حج کے بعد کی زندگی

مولانا محمد الیاس گھمن  جمعـء 13 ستمبر 2019
حج کے بعد جوسنت والی زندگی سے دورتھے انہیں چاہیے کہ وہ چہرہ، لباس،وضع قطع اوراپنی چال ڈھال سب کچھ سنّت کے مطابق کرلیں۔ فوٹو: فائل

حج کے بعد جوسنت والی زندگی سے دورتھے انہیں چاہیے کہ وہ چہرہ، لباس،وضع قطع اوراپنی چال ڈھال سب کچھ سنّت کے مطابق کرلیں۔ فوٹو: فائل

حجّاج کرام کے قافلوں کی واپسی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ لاکھوں فرزندان اسلام حج و عمرے کے مناسک کی ادائی کے بعد حرمین شریفین سے اپنے وطن لوٹ رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ دنیا بھر کے تمام حج کرنے والوں اور عمرہ کرنے والوں کا حج اور عمرہ اپنے کرم سے قبول فرمائے۔ اس دوران ہونے والی تمام لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے اور بار بار بیت اللہ شریف کی مقبول حاضری کی سعادت نصیب فرمائے۔

اللہ کریم ہر مسلمان کے دل کی اس مبارک آرزو کو پورا فرمائے کہ اسے حج بیت اللہ اور زیارت روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توفیق زندگی میں ایک بار ضرور ملے۔ بیت اللہ کی ایسی کشش ہے جو ہر مسلمان کو بار بار اپنی طرف کھینچتی ہے، اس کے انوار و برکات کا صحیح ادراک تو اسے ہی ہو سکتا ہے جو وہاں جا کر یہ خود اپنے دل سے محسوس کر چکا ہو۔

بیت اللہ شریف پر نگاہ پڑنے سے دل کی بدلتی کیفیت کسی کو سمجھانا بہت مشکل ہے یہ الفاظ کی حد بندیوں سے آزاد احساس ہے۔ یہ وہاں جا کر ہی محسوس ہوتا ہے کہ میں پہلے کیا تھا اور اب کیا ہوں ؟ میں پہلے کہاں تھا اور اب کہاں ہوں ؟ کتنی خوش نصیبی کی بات ہے کہ اس ذات نے آپ کو اپنے گھر اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے در کی زیارت کا موقع عطا فرمایا۔

آپ نے اپنی آنکھوں سے یہ نظارہ بھی کیا کہ آپ کی طرح دنیا بھر کے مسلمان ہزارہا گناہوں میں لتھڑے لاکھوں لوگ رنگ، نسل، قوم قبیلے، برادری اور زبان وغیرہ کے فرق کو مٹا کر دیوانہ وار، بے خودی کے عالم میں احرام کی دو چادروں میں اپنے گناہوں کی گٹھڑیاں چھپائے، برستی آنکھوں اور لرزتے ہونٹوں کے ساتھ زبان کو یوں جنبش دے رہے تھے: لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک۔

حج بہ ظاہر دیکھنے میں ایک بامشقت فریضہ ہے، اس کی ادائی کے لیے جہاں انسان کا اچھا خاصا مال لگتا ہے وہاں اس کو اچھی خاصی جسمانی مشقت بھی اٹھانا پڑتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب انسان کے دل میں محبت الہٰی موج زن ہو، ذات حق کی طلب صادق ہو تو مشقت کا پتا چلتا ہے نہ ہی مال کی پروا ہوتی ہے، بل کہ صرف اسی ایک کی محبت، معرفت، خوش نودی اور رضا کی جستجو ہوتی ہے۔ پھر بھی دیکھنے میں جان، وقت اور مال سب اس کے لیے خرچ کیا جاتا ہے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہماری یہ عبادت اللہ کی بارگاہ میں قبول ہو جائے۔

اللہ کریم نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا، مفہوم : ’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔‘‘ (سورۃ محمد)

حج کی قبولیت کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ انسان گناہوں والی زندگی کو چھوڑ کر نیکیوں والی زندگی اختیار کرے۔ آپ جو بیت اللہ شریف اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار و برکات جو اپنے سینے میں محفوظ کر کے لائے ہیں اسے ضایع ہونے سے بچائیں۔ اپنے جسم کے ہر ایک عضو کو اللہ کے احکامات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقوں میں ڈھال دیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائی میں کوتاہی نہ کریں۔ عرفات کے میدان میں دیا ہوا خطبۂ حج کبھی نہ بھلائیں جس میں مسلمانوں میں باہمی اتفاق و اتحاد کا درس دیا گیا ہے اس کا تعلق زندگی کے ہر ایک لمحے سے ہے۔

باہمی تفاخر و تکاثر کو ختم کر کے وحدت امت کے لیے اپنا کردار مرتے دم تک جاری و ساری رکھیں۔ مالی معاملات کو درست کریں۔ اسلام کے معاشرتی اصولوں خصوصا صلۂ رحمی کا زیادہ خیال کریں۔ ہر وقت عبادات میں دل لگائے رکھیں۔ نماز باجماعت کا اہتمام کریں بل کہ کوشش کریں کہ نماز کے وقت سے کچھ پہلے مسجد میں جا کر سنن و نوافل تلاوت وغیرہ کریں۔ اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھیں۔ ہر وقت اللہ کی رضا پیش نظر ہو اور قومی، علاقائی اور خاندانی رسومات پر سنّت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ترجیح دیں۔

یہ بات اچھی طرح ذہن نشین فرما لیں کہ شیطان دو حملے کرتا ہے۔ پہلا حملہ یہ کرتا ہے کہ انسان عبادت نہ کر سکے اس لیے عبادت سے دور کرنے کے لیے گناہوں کو مزین کر کے پیش کرتا ہے اور دوسرا حملہ وہ اس وقت کرتا ہے جب انسان کوئی نیک عمل کر لے پھر اس کو تکبّر خودنمائی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں کہ جس طرح اس نے اپنے فضل و کرم سے نیکی کی توفیق عطا فرمائی اس طرح اپنے لطف و احسان سے نیکیوں کے ضایع ہونے سے ہماری حفاظت فرمائے۔

حج کے بعد وہ لوگ جو سنت والی زندگی سے دُور تھے انہیں چاہیے کہ وہ چہرہ، لباس، وضع قطع اور اپنی چال ڈھال سب کچھ سنّت کے مطابق کرلیں۔ اسی طرح وہ خواتین جنہیں حج و عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی ہے وہ پردے کا اہتمام کریں، اپنی ذاتی اور نجی زندگی کو گناہوں سے آلودہ نہ کریں، اگر گناہ ہو جائے تو فوراً ان سے توبہ کریں۔ جذبۂ خیر خواہی کو اپنے جذبات پر غالب رکھیں۔ غریب مفلس، نادار، مساکین اور یتامیٰ اور مستحقین لوگوں کی حتی الامکان امداد اور مظلوموں کی داد رسی کریں۔ شریعت کے احکامات پر عمل پیرا ہوں اور غیر اسلامی کاموں اور لایعنی باتوں سے خود کو بچانے کی فکر کریں۔ ال غرض اس آیت کی عملی تفسیر بن جائیں، مفہوم: ’’ اے ایمان والو! پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ۔‘‘ (سورۃ البقرہ)

یہ نہیں معلوم زندگی میں دوبارہ حج کی سعادت ملتی ہے یا نہیں ؟ اس لیے اس نعمت پر شکر ادا کریں اور اپنی زندگی میں ایسی تبدیلی لائیں کہ حج کا مقصد پورا ہو جائے۔ جیسے اللہ نے حج کرنے کی توفیق نصیب فرمائی ہے ایسے ہی مقبول و مبرور بھی فرمائے۔

دعا ہے کہ اللہ پاک آپ کو بار بار یہ عظیم الشان سعادت نصیب فرمائے بل کہ ہر مسلمان کو یہ نعمت عطاء فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔