ تو اتنا پیام کہہ دینا

کہ ہند میں ہے تپاں اک غلام کہہ دینا

جو تجھ سے پوچھیں کہ وہ کون شخص ہے بتلا

تو اُن سے چپکے سے بہزاد نام کہہ دینا

پھر یہ بتایا کہ ان کی شاعری کی ابتدا کیسے ہوئی اور انھوں نے اپنا تخلص بہزاد کیسے رکھا۔ کہنے لگے:

’’ میرا نام سردار حسین تھا۔ سردار مجھے پسند نہیں تھا اور میں اسے بدلنا چاہتا تھا۔ مجھے اسکول کے دنوں ہی میں طلسم ہوش ربا پڑھنے کا موقع ملا۔ اس میں ایک جادوگرکا نام بہزاد تھا۔ یہ نام مجھے پسند آیا اور میں نے سردارکی جگہ بہزاد اپنا نام رکھ لیا۔ پھر یہی میرا تخلص ہوگیا۔ شاعری کا ذوق بھی مجھے طلسم ہوش ربا پڑھنے کے بعد محسوس ہوا۔ میں نے بارہ برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کیا اور یہ اسی طلسم ہوش ربا کا فیضان تھا۔ اس داستان میں جو غزلیں تھیں وہ میں پڑھا کرتا تھا۔ ان غزلوں کو پڑھنے کے بعد ظاہر ہے معنی اور مطلب تو سمجھ میں نہیں آتے تھے لیکن ہجر اور وصل کے معنی سمجھنے لگا تھا یعنی یہ کہ ہجر میں رونا ہوتا ہے، آہ و زاری ہوتی ہے اور وصل میں ایک کیف ہوتا ہے، لذت ہوتی ہے۔ ہجر میں تارے گن گن کر سحر کرنا ضروری ہے ۔ چنانچہ میں شعر کہہ لیا کرتا تھا اور موزوں کہتا تھا۔‘‘

بہزاد لکھنوی کی عمرکوئی تیرہ چودہ سال ہو گی کہ ان کے محلے میں ایک مشاعرہ ہوا۔ یہ وہاں پہنچ گئے اور شاعروں کی صف میں جا کر بیٹھ گئے۔ جب شمع گردش کرتے کرتے ان کے سامنے پہنچی تو انھوں نے اپنی غزل سنائی شروع کر دی۔کہتے ہیں:

’’یقین مانیے میری آواز کانپ رہی تھی لیکن اتنا کامیاب ترنم تھا اور اشعار اتنے برجستہ تھے کہ شعرا نے اٹھ کر مجھے گلے لگا لیا۔‘‘

اس دورکی شاعری کا ذکر کرتے ہوئے بہزاد صاحب کہنے لگے کہ

لکھنو میں 80 فیصد شاعر تھے یعنی یہ کہ نام آپ کو کم معلوم تخلص آپ کو زیادہ معلوم ہوتا۔ اس لیے حضرات تخلص ہی کے نام سے پکارے جاتے تھے اور ایک شغل تھا کہ ہر ہفتے کی رات کو وہ اپنا وقت مشاعرے میں کاٹا کرتے تھے ۔ اساتذہ جو تھے وہ اپنا حلقہ وسیع رکھتے۔ عام طور پر جو محفلیں تھیں ان میں بھی شاعری کا چرچا رہتا کہ فلاں شاعر نے فلاں مصرعہ خوب کہا، فلاں لفظ یوں رکھا۔ یہ ایک عام موضوع تھا جس پر لوگ گفتگوکیا کرتے تھے۔ چنانچہ اس دور میں شاعر نہ ہونا تعجب تھا۔ مشاعروں کا یہ عالم تھا کہ انتہائی تکریم ہوتی تھی۔ جو انجمن کے مشاعرے ہوتے، ان میں ظاہر ہے ہر شاعر بلا لیا جاتا اور وہ پڑھتا تھا۔ داد میں اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ کوئی طنزیہ پہلو نہ ہونے پائے۔ آپ داد دینے پر بھی مجبور تھے، چاہے شعر اچھا ہو یا برا ورنہ کہا جاتا تھا کہ جناب آپ بخل سے کام لے رہے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ شاعر کو لوگ داد دیتے تھے اور دل کھول کر دیتے تھے خواہ دشمن ہو، خواہ دوست۔ یہ ایسی چیز تھی کہ شاعر مشاعرے میں جاتا تھا ہی داد کے لالچ میں اور جب وہ اس کو سیر ہوکر مل جاتی تو بڑا مسرور واپس آتا۔

شمیم رحمانی نے جناب بہزاد سے پوچھا:

’’آپ ریڈیو سے کیسے وابستہ ہوئے؟‘‘

بہزاد صاحب نے جواب دیا:

اللہ جناب ذوالفقار علی بخاری کو جزا دے۔ وہ عجیب انسان تھے۔ میں ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہوں۔ انھوں نے دلی میں آل انڈیا ریڈیو میں شرفا کو بھر لیا۔ کسی شریف کو یہ پریشان نہیں دیکھ سکتے تھے۔ انھوں نے تعلیم کا بھی خیال نہیں کیا۔ جس کو چاہا بھرا اور اس دور تک ان کے لائے ہوئے آدمی مشاہیر میں ہیں۔ چنانچہ ان کی نظر مجھ پر پڑی اور انھوں نے مجھ کو بلایا اور کہا کہ بہزاد صاحب آپ ریڈیو میں ملازمت کر لیجیے۔ غالباً ایک سو بیس روپیہ ماہوار پر انھوں نے مجھے سروس دی اور انھوں نے ہی مجھے ٹرینڈ کیا۔ اس لیے کہ میں یہ ڈرامے، فیچر لکھنا نہیں جانتا تھا۔ ان کی ٹریننگ تھی کہ میں نے ترقی کی اور میری شہرت بڑھنا شروع ہوئی۔ ہر جگہ سے میرے نام کی آواز آتی تھی۔ خصوصیت کے ساتھ یہ نعت جو میں پڑھتا تھا ہر جمعہ کو اس کا بڑا اثر ہوتا تھا۔ مسلمانوں کا عالم یہ تھا کہ وہ دیوانے ہو جاتے تھے۔ جمعہ کے دن کوئی گھر ایسا نہ تھا جہاں ریڈیو ٹیون نہ کیا جاتا ہو۔ میرے یہاں پاکستان آنے کے بعد بخاری صاحب نے پھر کرم فرمایا۔ انھوں نے مجھ سے کہا:

’’ بہزاد صاحب آپ کہاں جائیں گے، آپ کے بچے وغیرہ یہیں ہیں۔ ‘‘

چنانچہ میں ریڈیو پاکستان میں ملازم ہوگیا۔ یہاں آکے میں نعتیں پڑھنے لگا، ہفتہ میں پانچ نعتیں پڑھتا تھا۔ اس وقت میری کیفیت بدلی۔ کچھ اللہ کا کرم تھا کہ مجھے لگن مدینہ طیبہ کی پیدا ہوئی اور میں نے نعت کہنا شروع کی۔ نعت گوئی میں جانے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ غزل کہنے سے نعت کہنا کہیں زیادہ مشکل ہے۔ نعت گوئی میں تو معاملہ یہ ہے کہ بڑا مودب ہوکر کہنا پڑتا ہے۔ نعت گوئی کا میدان بہت بڑا ہے حالانکہ مضامین وہی ہیں لیکن یہ بڑا وسیع میدان ہے۔ اس میں جذبہ بھی ہے کیفیت بھی ہے، نسبت بھی ہے۔ بڑا رنگ ہے۔ نعت میں ایک چیز تو یہ ہے کہ سرکارؐ کا نام نامی لے کر ان کی ثنا۔ یہ جذبے کی کیفیت ہے۔ ایک دوسرا گوشہ ہے کنایہ کا کہ جس کی تعریف کی جائے اس کا نام نامی نہ آئے بلکہ وہ تعریف اتنی منطبق ہو کہ معلوم ہو فلاں کی تعریف ہے۔‘‘

ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق ’’اردو کی نعتیہ شاعری‘‘ میں فرماتے ہیں کہ

بہزاد کے کلام میں صرف جذبات کی ترجمانی ہی نہیں پائی جاتی بلکہ ان کی والہانہ عقیدت مندی جہاں انھیں کیفیات کے اظہارکے لیے ابھارتی ہے وہاں حقیقت کا سررشتہ بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہیں پاتا۔ عقیدت اور حقیقت دونوں کی آمیزش نے حضورؐکے حقیقی اوصاف کو ہمیشہ مضامین کی زینت بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں وہ بے اعتدالیاں نظر نہیں آتیں جنھیں عشق اور محبت کے مذہب میں نعت گو شعرا نے روا اور جائز قرار دیا ہے۔

وجد آتا ہے مجھے بہزاد جب پڑھتا ہوں نعت

خود بہ خود وہ لب پہ آتا ہے جو میرے دل میں ہے

ڈاکٹر رفیع الدین لکھتے ہیں:

’’غرض یہ کہ بااعتبار مضامین اور بااعتبار زبان حضرت بہزاد کا نعتیہ کلام محاسن سے خالی نہیں ہے۔ زبان نہایت صاف و شستہ اور بحریں اکثر چھوٹی اور مترنم ہوتی ہیں۔ الفاظ کا حسن انتخاب موسیقیت پیدا کرتا ہے بیان سادہ، رواں دواں اور مضامین عام فہم ہوتے ہیں۔ نہ تو ان میں عالمانہ دقت پسندی اور لفظی صناعی سے کام لیا گیا ہے اور نہ عقیدت مندانہ بے احتیاطی کو دخل ہے۔ حضور انورؐ کے کمال عبدیت کو دکھانے میں شاعر نے سارا زور صرف کر دیا ہے۔ وہ اکثر نعت گو شعرا کی طرح آپؐ کو عبدیت سے فارغ کرکے معبود کے رنگ میں جلوہ گر کرنے کی کبھی کوشش نہیں کرتے۔ اس لیے غلوکی وہ صورتیں مفقود ہیں جن سے حضورؐ کے حقیقی اوصاف پر حرف آتا ہے۔ ان خصوصیات کی بنا پر حضرت بہزاد کا مقام جدید دور کے نعتیہ غزل گو شعرا میں ممتاز ہے۔‘‘

ہم اس کی تمنا میں جائیں توکہاں جائیں

جو آنکھ میں رہتا ہے اور قلب میں بستا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔