سیاسی سرگرمیوں پر تشدد

یہ سب کچھ ہر سیاسی رہنما کرتا ہے جسے وہ اپنی سیاسی ضرورت سمجھتا ہے


June 17, 2019

PESHAWAR: پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کی اسلام آباد میں نیب آفس میں پیشی کے موقع پر انتظامیہ نے پیپلز پارٹی کے اسلام آباد میں داخلہ روکنے سمیت جس طرح جیالوں پر تشدد، لاٹھی چارج، واٹر کینن کا استعمال نیب دفتر کے باہر کرایا اس سے آمرانہ دور کی سیاسی سرگرمیوں کی یاد تازہ ہوگئی۔ بلاول زرداری، مریم نواز اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت حکومت مخالف جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر تشدد اور گرفتاریوں کی سخت مذمت کی ہے اور بلاول زرداری نے اس تشدد کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

اسلام آباد میں یہ تشدد پہلی بار نہیں ہوا بلکہ ایسا سب کچھ ماضی کی آمر حکومتوں سمیت پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، (ق) لیگ کی حکومتوں میں بھی ہوا تھا اور اب اسلام آباد میں 126 روز تک دھرنا دینے اور طویل دھرنے میں (ن) لیگی حکومت کی طرف سے تشدد سے محفوظ رہنے والی پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی ماضی کی حکومتوں کی ڈگر پر چلتے ہوئے ماضی کے ریکارڈ کو برقرار رکھا ۔ پی پی جیالوں پر تشدد کرایا جو اپنے چیئرمین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اسلام آباد آنا چاہتے تھے انھیں شہر میں داخل ہی نہیں ہونے دیا گیا جو اسلام آباد میں موجود تھے انھیں نیب کے دفتر کے قریب جانے نہیں دیا گیا اور جنھوں نے پولیس حصار توڑ کر جانا چاہا ان کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو ماضی کی حکومتوں میں ہوتا آیا تھا۔

پی پی کے کارکنوں پر تشدد اس پارٹی کی حکومت میں ہوا جو خود اسلام آباد میں 126 دنوں کے طویل دھرنے کا ریکارڈ رکھتی ہے جس کے دھرنے سے خوفزدہ ہوکر اس وقت کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اس دھرنے پر تشدد کرایا اور نہ دھرنا ختم کرانے کے لیے کچھ کیا اور دھرنا دینے والوں کی طرف سے ہونے والے تشدد، پولیس پر حملے، سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ، پارلیمنٹ ہاؤس میں گھسنے کی کوشش، پی ٹی وی اسٹیشن میں گھس کر عوامی تحریک اور پی ٹی آئی کارکنوں کی توڑ پھوڑ پر خاموش تماشائی بنی رہی اور پیپلز پارٹی جمہوریت کے نام پر حکومت کا ساتھ دیتی رہی اور حکومت نے عمران خان، طاہر القادری سمیت دونوں جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف صرف مقدمات درج کرنے پر اکتفا کیا۔ دھرنے میں ایس ایس پی اسلام آباد مظاہرین کے تشدد کا نشانہ بن کر زخمی ہوئے تھے اور درج کیے جانے والے مقدمات کی سماعت اب بھی ہو رہی ہے مگر وفاق اور پنجاب میں دھرنا دینے والوں ہی کی حکومت ہے اس لیے ان مقدمات کا جو نتیجہ نکلے گا اس کا سب کو پتا ہے سب چھوٹ جائیں گے اور ماضی میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔

ماضی اور سیاسی جماعت کہلانے والی جماعت عوامی تحریک کے دھرنے کو حقیقی اور پی ٹی آئی کے دھرنے کو سیاسی سے زیادہ محفل موسیقی کہا جاتا ہے جو ہر رات سجائی جاتی تھی اور مشہور فنکار اس میں شریک ہوتے تھے۔

عوامی تحریک پر اس وقت کی حکومت وعدہ خلافی کا الزام لگاتی تھی جو معاہدے کے برعکس رکاوٹیں کرین کے ذریعے ہٹاتی ہوئی پارلیمنٹ ہاؤس تک پہنچ گئی تھی اور اپنی مرضی سے دھرنا ختم کیا تھا۔ عوامی تحریک سخت سردی میں اس سے قبل پیپلز پارٹی کی حکومت میں دھرنا دے چکی تھی جس میں پارٹی کارکن اور ڈاکٹر طاہر القادری کے چاہنے والے باہر سخت سردی میں ٹھٹھرتے تھے اور رہنما گرم کنٹینر میں محفوظ اور جوشیلی تقریروں سے کارکنوں کا خون گرماتے تھے تاکہ انھیں سردی نہ لگے۔ یہ دھرنا پی پی حکومت کے آخری دنوں میں ہوا تھا اور حکومت تشدد کی بجائے مذاکرات اور جھوٹے وعدوں سے علامہ کو بہلا کر دھرنا ختم کرایا تھا۔

اس سے قبل جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد بھی اسلام آباد میں احتجاج اور دھرنے کرتے جو اکثر پرامن رہتے تھے اس لیے پولیس تشدد بھی کم ہی ہوا کرتا تھا اور اب عید الفطر کے بعد اپوزیشن اسلام آباد میں سیاسی احتجاج کی تیاریاں کر رہی ہے جس کا نتیجہ بعد میں ظاہر ہوگا۔

سیاسی سرگرمیوں کے نام پر اسلام آباد، کراچی، لاہور اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاج، ریلیاں، جلسے جلوس تو معمول ہیں ہی مگر اب مذہبی جماعتیں اور مختلف دیگر تنظیمیں بھی احتجاج کے مختلف طریقے اختیارکرتی رہتی ہیں جس سے متاثر حکومت نہیں عوام ہوتے ہیں ، جو احتجاجی مظاہروں کے باعث ٹریفک جام میں پھنس کر گھنٹوں خوار ہوتے ہیں، اب سیاسی و غیر سیاسی احتجاج مختلف شہروں کے اہم چوکوں، سڑکوں اور پریس کلبوں پر ہوتے ہیں جس سے عوام ہی پریشان ہوتے ہیں اور حکومت اپنے بڑے عہدیداروں کو محفوظ رکھنے کے لیے احتجاج کرنے والوں پر لاٹھی چارج، شیلنگ اور واٹر کینن کا استعمال کرکے احتجاج ختم کرا دیتی ہے جس میں لوگ زخمی بھی ہوتے ہیں اور گرفتار بھی۔ جن کی خبریں میڈیا میں نمایاں ہوتی ہیں اور کچھ دن مذمتوں کا یہ معاملہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور پھر نیا احتجاج ہوتا ہے۔

7 مئی کو نواز شریف اپنی ضمانت کی مدد مدت ہونے کے بعد جب جیل واپس جا رہے تھے تو ان کی پارٹی نے اپنے قائد سے اظہار یکجہتی کے لیے اپنے کارکنوں کو جیل تک جانے کی ہدایت کی تو لیگی کارکن رمضان المبارک اور گرمی میں سڑکوں پر آئے مگر پنجاب حکومت کو یہ بھی گوارا نہ ہوا۔ پرامن لیگی کارکنوں کو منتشر کرنے کی کوشش کی اور بعد میں ان کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے حالانکہ انھوں نے محض اپنے قائد کے حق میں نعرے بازی کی تھی کوئی نقصان نہیں کیا تھا۔ سرکاری طور پر نواز شریف کے اس طرح جیل جانے پر تنقید کی گئی مگر جب رمضان میں وزیر اعظم عمران خان احرام پہنے ہوئے طواف کے دوران ہاتھ ہلا کر اپنے چاہنے والوں کو جواب دیتے ہیں تو اس پر بھی اعتراض ہوتا ہے حالانکہ وہاں وہ سیاست کرنے نہیں بلکہ عمرہ کرنے اپنا مذہبی فرض سمجھ کر گئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہر سیاسی رہنما کرتا ہے جسے وہ اپنی سیاسی ضرورت سمجھتا ہے۔

سیاسی اجتماعات کے علاوہ سیاسی رہنما جب کسی سماجی تقریب خواہ وہ شادی ولیمہ ہو یا تعزیتی کبھی موقع ضایع نہیں جانے دیتے اور میڈیا کی توجہ بننا چاہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مریم نواز کے ایک تعزیتی اجتماع میں میڈیا سے گفتگو پر حکومتی ترجمان نے اعتراض کیا ہے جب کہ ایسا معمول بن چکا ہے کسی بھی اہم سیاسی شخصیت کی کسی بھی تقریب میں آمد خود سماجی کی بجائے سیاسی بن جاتی ہے۔ سماجی تقریب میں کارکنوں کی کھانے کے موقع پر یا کیک کٹ جانے کے موقع پر ہلڑ بھی ہوتی ہے مگر اب تک ایسی تقریبات سرکاری تشدد سے محفوظ ہیں۔

اسمبلیوں میں ہنگامہ آرائی اب ہر جگہ معمول ہے مگر اب موجودہ حکومت میں اسمبلیوں میں ہنگامے اور ہلڑ کی جو صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے ایوان میں گالیاں، آپس میں گتھم گتھا ہو جانا، اسپیکر نشست کا گھیراؤ اور پوسٹر لہرائے جانے جیسے واقعات ہو رہے ہیں اور بعض جذباتی وزرا ایسے الفاظ بول جاتے ہیں جس پر دوسری جانب اشتعال پیدا ہوتا ہے جس سے نوبت کسی بھی وقت سنگین ہو سکتی ہے اور اگر ایوان میں اسلحہ آجائے یا کرسیاں نصب نہ ہوں اور ایک دوسرے کو مارنے کا موقع ملے تو پھر کسی اسمبلی میں خونریزی بھی ہوسکتی ہے۔

اسمبلی ہنگاموں میں جو سیاسی ہوتے ہیں ابھی تک سرکاری تشدد نہیں ہوا مگر کوئی بعید نہیں کہ ایوان میں ہنگاموں پر قابو پانے کے لیے سرکاری تشدد ضروری ہوجائے اس لیے سب کی ذمے داری ہے کہ سیاسی سرگرمیوں میں تشدد نہ آنے دیں۔

مقبول خبریں