مواقعوں کی سرزمین

وجاہت علی عباسی  اتوار 20 اکتوبر 2013
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

اس وقت ہم آفیشل ٹرپ پر ہانگ کانگ آئے ہوئے ہیں،اس کو بزنس دنیا کا حب مانا جاتا ہے جہاں دنیا بھر کی ملٹی نیشنل اداروں کی شاخیں موجود ہیں۔

اس ہفتے ہانگ کانگ میں دنیا کے دو سب سے بڑے الیکٹرانک فیئر ہورہے ہیں جس میں چائنا، کوریا، انڈیا جیسے ملک اپنی اپنی مصنوعات لے کر دنیا بھر کے Buyers کو دکھانے آئے ہیں۔ خریدار بھی امریکا، آسٹریلیا، انگلینڈ سمیت دنیا بھر سے یہاں نئی سے نئی مصنوعات کو دیکھنے اور تجارتی تعلقات اور رشتے استوار کرنے جمع ہوئے ہیں، یہاں طے پانے والے تمام معاملات سے ان ملکوں کو ملین آف ڈالرز کا فائدہ ہوگا جہاں یہ کمپنیاں قائم ہیں، یہاں بیشتر وہ لوگ موجود ہیں جو دنیا بھر میں اس مقصد سے گھومتے ہیں کہ کہاں سے وہ چیزیں بنوائیں اور امپورٹ کریں جس سے ان کی کمپنی کو فائدہ پہنچے۔

یہ تین چار دن کے فیئر الیکٹرانک کمپنیوں کے لیے اتنے ضروری ہوتے ہیں کہ یہ کمپنیز اپنے پورے سال کے آرڈر یہاں سے بک کرلیتی ہیں۔ حیران کن طور پر پاکستان کی نمایندگی یہاں نہ ہونے کے برابر ہے جو پاکستانی نظر آرہے ہیں وہ دوسرے ممالک میں مقیم لوگ ہیں اور کسی باہر کی کمپنی سے جڑے ہونے کی وجہ سے یہاں موجود ہیں۔ کچھ ایسے لوگ جنھیں دنیا بھر کی بڑی کمپنیوں کا خریدار مانا جاتا ہے۔ ان سے پاکستان کے بارے میں بات کرکے اندازہ ہوا کہ بزنس ورلڈ ہمارے بارے میں کتنا کم جانتی ہے۔

macy’s، وال مارٹ، فیوچرشاپ، بیسٹ بائی وہ بڑی بڑی کمپنیز ہیں جو کوئی چھوٹا آرڈر دیتی ہیں تو وہ بھی دس بیس ملین سے کم کا نہیں ہوتا، جب کمپنیاں اتنی بڑی ہوں تو ان کے بائرز کو بزنس کی اچھی طرح سمجھ ہونی چاہیے لیکن ان سے پاکستان کے بارے میں بات چیت کرکے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ہمارے ملک کے بارے میں بہت کم جان کاری رکھتے ہیں اور یہ معلومات ان اندازوں پر مشتمل ہیں جو انھیں نیوز چینلز کو دیکھ کر ملتی ہیں۔

وہ کچھ باتیں جو ہم نے پچھلے دو دنوں میں مختلف کمپنیوں کے عہدے داروں کو سمجھائیں وہ یہ ہیں۔ پاکستان میں اس وقت ایک سو اسی ملین لوگ رہتے ہیں ہمارے یہاں اوسط جی ڈی پی تقریباً پانچ فیصد سے بڑھ رہی ہے اسی لیے پاکستان اس وقت ایشیا کی پانچویں سب سے بڑی مارکیٹ ہے، انڈیا، ساؤتھ افریقہ، سعودی عرب اور مصر کے بعد پاکستان کے پاس سب سے زیادہ قوت خرید ہے۔ پاکستان میں اس وقت آبادی کی بڑی تعداد ایسے جوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمر تیس برس سے کم ہے، ہمارے یہاں مڈل کلاس طبقہ جو کسی کے لیے بھی لیبر فورس بنتا ہے خصوصاً بزنس کے لیے موجود ہے۔

ہمارے یہاں انگریزی زبان کو ہمیشہ فوقیت دی گئی ہے اور ہر اسکول جانے والا کچھ نہ کچھ انگریزی ضرور سمجھ اور بول لیتا ہے جو اس وقت بین الاقوامی تجارتی منڈیوں کے لیے بہت ضروری ہے۔

اپنے آئی فون پر ہم اس وقت ہانگ کانگ میں انگریزی میں کوئی جملہ لکھتے ہیں اور پھر آئی فون اس کو چائنیز میں ترجمہ کرکے بولتا ہے جس کے بعد ہماری بات یہاں موجود اس چائنیز کی سمجھ میں آتی ہے جو اکنامکس میں ماسٹرز ہے اور انگریزی کے نام پر صرف ’’ہیلو‘‘ بولنا جانتا ہے جب کہ پاکستان میں میٹرک پاس بھی اتنی انگریزی جانتا ہے کہ کہیں بھی اپنا کام چلالے۔

ورلڈ بینک کی 2013 کی ’’کس ملک میں بزنس کرنا آسان ہے‘‘ والی رپورٹ میں پاکستان ایک سو ستاسی (187) ملکوں کی لسٹ میں ایک سو سات ویں نمبر پر آتا ہے، یہ نمبر شاید آپ کو بہت نیچے لگ رہا ہوگا لیکن اس رپورٹ میں چائنا نمبر اکیانوے (91) اور انڈیا 132ویں نمبر پر آتا ہے یعنی کسی بھی ملٹی نیشنل کا پاکستان میں سیٹ اپ تقریباً اتنا ہی آسان ہے جتنا چائنا میں۔

پاکستان میں بزنس سیٹ اپ کرنا کئی ملکوں سے آسان ہے، ہمارے یہاں کوئی بھی شخص تین ہفتوں میں ضروری کاغذات کی کارروائی مکمل کرکے بزنس شروع کرسکتا ہے اور اسلام آباد میں تو صرف سولہ دن میں یہ عمل مکمل ہوجاتا ہے، رپورٹ کے مطابق کسی بھی کمپنی کا پاکستان میں سیٹ اپ 187 کی لسٹ میں 98 ویں نمبر پر آتا ہے جب کہ ہمارا پڑوسی ملک انڈیا اس لسٹ میں 137ویں نمبر پر آتا ہے۔

بیشتر ملکوں میں تجارت شروع کرنے میں پیچیدہ مراحل درپیش ہوتے ہیں، امپورٹ ایکسپورٹ پر عجیب و غریب طرح طرح کی پابندیاں ہوتی ہیں جیسے آسٹریلیا میں موم بتی امپورٹ نہیں کرسکتے لیکن اگر موم بتی کے اندر کا دھاگہ نکال دیا جائے تو اس پر پابندی نہیں ہے لیکن پاکستان میں اس قسم کی پابندیاں نہیں ہیں کوئی شیئر ہولڈرز کی بھی بندش نہیں ہے نہ ہی ہمارے یہاں ورک پرمٹ کا مسئلہ ہے، ہم ٹیکنالوجی میں بھی کہیں آگے ہیں مثلاً ایشیا کا سب سے بڑا موبائل نیٹ ورک پاکستان میں موجود ہے۔

وہ چیز جو کسی بھی کمپنی یا ادارے کو ہمارے یہاں تجارت کرنے پر آمادہ کرسکتی ہے وہ پاکستان میں موجود ہیں جیسے لیگل سسٹم، سڑکیں، ریل، سی پورٹ تیزی سے بہتر ہورہا ہے اور ہمارے ایشیا کے بیچ میں ہونے کی وجہ سے مڈل ایسٹ، چائنا، ترکی، آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسی جگہوں پر ایکسپورٹ کرنا آسان ہے۔

جو بات ہم نے یہاں موجود لوگوں کو نہیں بتائی وہ یہ کہ ہم کام چور ہیں۔ ایک سے سات اکتوبر تک چین میں چھٹی تھی اس لیے فیکٹریوں میں ورکرز نے سارا سارا دن اور رات مصروف رہ کر وہ کام پورا کیا جو ان دنوں میں مکمل ہونا تھا لیکن پاکستان میں عید سے دس دن پہلے سے اور سات دن بعد تک عید منانا ہمارے فرائض میں شامل ہوتا ہے جس دوران کام کرنے کا ہمارے یہاں کوئی تصور نہیں ہوتا۔ ہمارے پاس مواقعے ہیں، کامیابی کے لیے صرف اپنی سوچ اور کام کا انداز بدلنا ہوگا۔

یہاں انڈیا، کوریا، چائنا سے آئی کمپنیوں کو بارہ بارہ فٹ کے بوتھ میں ملین آف ڈالرز کا بزنس کرتے دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ پاکستان کی کمپنیاں بھی اس تجارت کا حصہ بنیں۔

جب کہ ہمارے پاس وہ سب کچھ ہے یا شاید اس سے بھی زیادہ جو ان دوسرے ملکوں کے پاس ہے پھر بھی ہم ان ملکوں سے پیچھے ہیں۔

ہانگ کانگ میں موجود مختلف ممالک کے نمایندوں کو جب پاکستان میں مواقعوں کے بارے میں بتایا اور ان کی آنکھیں حیرت سے کھلی دیکھیں تو اچھا لگا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ جب پاکستان جائیں تو تجارتی مواقعوں پر ہی نظر رکھیں وہ پاکستانی جو ان کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے ہیں ان کی زندگیوں کی مشکلات اور تکالیف پر نظر نہ ڈالیں ورنہ ان کی آنکھیں حیرت سے مزید کھل جائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔