گواہوں کے تحفظ کا بل

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  اتوار 22 ستمبر 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

سال بھر کی سوچ بچار تذکرے اور تبصروں کے بعد بدھ کو سندھ اسمبلی نے گواہوں کے تحفظ کا بل مجریہ 2013 اتفاق رائے سے منظورکرنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔اس بل کے بارے میں قانونی حلقے ابتدا سے ہی بہت سے تحفظات کا اظہار کر رہے تھے اس پر رضاربانی اور بابر اعوان نے بھی اپنے تحفظات کا دو ٹوک اظہار کیا تھا۔

بل کے تحت گواہی دینے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے حکومت ان سے معاہدہ کرے گی، دھمکیوں اور خطرات کی صورت میں ان کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ انھیں الگ رہائش اور ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے گی۔ روزگار متاثر ہونے کی صورت میں انھیں مالی معاونت فراہم کی جائے گی، گواہ کے قتل ہوجانے یا مستقل طور پر زیر حفاظت رہنے کی صورت میں اس کے زیر کفالت بچوں کو مفت تعلیم اور ورثاء کو معاوضہ بھی ادا کرے گی۔ گواہ اپنی شناخت و دستاویزات اور آواز کو تبدیل کرسکیں گے انھیں عدالت میں پیش ہونے کی بجائے ویڈیو کانفرنسنگ کی سہولیات فراہم کی جائے گی۔ گواہوں کے تحفظ کے پروگرام کو چلانے کے لیے ایک مشاورتی بورڈ بھی تشکیل دیا جائے گا، ڈی آئی جی سی آئی ڈی کی سربراہی میں گواہوں کے تحفظ کا یونٹ بھی قائم کیا جائے گا۔

نئے قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے صوبائی وزیر قانون نے کہا ہے کہ صوبے میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ ایک کیس کے پانچ پانچ گواہوں کو قتل کردیا گیا ہے، دھمکیوں اور جان کے خطرات کے پیش نظر گواہ عدالت تک نہیں پہنچ سکتے لہٰذا اس قانون سے گواہوں کی حوصلہ افزائی ہوگی دہشتگردوں اور جرائم پیشہ افراد کو سزائیں دلوانے میں مدد مل سکے گی۔ اس سے ملتی جلتی ایک خبر یہ ہے کہ حکومت نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بااختیار بنانے کے لیے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1992 میں ترمیم کا مسودہ تیار کرلیا ہے جس کے تحت ان اداروں کو دہشت گردی میں ملوث شخص پر گولی چلانے کا اختیار حاصل ہوجائے گا۔

تحقیقاتی ادارے تفتیش کے لیے ملزمان کو 30 دن کی بجائے 90 دن تک حراست میں رکھ سکیں گے جب کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم مسلح افواج، سول فورسز اور خفیہ اداروں اور ایس پی سطح کے پولیس افسران پر مشتمل ہوگی یہ ٹیم ایف آئی آر کے اندراج کے 30 دن کے اندر ٹرائل کورٹ میں مقدمہ پیش کرے گی، انسداد دہشت گردی کی عدالتیں 30 دنوں میں فیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی ایسے مقدمات کی کارروائی دو سے زائد مرتبہ ملتوی نہیں کرائی جاسکے گی۔ ججوں،گواہوں اور پراسیکیوٹر کے تحفظ کے لیے حفاظتی اسکرین نصب کی جائے گی اور مقدمے کی کارروائی جیل میں وڈیو لنک کے ذریعے بھی کی جاسکے گی۔ غلط انکوائری کرنے پر تفتیشی افسر کو سزا اور بہترین انکوائری پر افسر انعام کا حقدار ہوگا الیکٹرک فرانزک شواہد کو بھی حتمی ثبوت کے طور پر استعمال کیا جاسکے گا مجوزہ ترامیم کی کابینہ منظوری کے بعد اسے پارلیمنٹ سے قانونی شکل دلوائی جائے گی۔

گواہوں کے تحفظ کے بل پر بعض دیگر حلقوں کے علاوہ حکومتی حلقوں کی جانب سے بھی اعتراضات و تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس قانون پر تحفظات رکھتی ہوں گی ممکن ہے آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہونے کی وجہ سے عدالت میں بھی چیلنج کردیا جائے۔ حکومت نے اس بل میں گواہان کو تحفظ دینے،کاروبار متاثر ہونے کی صورت میں مالی معاونت، قتل ہوجانے کی صورت میں ورثا کو معاوضہ، زیرکفالت بچوں کی مفت تعلیم دینے کا اعادہ کیا ہے لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ جو پولیس اہلکار اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ان کے لواحقین کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کوئی مربوط پالیسی نہیں ہے بچوں کی تعلیم وکفالت تو دورکی بات ہے مقتول پولیس اہلکاروں کی بیوہ اور یتیم بچوں سے سرکاری رہائش گاہ بھی خالی کرالی جاتی ہے ان کے بچوں کو اہلیت کے باوجود محکمے میں نوکری تک نہیں دی جاتی ہے اس قسم کی شکایات بہت عام ہیں۔

پولیس پیشہ ورگواہوں کا تو عام استعمال کرتی ہے اس قانون کے نتیجے میں اجرتی گواہ بھی پیدا ہوسکتے ہیں جن کی قانونی حیثیت بھی ہوگی۔گواہان کی شناخت اور شناختی دستاویزات اور آواز کو تبدیل کرکے انھیں چھپانا کوئی آسان کام نہیں ہوگا جرائم پیشہ عناصر کی منظم مافیا اتنے لمبے ہاتھ اور اثرورسوخ کی مالک ہے کہ گواہوں کے بارے میں سب کچھ معلوم کرسکتی ہے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں موجود کالی بھیڑیں اس مافیا کو تمام معلومات فراہم کرنے کے علاوہ اس قانون کو بلیک میلنگ، رشوت ستانی اور انتقام کے لیے بھی استعمال کرسکتی ہیں۔ اس قانون کے تحت گواہی کے سلسلے میں قانون کے بنیادی تقاضے بھی متاثر ہوں گے۔ حکومتیں اس کو سیاسی انتقام کے آلے کے طور پر استعمال کرسکتی ہے۔

اس سے عدالتیں، عوام اور خود ملزمان بھی مطمئن نہیں ہوں گے یہ معاملہ بنیادی انسانی حقوق اور آئین سے متصادم ہونے کی بنا پر عدالت میں چیلنج بھی ہوسکتا ہے کیونکہ آئین میں Free and Fair Trial شخصی آزادی اور انصاف کی ضمانت فراہم کی ہے جس کے تحت کسی بھی شخص کو اس کے خلاف عائد الزامات اور وجہ بتائے بغیر قید نہیں رکھا جاسکتا ہے نہ اسے قانونی مشاورت سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی گرفتار ملزم کو 24 گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کرنا اور 14 دنوں کے اندر اس کا چالان پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔ مگر ہماری پولیس کا ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ معمولی نوعیت کے جرم میں یا بغیر کسی الزام اور ثبوت کے شہریوں کو قید اور حبس بے جا میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان سے ناجائز مطالبات اور رشوت کا تقاضا کیا جاتا ہے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں ہلاکتوں کے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں مجسٹریٹ چھاپہ مار کر ماورائے قانون قید کیے گئے افراد کو بازیاب بھی کراتے رہتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے فرضی پولیس مقابلہ اور حراست کے دوران قتل کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔

پھر مقتولین کے ورثا کو خون بہا لینے یا معاف کرنے پر مجبور بھی کردیا جاتا ہے جہاں حفاظتی اسکرین اور پولیس گارڈ ایک جسٹس کو تحفظ دینے میں ناکام رہے تو وہاں حفاظتی اسکرین سے ججوں، گواہوں اور پراسیکیوٹر کو کیسے تحفظ کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ غلط انکوائری کرنے پر سزا اور بہترین انکوائری پر انعام کا فیصلہ میرٹ پر کیونکہ ہمارے نظام میں پتلی گردن ناپنے اور سفارشیوں کو نوازنے کا کلچر قائم ہوچکا ہے ۔ پولیس کے حالیہ شولڈر پروموشن کی تازہ مثال ہیں جو پولیس افسر انصاف کے لییعدالت گیا تھا اس کی احاطہ عدالت میں میڈیا کی موجودگی میں جو درگت بنائی گئی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ جب تک ملک میں گڈ گورننس قائم نہیں ہوتا قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سیاسی مداخلت ختم نہیں ہوگی ان سے وابستہ افراد میں اپنے حقوق و فرائض سے متعلق شعور و آگہی پیدا نہیں ہوگی دباؤ، خوف، لالچ، عدم جوابدہی جیسے عناصرکارفرما رہیں گے اس وقت تک ان کے لیے اضافی بجٹ، بیرونی تربیت، جدید اسلحے کی فراہمی سے کوئی خاطر خواہ مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ نئے نئے تجربات اور قانون سازی کی خامیوں سے اداروں کی کارکردگی کو نقصان تو پہنچتا رہے گا لیکن کوئی مثبت کارکردگی سامنے نہیں آئے گی۔

شیراز حیات کبھی کا بکھر گیا

جس گھر کا کوئی قتل ہوا‘ گھر اجڑگیا

لاشہ پڑا رہا سر بازار بے کفن

نظریں چرا کے سارا زمانہ گزرگیا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔