لاہور کے مضافات میں دریائے راوی کے کنارے واقع شاہدرہ کمپلیکس ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گیا ہے، جہاں حکومتِ پنجاب کی جانب سے مغلیہ دور کے عظیم تعمیراتی ورثے کی بحالی کا جامع منصوبہ جاری ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ نہ صرف تاریخی عمارتوں کو محفوظ بنانے کی کوشش ہے بلکہ پاکستان کو عالمی ثقافتی نقشے پر نمایاں کرنے کی سمت ایک اہم قدم بھی ہے۔
والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل نجم الثاقب کا کہنا ہے کہ طویل عرصے کے بعد حکومتِ پنجاب نے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ ان کے مطابق شاہدرہ کمپلیکس برسوں تک نظر انداز رہا، جس کی بڑی وجہ اطراف میں تجاوزات اور ناقص رسائی تھی۔
نجم الثاقب نےبتایا یہ ایک بہت بڑا تاریخی مقام ہے، مگر بدقسمتی سے وقت کے ساتھ اس کی اصل شناخت دھندلا دی گئی۔ اب ہم اسے دوبارہ اس کی تاریخی شان میں لانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ شاہدرہ کمپلیکس دراصل ایک مربوط مجموعہ تھا، جس میں مقبرہ جہانگیر، اکبر سرائے، مقبرہ آصف خان اور مقبرہ نور جہاں شامل تھے، مگر ریلوے لائن بچھنے کے بعد نور جہاں کے مقبرے کو الگ کر دیا گیا۔ ان کے مطابق جہانگیر کمپلیکس اس مجموعے کا سب سے بڑا حصہ تھا۔
نجم الثاقب نے تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ مغلوں نے تقریباً 14 برس لاہور کو دارالحکومت بنایا، جس کے باعث شہر اور اس کے گرد و نواح میں شاندار عمارتیں تعمیر ہوئیں۔ اکبری سرائے سب سے پہلے تعمیر ہوا، جو شاہراہِ ریشم سے آنے والے تاجروں کے لیے قیام گاہ اور تجارتی مرکز تھا۔
بحالی کے موجودہ مرحلے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اکبر ی سرائے میں 180 کمروں کی مرمت، نیا لائٹنگ سسٹم اور ٹرانسفارمرز نصب کیے جا رہے ہیں تاکہ رات کے وقت بھی سیاح آ سکیں۔ اسی طرح مقبرہ آصف خان اور مقبرہ جہانگیر میں واک ویز، لانز اور پویلینز کی بحالی جاری ہے۔
نجم الثاقب نے بتایا مقبرہ جہانگیر کی چھت سے پانی ٹپکنے کا مسئلہ سنگین تھا، جس پر اب قابو پایا جا رہا ہے۔ امید ہے ڈھائی سے تین برس میں یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔
شاہدرہ کمپلیکس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر اور ماہرِ آثارِ قدیمہ نعیم اقبال کے مطابق اس وقت چاروں یادگاروں پر بیک وقت کام جاری ہے۔ پہلے مرحلے میں عمارتوں کی ساختی مضبوطی کو یقینی بنایا گیا، جبکہ اب فریسکو پینٹنگ اور تزئین و آرائش کا مرحلہ شروع ہو رہا ہے۔منصوبے کے پہلے مرحلے کے لئے 50 ملین روپے مختص کیے ہیں۔

نعیم اقبال نے مقبرہ آصف خان کے گنبد کے حوالے سے کہا کہ تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر سفید سنگِ مرمر اور نیچے سرخ پتھر استعمال ہوا تھا، تاہم مکمل ڈیزائن دستیاب نہ ہونے کے باعث عالمی اصولوں کے تحت اصل شکل کی نقالی ممکن نہیں۔جہاں شواہد ہوں گے وہاں بحالی کی جائے گی، اور جہاں شواہد نہیں وہاں صرف حفاظتی مرمت ہو گی۔
بحالی کا کام شروع ہونے کے بعد جب شاہدرہ کمپلیکس کے نقش ونگار اورخوبصورتی سامنے آنے لگی ہے تو سیاحوں کی دلچسپی میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ کراچی سے آنے والی سیاح عائشہ نے کہا کہ مقبرہ جہانگیر پر جاری مرمت ایک مثبت قدم ہے۔یہ ہمارا قومی ورثہ ہے، اگر ہم خود اس کی حفاظت نہیں کریں گے تو کوئی اور بھی نہیں کرے گا۔ ایک اور سیاح عبدالرحمن کے مطابق صفائی اور ترتیب قابلِ تعریف ہے اور تاریخی مقامات کی حفاظت سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

کوئٹہ سے آئی تاریخ کی پروفیسر ڈاکٹر کوثر بٹ نے کہا کہ ایسے مقامات تعلیمی اعتبار سے بے حد اہم ہیں۔ ہم طلبہ کو کتابوں میں تاریخ پڑھاتے ہیں، مگر جب وہ یہ ورثہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو تاریخ زندہ ہو جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق شاہدرہ کمپلیکس کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ تجاوزات ہیں۔ تاہم شہریوں کو امید ہے کہ جس طرح حکومتِ پنجاب نے اندرونِ لاہور میں تجاوزات کے خلاف اقدامات کیے ہیں، اسی عزم کے ساتھ شاہدرہ کو بھی تجاوزات سے پاک کر کے یونیسکو کے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کرایا جائے گا۔