ہنزہ میں گلیشئیر سرکنے کے باعث آبادی کے انخلا کا حکم

ویب ڈیسک  جمعرات 21 فروری 2019
ہنزہ میں 3 بجلی گھروں کو بند کردیا گیا، دریا کے ساتھ بند کی تعمیر شروع فوٹو:فائل

ہنزہ میں 3 بجلی گھروں کو بند کردیا گیا، دریا کے ساتھ بند کی تعمیر شروع فوٹو:فائل

گلگت بلتستان: ہنزہ انتظامیہ نے گلیشئیر سرکنے کے باعث برفانی تودے گرنے اور سیلاب کے خطرے کے پیش نظر آبادی کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی ہدایت کردی۔

گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں احسن آباد کے مقام پر شیشپر گلیشئیر کے سرکنے سے مقامی آبادی کو خطرات لاحق ہوگئے۔ مقامی حکومت کی جانب سے الرٹ جاری کردیا گیا ہے اور احسن آباد کے رہائشیوں نے انخلا کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔

ہنزہ میں زیر تعمیر ایک بجلی گھر پر کام روک دیا گیا ہے جبکہ دو چھوٹے بجلی گھروں کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ سیلاب کے خدشے کے پیش نظر دریا کے بہاؤ کے ساتھ بند کی تعمیر بھی شروع کر دی گئی ہے۔

ماہرین کے مطابق شیشپر گلیشیئر 1300 میٹر تک پھیلا ہوا ہے اور اس کی اونچائی چھ سو فٹ ہے۔ شیشپر مئی 2018 میں سرکنا شروع ہوا اور اب تک 1800 میٹر تک سرک چکا ہے اور آئندہ دنوں میں انسانی جان و مال کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے احسن آباد کے رہائشی مسکین گل نے بتایا کہ ’شیشپر کے سرکنے کی وجہ سے پوری آبادی میں شدید خوف پایا جاتا ہے۔ مگر ابھی تک ہمیں منتقل کرنے کے کوئی انتظامات نہیں کیے گئے ہیں۔ گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض احمد فراق نے بی بی سی کو بتایا کہ آبادی کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا کام آئندہ چند روز میں شروع ہو جائے گا۔‘

گلگت بلتستان کے محکمۂ موسمیات کے ڈائریکٹر زبیر احمد صدیقی نے بتایا کہ گلوبل وارمنگ اور موحولیاتی تبدیلیوں کے سبب علاقے میں سیکڑوں گلیشیئرز کو خطرات لاحق ہیں جن میں سے 36 گلیشیئرز انتہائی خطرے کا شکار ہیں۔ گلیشیئرز کے متاثر ہونے کی وجوہ گلوبل وارمنگ اور ایندھن کے لیے لکڑی کا استعمال ہے جس کا دھواں آلودگی پھیلاتا اور گلیشیئرز کو بہت متاثر کرتا ہے۔

واضح رہے کہ 2010 میں بھی ہنزہ کے گاؤں عطا آباد میں دریائے ہنزہ میں مٹی کا تودہ گرنے سے 20 افراد ہلاک ہوگئے تھے، اور دریائے ہنزہ میں پانی کا بہاؤ رکنے کے نتیجے میں ایک جھیل عطا آباد معرضِ وجود میں آ گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔