- سندھ اور بلوچستان میں گیس و خام تیل کی پیداوار میں اضافہ
- چین کی موبائل فون کمپنی کا پاکستان میں سرمایہ کاری کا اعلان
- آرمی چیف اور ایرانی صدر کی اہم ملاقات، سرحدی سلامتی اور علاقائی امن پر تبادلہ خیال
- اب کوئی ایمنسٹی اسکیم نہیں آئے گی بلکہ لوگوں کو ٹیکس دینا ہوگا، وزیر خزانہ
- غیر ملکی وفود کی آمد، شاہراہ فیصل سمیت کراچی کی مختلف شاہراہیں بند رہیں گی
- شنگھائی الیکٹرک کمپنی نے کے الیکٹرک کے حصص خریدنے کی پیشکش واپس لے لی
- بھارتی ہٹ دھرمی؛ پاکستانی زائرین امیرخسرو کے عرس میں شرکت کیلیے ویزا کے منتظر
- پاک ایران صدور کی ملاقات، غزہ کیلئے بین الاقوامی کوششیں تیز کرنے پر زور
- پاکستان اور ایران کا دہشت گرد تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کا اصولی فیصلہ
- وساکھی میلہ اورخالصہ جنم منانے کے بعد سکھ یاتری بھارت روانہ
- تحریک انصاف کا ضمنی الیکشن میں دھاندلی کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان
- 7 اکتوبر کا حملہ روکنے میں ناکامی پر اسرائیلی انٹیلیجنس چیف مستعفی
- سائفر کیس میں شک کا پورا فائدہ ملزمان کو جائے گا، اسلام آباد ہائیکورٹ
- پشاور زلمی کے مالک جاوید آفریدی نے بابر اعظم کو گاڑی دینے کا وعدہ پورا کردیا
- سندھ بھر میں سڑکیں اور شاہراہیں بند کرنے پر پابندی عائد، مقدمہ درج کرنے کا حکم
- چند صارفین کی عدم ادائیگی پر سب کی بجلی منقطع کرنے والوں کیخلاف ایکشن ہوگا، ناصر شاہ
- ججز کو دھمکی آمیز خطوط؛ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے فل کورٹ اجلاس طلب کرلیا
- آئی پی ایل: آؤٹ دینے پر امپائر سے بحث، ویرات کوہلی پر جرمانہ عائد
- بلوچستان میں پہلی ایئرایمبولینس سروس شروع کرنے کا اعلان
- ہانگ کانگ اور سنگاپور میں دو بھارتی برانڈز کے مصالحوں پر پابندی عائد
ماڈل کورٹس؛ ایک اچھا اقدام
عدلیہ میں نظام کے اندر رہتے ہوئے نظام کو تبدیل کرنے کا عمل چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں انتہائی کامیابی سے جاری ہے۔ ضابطہ دیوانی 1908 میں 118 سال کے بعد 74 ترامیم کی منظوری اس سلسلے میں سنگ میل ثابت ہوئیں، اور اب ماڈل کورٹس کے قیام کے ذریعے عدلیہ کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ایک ایسا تعفن زدہ نظام، جہاں پر انصاف حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، ایسا نظام جس میں غریب آدمی کو انصاف اس وقت ملتا ہے جب اسے دنیا سے رخصت ہوئے برسوں بیت چکے ہوتے ہیں، ایسا نظام جس میں طاقتور کے لیے چھٹی کے دن بھی عدالتی نظام فعال ہوجاتا ہے اور غریب آدمی کا جج کبھی گرمائی چھٹیوں پر ہوتا ہے اور کبھی وہ وکلا گردی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسا نظام جس میں 1950 کے کیسز بھی زیر سماعت ہیں۔ ایک کیس ایسا بھی ہے جس کا گزشتہ سو سال سے فیصلہ نہیں ہوسکا۔ ایسے بدبودار نظام کو درست کرنے کی ماڈل کورٹس سے زیادہ موثر کوشش شائد نہیں ہوسکتی تھی۔
ملک بھر میں قائم 116 ماڈل کورٹس نے صرف دس روز میں 1464 مقدمات کے فیصلے کیے۔ اگر ماڈل کورٹس اسی طرح فعال رہیں تو ملک بھر میں قتل اور منشیات کے مقدمات کی تعداد میں 80 فیصد کمی آسکتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وکلا اس نظام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے، غلطیوں کی درستگی کی جاتی، مگر
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
جی ہاں! آپ کو حیرت ہوگی وکلا تنظیمیں اس نظام کو ناکام کرنے کے لیے سرگرم ہوچکی ہیں۔ وکلا تنظیموں نے اعلان کردیا ہے کہ جو وکیل ماڈل کورٹس میں پیش ہوگا اس کا لائسنس منسوخ کردیا جائے گا۔ نئے جوڈیشل سسٹم کو ناکام کرنے کے لیے وکلا کی جانب سے ہڑتال کا شیڈول جاری کردیا گیا ہے۔
میری بطور ایک عام شہری پاکستان بار کونسل اور دیگر وکلا تنظیموں سے گزارش ہے کہ براہِ کرم نئے جوڈیشل سسٹم پر تحفظات کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے، نہ کہ عوامی مفاد کے نام پر ہڑتالوں کے ذریعے پورے سسٹم کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر یہ سسٹم ناکام ہوگیا تو اس سے صرف اور صرف اس غریب آدمی کا نقصان ہوگا جو پہلے سے ہی حالات کے جبر کا شکار ہے۔ اس طرح ایک تاثر یہ بھی ابھر رہا ہے کہ وکلا کو اس بات کا خوف ہے کہ اگر عدالتوں میں کیس ختم ہوگئے تو وکلا کی روزی روٹی کیسے چلے گی۔ حالانکہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
(مفہوم) زمین پر جتنے جاندار ہیں ان کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔