رحمتِ عالم شافع محشر ﷺ

عبد القادر شیخ  جمعـء 8 نومبر 2019
’’میں پہلا شفیع ہوں گا اور سب سے پہلا وہ شخص جس کی شفاعت قبول کی جائے گی‘۔
 فوٹو : فائل

’’میں پہلا شفیع ہوں گا اور سب سے پہلا وہ شخص جس کی شفاعت قبول کی جائے گی‘۔ فوٹو : فائل

حضور اکرمؐ  کو دنیا و آخرت کے وہ تمام فضائل و خصائص عطا فرمائے گئے جو دنیا کے کسی بھی انسان کو عطا نہ ہوئے اور آخرت کی دنیا میں بھی مزید فضائل عطا ہوئے۔

آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ قیامت میں، میں پیغمبروں کا نمائندہ ، امام اور ان کی شفاعت کا پیروکار ہوں گا۔ پھر فرمایا: میں قیامت کے دن تمام انبیائؑ کا سردار ہوں گا۔ پھر فرمایا: قیامت کے دن حضرت آدم ؑ سے لے کر تمام پیغمبر میرے علَم کے نیچے ہوں گے۔ اور سب سے پہلے میں ہی اپنی لحد سے سے باہر آؤں گا۔‘‘ (ترمذی مناقب نبویؐ) پھر فرمایا: جب وہ (لوگ) خدا کے سامنے حاضر ہوں گے تو اُن کی طرف سے بولنے والا میں ہوں گا، جب وہ ناامید ہوں گے تو ان کو خوش خبری سنانے والا میں ہوں گا، اس دن خدا کی حمد کا علَم میرے ہاتھ میں ہوگا۔

آخرت کی خصوصیات میں سے آپؐ کی ایک خصوصیت شافع محشر کی بھی ہوگی۔

آپؐ نے ارشاد فرمایا: مفہوم: ’’ میں پہلا شفیع ہوں گا اور سب سے پہلا وہ شخص جس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ ایک اور موقع پر فرمایا کہ میں پہلا ہوں گا جو جنّت کی شفاعت کرے گا۔

(صحیح مسلم کتاب فضائل النبی۔ کتاب الایمان باب الشفاعت)

شفاعت کے موضوع پر ایک متّفق حدیث جو متعدد راویوں سے مروی ہے ان میں حضرت ابوہریرہ،ؓ حضرت انس بن مالکؓ، حضرت جابرؓ اور حضرت حذیفہ ؓ روایت کرتے ہیں، مفہوم: ایک مرتبہ آنحضورؐ نے صحابہ ؓ کی مجلس میں فرمایا کہ قیامت کے ہول ناک میدان میں لوگوں کو ایک شفیع کی تلاش ہوگی۔ لوگ پہلے حضرت آدمؑ کے پاس جائیں گے اور ان کی صفات بیان کرنے کے بعد کہیں گے کہ ہماری سفارش کر دیجیے۔ آپ فرمائیں گے میرا یہ رتبہ نہیں ہے۔ پھر لوگ حضرت نوح ؑ کے پاس پہنچیں گے اور ان سے کہیں گے اﷲ نے آپؑ کو اپنا شُکر گزار بندہ کہا ہے اس لیے آج ہماری سفارش فرمائیے۔

آپؑ نے فرمایا مجھے ایک دعا مستجاب ہونے کا موقع دیا گیا تھا جو میں طوفان کے وقت کرچکا لہٰذا اب تم لوگ ابراہیمؑ کے پاس جاؤ۔ چناں چہ مخلوق ان کے پاس پہنچے گی اور وہی شفاعت کا سوال کرے گی اور یہ بھی کہا کہ آپ خدا کے دوست یعنی خلیل ہیں، آپ کی سُنی جائے گی۔ تو   آپؐ نے فرمایا: وہ بھی فرمائیں گے آج جیسا غضب پہلے کبھی نہ تھا اس لیے میرا بھی یہ مرتبہ نہیں۔ تم لوگ موسٰی کے پاس جاؤ۔ یہ لوگ اب موسٰی کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ آپ نے خدا سے کلام کیا ہے اس لیے آپ ؑ کو اور لوگوں سے برتری حاصل ہے، اس لیے ہماری سفارش فرمائیے۔ وہ کہیں گے مجھ سے بھی ایک شخص کا قتل ہو چکا ہے جس کا مجھے حکم نہ تھا۔ آج خدا کا غضب عروج پر ہے اس لیے میری بھی نہیں سنی جائے گی، تم لوگ عیسٰیؑ کے پاس جاؤ۔

اب لوگ عیسٰیؑ کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپؑ نے گہوارے میں اﷲ سے کلام کیا ہے، اس کے علاوہ آپ کلمۃ اﷲ اور روح اﷲ ہیں ہماری سفارش کر دیجیے۔ آپؑ بھی مخلوق کو جواب دے دیں گے کہ میرا رتبہ بھی سفارش کرنے والا نہیں ہے۔ آج اﷲ کا غضب وہ ہے جو پہلے کبھی نہ تھا، اس لیے آپ رسول کریم محمدؐ کے پاس جائیں۔ اب مخلوق حضرت محمد ﷺ کے پاس آئے گی وہ سب کہیں گے آپ خدا کے رسول اور خاتم الانبیاء ﷺ ہیں، جن کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہیں، آپؐ اپنے پروردگار سے ہماری سفارش کر دیجیے۔ آپؐ عر ش کے پاس آئیں گے اور اذن طلب کریں گے۔ اذن ہوگا تو سجدے میں گر پڑیں گے۔

آپؐ دیر تک سجدہ میں رہیں گے پھر آواز آئے گی: اے محمد (ﷺ) سر اٹھاؤ، کہو سنا جائے گا، مانگو دیا جائے گا، شفاعت کرو قبول کی جائے گی۔ آپؐ عرض کریں گے: الٰہی امتّی! امتّی۔ حکم ہوگا، جاؤ جس کے دل میں جو کے دانے کے برابر بھی ایما ن ہوگا اس کو نجات ہے۔ آپؐ خوش ہوجائیں گے اور اس کی تعمیل کرکے پھر حمد و ثناء کریں گے اور سجدے میں گر پڑیں گے۔ پھر صدائے غیب آئے گی۔ اے محمد (ﷺ) سر اٹھاؤ، کہو سنا جائے گا، مانگو عطا کیا جائے گا، شفاعت کرو قبول ہوگی۔

آپؐ عرض کریں گے: الٰہی امتّی! امتّی۔ حکم ہوگا کہ جاؤ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا وہ بخشا جائے گا۔ غرض تیسری مرتبہ بھی آپؐ سجدے میں جا کر پھر امت کی بخشش کے لیے کہیں گے اور اس بار رائی کے سب سے چھوٹے دانے کے برابر ایمان والے شخص کی بھی بخشش کروالیں گے۔ آخر میں آپؐ ایک مرتبہ پھر سجدے میں جائیں گے پھر ویسی ہی ندا آئے گی۔ آپؐ فرمائیں گے جس نے تیری یکتائی کی گواہی دی یعنی لا الہ الا اﷲ کہا اسے بھی بخش دے۔ صدا آئے گی اس کا اختیار تمہیں نہیں لیکن مجھے اپنی کبریائی اور اپنی عظمت و جبروت کی قسم میں دوزخ سے ہر اس شخص کو نکال دوں گا۔ جس نے مجھے ایک کہا اور اپنے لیے دوسرا معبود نہیں بنایا۔

(صحیح بخاری، باب التفسیر بنی اسرائیل، صحیح مسلم باب الشفاعت)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔