یہ ’’100برس‘‘ ہمارے بھی ہیں

خرم سہیل  پير 2 ستمبر 2013
khurram.sohail99@gmail.com

[email protected]

قیام پاکستان کے بعد ہمارے حصے میں فنون لطیفہ کے تناظر میں بے سروسامانی کا عالم تھا، مگر اس کے باوجود ہم نے دھیرے دھیرے اپنے فنون کو سنبھال لیا، خاص طور پر ادب، شاعری، موسیقی، صداکاری، اداکاری اور مصوری کے شعبے میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب رہے۔ ادب اور شاعری کو دائیں اور بائیں بازو کے دانشوروں نے اپنالیا۔ ایک دوسرے کو جواب دینے میں کوشاں رہے، اس سے سب سے زیادہ فائدہ ان دونوں اصناف کو ہوا، دونوں نے نئی زمین پر اپنی جڑیں مضبوط کرلیں۔ مختلف ادبی تحریکوں نے ان میں نئی روح پھونک دی۔ موسیقی اور صداکاری کو ریڈیو پاکستان نے سہارا دے دیا۔ ریڈیو کی منجھی ہوئی آوازیں اس میڈیم سے تاریخ کے اوراق پر اور سامعین کے ذہنوں میں محفوظ ہوگئیں۔

اداکاری کے شعبے کو تھیٹر کے زوال کی وجہ سے وقتی طور پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن پاکستان میں ٹیلی ویژن کی آمد کے بعد اداکاری واپس لوٹ آئی۔ اس میڈیم نے پاکستانی ہنرمندوں کی شہرت دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دی۔ اس عروج میں فلمی صنعت نے بھی اپنا کلیدی کردار نبھایا۔ مصوری کو نیشنل کالج آف آرٹ جیسا ادارہ مل گیا، جس کی بنیادیں مضبوط تھیں، اس نے بہترین لوگ پاکستان کو دیے، اس کی وجہ سے یہ آرٹ ملک بھر میں پھیلا۔

اب موجودہ وقت میں یہ سارے میڈیم کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں اور ان سے ہماری ایک وابستگی ہے، مگر فلمی صنعت کی تباہی دیکھ کر دل بہت دکھتا ہے۔ ایک ایسا میڈیم جس نے ہمیں دنیا بھر میں شہرت دی۔ ہماری فلموں کے آگے بھارتی فلمیں ماند پڑجایا کرتی تھیں۔ فلمی صنعت میں ہر شعبے میں کام کرنے والے لوگ اپنے ہنر میں یکتا تھے، لیکن اس کو کسی بد نظر نے ایسا اجاڑا کہ اب بسانا چاہتے ہیں، مگر یہ بسنے کو نہیں آتی۔

فلمی صنعت کا جادو اس قدر سر چڑھ کر بولتا تھا، جس زمانے میں ہماری فلمیں عروج پر تھیں، اس وقت ہر نوجوان کا آدرش فلمی ستارے تھے۔ فلم کی ریلیز کے موقع پر سینماگھروں کے کھڑکی توڑ شوز چلا کرتے تھے۔ کسی نئی فلم کا ٹکٹ حاصل کرنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ یہ فلمیں صرف تفریح کا باعث ہی نہیں ہوتی تھیں، بلکہ ان کی کہانیوں اور مکالموں میں تربیت کا عنصر بھی شامل ہوا کرتا تھا۔ بہت سے موسیقار، گیت نگار، ادیب، شاعر، کہانی کار اسی فلمی صنعت سے عروج کی منزل طے کرتے ہوئے مقبولیت کے اعلیٰ مقام تک پہنچے۔

نہ جانے پھر کیا ہوا، فلمی صنعت کا جادو ٹوٹنے لگا۔ رفتہ رفتہ پرانے لوگوں سے یہ فلمی صنعت خالی ہونے لگی۔ کچھ عرصے تک مقامی زبانوں کی فلموں نے وقتی طور پر سہارا دیا، مگر یہ انتظا م بھی دیرپا ثابت نہ ہوا۔ ہمارا یہ شاندار فلمی صنعت کا میڈیم سیاسی کشمکش کی نذر ہوگیا۔ رواں برس بھارت ’’فلمی صنعت کے سو برس‘‘ منا رہا ہے۔ اس سو برسوں کی ریاضت میں ہمارے بھی بہت سے فنکاروں کاحصہ ہے۔ اس کو ایک مثال سے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ بھارت کی سب سے مقبول اور سنہری آواز لتا منگیشکر کو سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے تقریباً ایک ہزار فلموں میں چھتیس زبانوں میں گیت گائے اور لتا منگیشکر خود بھی یہ کہتی ہیں کہ ’’بالی ووڈ کے سو برسوں میں ستر برس میرے بھی ہیں۔‘‘

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی خدمات کو کس طرح تسلیم کیا گیا۔ بھارت کے سارے اعزازات ان کو نوازے گئے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون ہے، جس نے ان کو ستر برس پہلے اس صنعت میں متعارف کروایا، وہ کوئی اور نہیں ہماری فنکارہ اور گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں تھیں۔ انھوں نے لتا منگیشکر کو دریافت کیا اور منظر عام پر لانے میں معاونت کی، اسی لیے لتا انھیں دیدی کہتی تھیں، یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

بھارت جس فلمی صنعت کے سو برس منا رہا ہے، وہ سو برس ہمارے بھی ہیں۔ تقسیم سے پہلے دونوں طرف کے فنکار مل جل کر کام کررہے تھے۔ بٹوارے کے بعد دونوں علاقوں کے فنکاروں نے بھی ہجرت کی۔ میڈم نورجہاں یہاں آئیں، بڑے غلام علی خان وہاں چلے گئے۔ دلیپ کمار اُدھر اور سنتوش اِدھر رہ گئے۔ فلمی اسٹوڈیوز، تکنیکی عملہ اور تمام ہنرمندوں نے ہجرت کا تجربہ کیا۔ بھارت کی فلمی صنعت آج جس سو برس کا جشن منارہی ہے، اس سو برسوں میں بہت سے ناکامی کے ہیں، جس زمانے میں ہمارے فلمیں شہرۂ آفاق تھیں اور ان کی فلموں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں تھا، حتیٰ کہ ان کے ہاں اداکاری سکھانے والے ادارے ہمارے ڈراموں سے مدد لے رہے تھے۔ تقسیم سے پہلے ہم نے بھی برصغیر کے فنکاروں کے دائرہ کار میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ بٹوارے کے بعد پاکستان میں فلمی اسٹوڈیوز کو دوبارہ سے آباد کیا، جن کو ہندو مالکان یہ سوچ کر آگ لگا گئے تھے کہ یہ دوبارہ کبھی آباد نہ ہوں۔ اسی راکھ سے فن کی چنگاریاں پیدا ہوئیں اور یہ شعلوں میں تبدیل ہوئیں اور فلمی ستاروں میں بدل گئیں۔

ہمارے فنکاروں نے چالیس اور پچاس کی دہائی میں اپنے قدم جمائے اور پھر پچاس کی دہائی سے لے کر 80 کی دہائی تک فلم کے تمام شعبوں میں شاندار صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں کے بعد بھارت نے فلمی میڈیم کا سہارا لے کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ فلمیں بنائیں، جس کا جواب ان ہی کے انداز میں ان کو ہماری فلمی صنعت نے دیا۔ 80 کی دہائی کے آخر میں فلمی صنعت مختلف رجحانات سے متاثر ہوئی۔ وی سی آر کی آمد کے بعد لوگ گھروں میں فلمیں دیکھنے کو ترجیح دینے لگے۔ ضیاالحق کے مارشل لا نے بھی اپنا اثر دکھایا اور رہی سہی کسر گنڈاسہ کلچر نے پوری کردی۔ 80 اور نوے کی دہائی میں فلمی صنعت مکمل طور پر زوال پذیر ہوگئی۔ اس کے باوجود کچھ اچھی فلمیں اسی دور میں بنیں۔

نئی صدی کے آغاز سے پھر ایسا محسوس ہوا کہ ہماری فلمی صنعت دوبارہ سے جی اُٹھے گی۔ ابھی تک انفرادی سطح پر بہت سی کوششیں کی جاچکی ہیں، جن میں سے کچھ کو کامیابی حاصل ہوئی اور کچھ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، لیکن کسی نہ کسی صورت یہ کوششیں جاری ہیں۔ فلمی صنعت کا احیاء اسی صورت میں ممکن ہے، اگر اس کو سرکاری سرپرستی حاصل ہو۔ سرکاری غفلت نے ہی اس کو برباد کیا تھا اور سرکار کا دست شفقت ہی اس میں پھر سے روح پھونک سکتا ہے۔

ہماری سرکار کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں اب جنگیں کمپیوٹر اور آرٹس کے ذریعے لڑی جارہی ہیں، وہاں ایک بہت ہی مضبوط میڈیم ’’فلم‘‘ ہے، اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس کی تازہ مثال آپ کے سامنے ہے۔ اُسامہ بن لادن کے ایکشن کا ہمارے ہاں ڈراما ہوا اور اُدھر ہالی ووڈ والوں نے ’’زیرو ڈارک تھرٹی‘‘ کے نام سے فلم بنا ڈالی۔ بھارتی آئے دن پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا فلمیں بناتا رہتا ہے، لیکن ہمارے جذبات صرف پاک بھارت کرکٹ میچ تک محدود رہتے ہیں۔

بہرحال نئی صدی کے آغاز پر ہم نے اپنے سنہرے ماضی کی مقبولیت کی طرف واپسی کا سفر شروع کردیا ہے۔ اس سفر کی ابتدا نوے کی دہائی میں ہوگئی تھی، جب فلمی صنعت اپنے بدترین دور سے گزر رہی تھی۔ سید نور نے فلم ’’جیوا‘‘ بنائی۔ بابر علی اور ریشم کی یہ فلم کہانی اور موسیقی دونوں لحاظ سے ایک شاندار فلم تھی۔ عثمان پیرزادہ نے فلم ’’قرض‘‘ بنائی، جس میں بابرعلی اور نرما نے اداکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ خلیل الرحمن قمر کی کہانی اور گیت لکھے ہوئے تھے۔ یہ بھی ایک معیاری فلم تھی۔ ثمینہ پیرزادہ نے فلم ’’انتہا‘‘ بنائی، جس میں ذیشان سکندر، ہمایوں سعید، میرا اور ریشم تھے۔ اس کے گیت اور کہانی بھی متاثر کن تھی۔ اداکار شان نے بحیثیت ہدایت کار پہلی فلم ’’گنز اینڈ روزز، اک جنون‘‘ بنائی۔ یہ بھی ایک متاثرکرنے والی فلم تھی۔ یہ کچھ فلمیں ہیں، جو نوے کی دہائی میں بنائی گئیں۔ دو ہزار کا ہندسہ عبور کرنے کے بعد بہت اچھی فلمیں بننا شروع ہوئیں، ہر چند کہ ان کی تعداد کم ہے۔

2000 کے بعد سے لے کر 2010 تک جو فلمیں بنیں، ان میں سے چند ایک نام پڑھ کر اندازہ ہوجانا چاہیے کہ ہم پھر سے اپنے فلمی دور کے احیاء کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ ان میں، دیوانے تیرے پیارکے، سنگم، مجھے چاند چاہیے، سرگم، گھر کب آؤ گے، نکاح، چوڑیاں، یہ دل آپ کا ہوا، خدا کے لیے اور رام چند پاکستانی شامل ہیں۔ ہالی ووڈ کے فلمی ہدایت کار جمیل دہلوی کی فلم ’’دی مووی آف جناح‘‘ بھی اسی دہائی کی ایک شاندار فلم ہے۔ پنجابی فلم ’’ورثہ‘‘ نے بھی پنجابی فلموں کا روایتی تاثر ختم کیا، ایک شاندار ڈرامائی اور رومانوی پنجابی فلم تخلیق ہوئی۔

اس کے بعد اگلے تین برسوں میں بھی بہت کام ہوا ہے۔ کئی بہترین فلمیں منظرعام پر آئیں۔ 2013 میں اب تک جو نئی فلمیں ریلیز ہوئی ہیں، ان میں ’’میں ہوں شاہد آفریدی‘‘، ’’جوش‘‘ اور ’’عشق خدا‘‘ ہیں، جن کو شائقین دیکھ رہے ہیں جب کہ تقریباً 6 فلمیں ریلیز ہونے والی ہیں، جن میں چنبیلی، وار، کولاچی، سیاہ، کپتان، ناچ، زندہ بھاگ، گدھ اور ہجرت، دی ڈسک شامل ہیں۔

رواں برس میں بنی ہوئی یہ تمام فلمیں کوئی عام روایتی فلمیں نہیں، بلکہ ان کے موضوعات دور حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ فلم ’’جوش‘‘ ایک عورت کی معاشرے میں اپنے حقوق کی جنگ پر فلمائی ہوئی ہے۔ فلم ’’وار‘‘ ملک کو حالیہ درپیش دہشت گردی کے تناظر میں بنائی گئی فلم ہے۔ ’’کپتان‘‘ عمران خان کی زندگی پر بنائی گئی فلم ہے۔ ’’زندہ بھاگ‘‘ پاکستان میں غیر قانونی طور پر آنے والے تارکین وطن پر بنائی گئی ایک منفرد فلم ہے، جس میں بھارت سے نصیرالدین شاہ بھی کام کررہے ہیں۔ فلم ’’گدھ‘‘ پولیس، میڈیا اور فلمی صنعت کے تعلقات پر بنائی گئی ایک فلم ہے۔ دی ڈسک ایک ایسی فلم ہے جس کا موضوع لاپتا افراد اور ڈرون حملے ہیں۔

ان موضوعات کے بارے میں جان کر آپ کو کیا محسوس ہورہا ہے کہ یہ کسی گنڈاسہ فلمی صنعت کی بات ہورہی ہے؟ یہ موجودہ دور کی فلمی صنعت ہے۔ نئی نسل نے یہ بیڑا اٹھایا ہے کہ وہ فلمی صنعت کا احیاء کرے اور ہم اپنا کھویا ہوا یہ میڈیم واپس لاسکیں۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ برصغیر کے خطے میں جس فلمی سفر کا آغاز ہوا تھا، جس کے سو برس کو بھارت والے اپنا فلمی سفر کہہ کر منا رہے ہیں، وہ ہمارا بھی ہے۔ تخلیق کے اس پودے کو سینچنے میں ہماری کئی فنکار نسلوں کا خون پسینہ شامل ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ سو برس ہمارے بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔