پوشیدہ پیچیدہ عشق کے مسائل

خطیب احمد  جمعرات 25 اپريل 2019
عشق کا تعلق دل سے نہیں بلکہ دماغ سے ہے۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

عشق کا تعلق دل سے نہیں بلکہ دماغ سے ہے۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

شاعر اور ادیب سب عشق کو لطیف اور پاکیزہ جذبہ قرار دیتے ہیں۔ دنیا بھر کے ادب و فن میں جتنا کچھ اس پر تخلیق کیا گیا ہے، اس کا عشر عشیر بھی اس موضوع کے حصے میں نہیں آیا۔ عشق، حب مفطر اور کشش معشوق مرتبہ وحدت کو کہتے ہیں۔ یا یوں کہہ لیجیے یہ ایک طرح کا جنون و سودا ہے جو صورت انسانی کو دیکھنے سے دل میں پیدا ہوتا ہے۔

ہماری مشرقی اقدار میں مردوں کے اذہان میں عورت کی جو شبیہہ ہوتی ہے، حتیٰ الامکان رومانویت کی ہوتی ہے۔ ان کو ہر اس عورت سے عشق ہوجاتا ہے، جو خوبصورت نظر آتی ہے یا خدوخال کے مطابق چست اور پرکشش ہو؛ جس سے وہ صنفی کج روی اختیار کرنے کا سوچتے ہیں۔ شاید اس کی اہم وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انٹرنیٹ پر جو فحش مواد ہے، اس میں جارحیت دکھائی جارہی ہے؛ اور اس جارحیت کا ارتکاب کرنے والے زیادہ تر مرد حضرات ہی ہوتے ہیں۔ ایسے مناظر بلاشبہ معاشرے میں جارحیت اور تشدد کو فروغ دینے کا باعث بن سکتے ہیں۔

دراصل مردوں کی تربیت عورتوں میں رہ کر ہی ہوتی ہے، عورتوں میں رہنے کا مطلب ماں، بہنوں، فیمیل کلاس فیلوز، کولیگز، گرل فرینڈز یا بیوی کے ساتھ رہنا ہے۔ ہمیں تعلیم دی جاتی ہے کہ عورت کم عقل ہے۔ اس کے ساتھ رہنے یا اس کی راۓ لینے سے معاملات خراب ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے باپ، بیٹے، شوہر، بھائی سب گھر کی خواتین کے ساتھ وقت کم اور دوستوں کے ساتھ وقت زیادہ گزارتے ہیں۔ معاشرے میں لڑکی آسانی سے ملتی نہیں، اس کی وجہ سے خواتین سے میل جول کم سے کم ہوتا ہے؛ اور جب کسی سے رابطہ کم ہو تو اس کے احساسات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا ہے۔ مردوں میں بیٹھ کر دوسرے مرد سے ’’عورت ذات‘‘ کے بارے میں عجیب و غریب باتیں اپنے ذہن میں بنا لیتے ہیں، جو آپ آئے روز کرتے بھی ہوں گے، جس پر آپ نے کبھی غور ہی نہیں کیا ہوگا۔ جس بنا پر مردوں کے اذہان میں عورت کی شبیہہ منفی منقش ہوجاتی ہے۔

ہر انسان کا احترام لازم ہے، مرد کے لیے عورت کا اور عورت کے لیے مرد کا۔ خواتین مردوں سے عورت کے احترام کی توقع رکھتی ہیں۔ لیکن مرد ان کی اس امید پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ کیونکہ بعض مرد تو صرف عورت کو تسکین حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ بعض اوقات وہ اس حد تک گر جاتے ہیں کہ مردوں کو اپنی ذات پر سے اعتماد اٹھتا جاتا ہے۔ جس بِنا پر مرد عینیت پسندانہ سوچ رکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

مرد میں ایک فطری کمزوری ہوتی ہے کہ اس کے ذہن میں ایک حسین عورت کا نظری مفروضہ موجود ہوتا ہے، جو اس کے اندر شدومد سے بول رہا ہوتا ہے۔ البتہ وہ اس خواہش کو ظاہر نہیں کرتا مگر ذہن میں اس کی شبیہہ بنا کر اپنے لمحات کو خوشگوار بنانے کی سعی کرتا ہے۔

اکثر مرد اپنے نستعلیق پن اور فَصیح و بلیغ گفتگو سے جتن کرتے ہیں کہ عورت ان کی چِکنی چپڑی باتوں میں آجائے۔ کیونکہ عورت نرم دل کی مالک ہوتی ہے۔ یہ ان کی فطری کمزوری تصور کی جائے یا ان کے نفس کا لالچ۔ عورت جذباتی اور معصوم ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ مرد کی باتوں میں آجاتی ہے۔ مرد عورت کی اسی فطری کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے پھنسا لیتا ہے۔ عورت چونکہ محبت اور توجہ کی متلاشی ہوتی ہے۔ جس انسان سے اسے محبت اور توجہ ملتی ہے تو وہ اس کی جانب رغبت اختیار کرلیتی ہے۔ چاہے وہ محبت جھوٹی ہو یا سچی، وہ اس انسان پر اعتبار کرلیتی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مرد کی محبت کم اور عورت کی بڑھتی جاتی ہے۔

بعض مرد خوبصورت عورت کو ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک خوبصورتی معنی رکھتی ہے۔ جس بنا پر اکثر و بیشتر مرد حسین عورتوں کی جانب آمادہ ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی پائے جاتے ہیں، جو ذہین عورت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک خوبصورتی کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ وہ نیک نیت، باکردار، ذہین عورت کو ترجیح دیتے ہیں۔ بعض ذہین عورت کو اس لیے پسند نہیں کرتے، کیونکہ ذہین عورت کو سنبھالنا بعض اوقات ان کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ مرد تو صرف یہ چاہتا ہے کہ عورت اس کی تدبیر کرے۔

لہٰذا عشق کا متلاشی ہر فرد ہوتا ہے۔ مگر تصوریت اور معروضیاتی عشق کا قائل نہیں ہونا چاہیے۔ جس کا خمارصرف چند دنوں تک ذہن کے قرطاس پر ابھرتا ہے، پھر رفتہ رفتہ مٹ جاتا ہے۔ دراصل نام عشق خاکستری میں مبتلا کردیتا ہے، کیونکہ ہمیشہ تصوریت عشق سے پرہیز کرنا چاہیے۔ یہ نظریہ کہ مادہ حقیقی نہیں بلکہ خیال ہی حقیقت ہے اور مادہ تو محض اس کا عکس ہے یا یہ کہ مادی کائنات ذہن ہی کی پیداوار ہے اور ذہن سے الگ اس کا کوئی وجود نہیں۔

ایک حالیہ سائنسی مطالعے سے ظاہر ہوا کہ عشق پہلی ہی نظر میں ہوجاتا ہے۔ جیسے ہی کوئی چہرہ نظروں کو بھاتا ہے، دماغ کے ایک مخصوص حصے میں برقی لہریں پیدا ہوتی ہیں، جنہیں ایم آر آئی کے ذریعے ریکارڈ کیا جاسکتا ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ محبت کا جذبہ کرۂ ارض کی ہر ذِی روح مخلوق میں موجود ہے۔ انسان کب محبت میں گرفتار ہوتا ہے، اس بات کا علم نہیں ہوتا۔ یہ ایک طویل عمل ہے، جو بتدریج آگے بڑھتا ہے۔

مگر شاعری اور موسیقی میں اسے ایک ایسا تیر قرار دیا گیا ہے جو آناً فاناً جگر کے پار ہوجاتا ہے۔ عشق کا تعلق دل سے نہیں بلکہ دماغ سے ہے۔ کیونکہ انسانی جسم کی تمام حرکات دماغ پر ہی انحصار کرتی ہیں۔

جبکہ نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ دیرپا محبت وہ ہوتی ہے، جو لمبے عرصے کے میل ملاپ اور ایک دوسرے کی خوبیاں اور خامیاں قبول کرنے سے پروان چڑھتی ہے۔ نفسیاتی ماہرین عشق اور شادی دو الگ چیزیں قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اکثر صورتوں میں محبت کی شادی ناکام ہوجاتی ہے، کیونکہ محبت میں دونوں کی توقعات بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں، جن کا پورا ہونا عملی طورپر ممکن نہیں ہوتا، جس سے دل کو ٹھیس لگتی ہے۔ یہ وہ منزل ہے جہاں ایک دوسرے کی خوبیاں بھی خامیاں دکھائی دینے لگتی ہیں اور ناکامی کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔

یہ وہ وجوہات ہیں جس بنا پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسی طرح آئے دن کوئی نہ کوئی گھریلو تشدد، عورت دشمنی اور ریپ جیسے واقعات جنم لیتے ہیں۔ جبکہ ریپ کا تعلق کپڑوں سے ہرگز نہیں بلکہ سوچ سے ہوتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خطیب احمد

خطیب احمد

بلاگر طالب علم ہیں، صحافت اور اردو ادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں، سماجی مسائل پر باقاعدگی سے لکھتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ فنِ خطابت سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔